اہلِ غزہ جس مشکل صورتِ حال سے گزر رہے ہیں، اس کی کوئی مثال تاریخ انسانی میں کم ہی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے مثال ہمت و حوصلہ بخشا ہے۔ انہوں نے اس دور میں دورِ صحابہ کرامؓ کی مثالیں زندہ کر دی ہیں۔ غزوۂ خندق صحابہ کرامؓ کے لیے بڑا امتحان تھا۔ اس جنگ میں عمرو بن عبدودّ کو حضرت علیؓ نے جہنم واصل کیا تو قریش کے دوسرے سورما نوفل بن عبداﷲ کے مقابلے پر حضرت زبیر بن عوامؓ نکلے۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا اور حضرت زبیرؓ پیدل تھے۔ اس نے آپؓ پر وار کیا تو آپ طرح دے گئے۔ پھر حضرت زبیرؓ نے اس پر تلوار سے وار کیا اور اسے دو ٹکڑے کر دیا۔ ضرب اتنی کاری تھی کہ دشمن کے ٹکڑے کرنے کے بعد تلوار گھوڑے کی زین تک اتر گئی۔ یہ منظر دیکھ کر بھی مسلمانوں نے تکبیر کے نعرے بلند کیے اور فرطِ جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت زبیرؓ جب اپنی صفوں میں واپس آئے تو صحابہ کرامؓ نے ان کا استقبال کیا۔ نورالدین حلبی کے بقول صحابہ کرام نے حضرت زبیرؓسے کہا: ''اے ابوعبداﷲ! ہم نے تمہاری تلوار جیسی تلوار کبھی نہیں دیکھی‘‘۔ ان کے جواب میں حضرت زبیرؓ نے فرمایا: ''برادرانِ عزیز! اس میں تلوار کا کوئی کمال نہیں بلکہ تلوار کے دستے پر جو ہاتھ تھا اس ہاتھ کی قوت کا کرشمہ ہے‘‘۔
عام حالات میں ایسی گفتگو کی نہ اجازت ہے نہ یہ اہلِ ایمان کا شعار ہے مگر جنگ کی حالت میں دشمن کے مقابلے پر اپنی قوت کے اظہار اور ساتھیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ایسے کلام کی اجازت ہے۔ غزوہ احد میں حضرت ابودجانہؓ کے اکڑ کر چلنے کا واقعہ بھی تاریخ میں منقول ہے۔ اس موقع پر بھی اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے ان کے اکڑ کر چلنے کو پسند فرمایا تھا حالانکہ عام حالات میں اکڑ کر چلنا معیوب اور ناپسندیدہ ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج: 2، ص: 428 تا 429) قریش کے دو جنگجو قتل ہو گئے تو باقیوں نے راہِ فرار اختیار کر لی اور خندق کو عبور کرکے واپس بھاگ گئے۔ عمرو بن عبدود کے قتل کے بعد ضرار بن خطاب اور ہبیرہ بن ابی وہب نے حضرت علیؓ پر حملہ کیا مگر انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ نوجوان جنگجو ان کی طاقت سے زیادہ قوت کا مالک ہے۔ حضرت علیؓ اس وقت عمرو بن عبدود کے ایک وار کے نتیجے میں معمولی زخمی ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود دشمن کو میدان سے مار بھگایا۔ اگر بھاگ نہ جاتے تو وہ بھی شیرِخدا کی شمشیر برّاں کا لقمہ بن جاتے۔
روایات میں آتا ہے کہ قریش نے اپنے مقتولین کی میتیں واپس لینے کے لیے دس ہزار درہم ادا کرنے کا وعدہ کیا مگر آنحضورﷺ نے فرمایا: ''ہم میتوں کے تاجر نہیں ہیں، یہ ناپاک جسم بغیر کسی قیمت کے ان کے حوالے کر دیے جائیں‘‘۔ چنانچہ دونوں مقتولین کی میتیں دشمنوں کے سپرد کر دی گئیں۔ اپنے بہادر ترین شہسواروں کے قتل پر قریش اور ان کے اتحادی خاصے بددل اور مایوس ہو گئے تھے مگر ابھی تک انہوں نے واپسی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ وہ اس خیال میں تھے کہ کسی نہ کسی طرح مدینہ پر فتح پا لیں اور خوب تاخت و تاراج کریں۔ مسلمان سخت مشکلات کا شکار تھے۔ شدید سردی بھی تھی اور ہر جانب سے دشمن کا محاصرہ بھی۔ اس پر مستزاد فقر و فاقہ اور بھوک و افلاس کی آزمائش!
اس دوران میں قریش کو بھی راشن کی کمی درپیش تھی مگر یہودی ان کی مدد کے لیے خوراک اور غلہ بھیجتے رہتے تھے۔ اسی طرح کا ایک قافلہ جو رات کے وقت بیس اونٹوں پر غلہ لاد کر قریش کے خیموں کی طرف جا رہا تھا مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا۔ یہ مالِ غنیمت آنحضورﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کیا گیا تو آپ نے اسے اہلِ مدینہ اور مجاہدین کے درمیان تقسیم کر دیا۔ قریش نے اس عرصے میں کئی مرتبہ کوشش کی کہ خندق کو عبور کرکے اندر داخل ہو جائیں مگر ہر مرتبہ انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ جب قریش اپنی پوری قوت صرف کرکے جارحانہ کارروائیاں کر رہے تھے تو مسلمان بھی مکمل طور پر ہوشیار اور بیدار تھے۔ نبی اکرمﷺ ایک سرد رات کو اپنے خیمے میں تشریف لائے اور آپﷺ نے فرمایا: ''کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی مردِ صالح آج یہاں پہرہ دے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد آنحضورﷺ نے اپنے خیمے کے باہر اسلحے کی آواز سنی۔ آپﷺ نے پوچھا ''کون ہے‘‘ تو جواب ملا ''سعد بن ابی وقاص۔ میں آپﷺ کے خیمے کے باہر پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘۔ آنحضورﷺ نے انہیں دعا دی اور فرمایا کہ تم فلاں مقام پر‘ جہاں سے دشمن کے خندق عبور کرنے کا خطرہ ہے‘ جا کر پہرہ دو؛ چنانچہ وہ آنحضورﷺ کے حکم کی اطاعت میں خندق کی حفاظت کے لیے چلے گئے۔ ان کی جگہ حضرت عباد بن بشرؓ خیمے کے باہر پہرہ دیتے رہے۔ آنحضورﷺ تھوڑی دیر کے لیے اطمینان کے ساتھ سو گئے۔ آپﷺ سحری کے وقت اٹھے ، وضو کیا اور دو رکعت نفل پڑھ کر خندق کے معائنے کے لیے خود نکلے۔ آپﷺ نے خندق کی دوسری جانب دشمن کے گھڑ سواروں کی حرکت محسوس کی تو فوراً عبادؓ بن بشر کو آواز دی اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کوئی اور بھی ہے تو انہوں نے جواب دیا ''جی ہاں یا رسول اﷲﷺ! میرے ساتھ فدا کاروں کی ایک جماعت موجود ہے‘‘۔ آپﷺ نے انہیں دشمن کے گھڑ سواروں کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ ان پر نظر رکھو۔
محاصرے کے دوران سرداراِن قریش خالد بن ولید اور ابوسفیان بن حرب اپنے کیمپوں سے حملہ آور دستوں کو ہدایات دیتے رہے مگر جب یہ محسوس کیا کہ کوئی بھی دستہ کامیاب نہیں ہو رہا تو ان پر مایوسی اور جھنجھلاہٹ طاری ہو گئی۔ اپنے بعض سورماؤں کے خندق کے اس پار قتل ہو جانے پر ان کی آتشِ انتقام مزید بھڑک اٹھی تھی۔ ایک رات تاریکی کے پردے میں خالد بن ولید نے خود اپنے گھڑ سوار دستے کی قیادت کی۔ خندق کے نسبتاً تنگ پاٹ کو عبور کرنے کے لیے وہ آگے بڑھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی سرد اور تاریک رات کو خندق کے اس پار مجاہدین اتنے چاق و چوبند ہوں گے۔ خندق کے دوسری جانب سردارِ اوس اسید بن حضیرؓ دو سو مجاہدین کے ساتھ پہرہ دے رہے تھے۔
سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر مستعد تھے مگر سردی کی شدت، غذا کی قلت اور دشمن کی کثرت کی وجہ سے بہت سے لوگ خوفزدہ تھے۔ منافقین اپنے گھروں میں دبک گئے تھے اور یہودی اپنی خباثت پر تلے بیٹھے تھے۔ آنحضورﷺ کے ساتھ خلفائے اربعہؓ اور سعد بن معاذؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ موجود تھے۔ صحابہ کرام نے آنحضورﷺسے پوچھا ''یا رسول اﷲﷺ! اس موقع پر ہمیں کوئی دعا بتایئے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: تم پڑھا کرو: اللّٰھم استر عوراتنا واٰمن روعاتنا۔ یعنی اے اﷲ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں خوف سے مامون فرما۔ (متفق علیہ) اسی رات جبریل علیہ السلام نے آ کر خوشخبری سنائی تھی کہ محاصرین ناکام و نامراد واپس جائیں گے اور اﷲ کے طوفانی لشکر عنقریب ان پر چھوڑے جائیں گے۔ نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام کو بھی یہ خوشخبری سنائی اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اظہارِ تشکر کے لیے باربار شکراً یا ربّی شکراً کے الفاظ ادا کیے۔
صحیح بخاری میں آنحضورﷺ کی اس جنگ کے دوران مزید دعائیں بھی نقل کی گئی ہیں۔ ایک دن نبی اکرمﷺ اپنے صحابہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : ''اے لوگو! کبھی دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کیا کرو۔ آزمائش سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرو لیکن اگر دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو پھر ڈٹ جایا کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے‘‘۔ پھر آپﷺ نے دعا مانگی ''اے مصیبت زدگان کے مددگار! اے پریشان حال لوگوں کی دعائیں سننے والے! ہماری مصیبت، پریشانی اور غم دور فرما۔ مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر جو بیت رہی ہے تو اسے اچھی طرح جانتا ہے‘‘۔ آخری حملے میں دشمنوں نے اپنی پوری قوت جھونک دی تھی۔ دن کے پہلے حصے میں انہوں نے ہجوم کیا اور رات گئے تک وہ خندق عبور کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہے۔ ادھر آنحضورﷺ اپنے مخلص صحابہ کرام کے ساتھ دشمن کے مقابلے پر پا مردی سے ڈٹے رہے۔
دشمن کے حملے کی شدت نے آنحضورﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو نماز پڑھنے کا بھی موقع نہ دیا۔ صحیح حدیث کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضورﷺ نے ظہر، عصر، مغرب اور عشا‘ چاروں نمازیں غروبِ آفتاب کے بعد اندھیرا چھا جانے پر ادا کیں۔ محدثین اور مؤرخین نے اس موقع پر آنحضورﷺ کی وہ بددعا نقل کی ہے جو آپﷺ نے مشرکین کے خلاف مانگی تھی۔ آنحضورﷺ کی سیرتِ طیبہ میں ایسا موقع شاید کوئی دوسرا نہیں آیا جب آپﷺ نے اتنے سخت الفاظ استعمال کیے ہوں۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: ''اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے پیٹ، دل اور قبریں آگ سے بھر دے جنہوں نے ہمیں نماز سے غافل کر دیا‘‘۔ (مسند احمد، عن عبداللہ بن مسعودؓ) پھر حضرت بلالؓ نے اذان پڑھی اور سب نمازیں جمع کر کے ادا کی گئیں۔ (صحیح بخاری) اگلی رات اللہ تعالیٰ نے ایسا طوفان بھیجا کہ جس نے دشمنوں کو مکمل طور پر حواس باختہ کر دیا، انہیں میدان سے بھاگ جانے کے سوا کوئی راستہ سجھائی نہ دیا۔ اس موقع پر حضورپاکﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: آئندہ مکہ کی طرف سے کبھی بھی مدینہ پر چڑھائی نہ ہو گی بلکہ اب مدینہ کی طرف سے مکہ پر چڑھائی ہو گی۔
اے اللہ! اپنے نبیﷺ کی دعائیں ان کے سچے، مجاہد صفت مجاہدینِ غزہ کے حق میں بھی قبول فرما لے۔ اے اہلِ غزہ! تم تاریخ اسلامی کے ماتھے کا جھومر ہو، تم نے سنتِ نبوی کو زندہ و پائندہ کر دیا ہے۔ ان شاء اللہ دنیا و آخرت میں کامیابی تمہارا مقدر ہے۔''نہ غم کرو مجاہدو! خدا تمہارے ساتھ ہے‘‘۔