نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکی زندگی میں بنوثقیف کے شہر طائف کی طرف بغرضِ دعوت و تبلیغ سفر کیا تھا جس کے دوران آپﷺ پر پتھروں کی بارش کی گئی۔ آپﷺ کی سیرت اور عربوں کی پوری تاریخ میں کسی مہمان یا مسافر کے ساتھ یہ ایسا بدترین سلوک تھا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ وقت گزرتا گیا، اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے گئے۔ آنحضورﷺ نے ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح کر لیا۔ اس کے بعد بنوہوازن کے ساتھ گھمسان کی جنگ ہوئی۔ اس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ توبہ میں غزوۂ حنین کے نام سے آیا ہے۔ بنو ہوازن کی شکست کے بعد بنوثقیف کا محاصرہ کیا گیا۔ بنوثقیف اگرچہ ہوازن کی ایک شاخ ہیں مگر اپنے اثر و رسوخ، دولت، وجاہت اور خوبصورت و زرخیز وادی کے سرسبز باغات کی وجہ سے ان کا بڑا مقام اور امتیازی شان تھی۔ ان کے تجارتی قافلے بھی سارے ملکوں کو جاتے تھے اور جزیرہ نمائے عرب کے باہر کی کم وبیش تمام چھوٹی بڑی ریاستوں کے شاہان و ملوک کے درباروں تک بھی ان کی رسائی تھی۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت سے قبل جب بنوثقیف کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے مکہ سے طائف تشریف لے گئے تھے تو بنوثقیف کے سرداروں نے انتہائی متکبرانہ رویہ اپنا رکھا تھا۔ سفر طائف کے جو واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں‘ اس کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا وہ سخت ترین دن تھا جس میں اللہ کے آخری نبی ابتلا و امتحان کے مشکل ترین مرحلے سے گزرے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنوثقیف سے ان کے ظالمانہ طرزِ عمل کا انتقام لینے نہیں بلکہ ان کی طرف سے اسلامی ریاست کے مقابلے پر جنگی تیاری اور ارادوں کا زور توڑنے کے لیے ان کے مدمقابل آئے تھے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بڑی فراخ دلی کے ساتھ نہ صرف معاف کیا بلکہ انعامات و نوازشوں سے بھی مالا مال کر دیا۔
بنوثقیف کی تمام عرب قبائل کے درمیان اہمیت اس بات سے بھی واضح ہے کہ کفار قریش نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر جو اعتراضات اٹھائے تھے اس میں آپﷺ کی تنگدستی و فقر کو بنیاد بناتے ہوئے یہی کہا تھا کہ اگر کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ دو بستیوں یعنی مکہ اور طائف کے سرداروں میں سے کوئی بڑا سردار ہوتا۔ قرآن مجید کے الفاظ ہیں: ''اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن دونوں شہروں (مکہ اور طائف) کے بڑے سرداروں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا‘‘۔ (الزخرف: 31)
زمانہ جاہلیت میں بنو ثقیف کی شاخیں بنو جہم بن ثقیف اور بنو عوف بن ثقیف معروف تھیں۔ یہ ہمیشہ بڑی حربی قوت رہے۔ حروب فجار میں بھی ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان کے شہر کا نام طائف بھی عربوں کی تاریخ میں بہت مشہور ہوا۔ طائف کی وجہ تسمیہ یہ بیان ہوئی ہے کہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے شہر کے گرد ایک فصیل بنائی گئی تھی اور ان کی حفاظتی فوج فصیل کے باہر طواف کی صورت میں چکر لگاتی رہتی تھی۔ اسی لیے اس شہر کا نام طائف ہوگیا۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 8 ھجری میں ان کا محاصرہ کر لیا۔ بنوثقیف چونکہ قلعہ بند تھے اور انہوں نے کافی سارا غلہ اور خور و نوش کا سامان بھی جمع کر رکھا تھا اس لیے انہیں کوئی خوف نہ تھا۔ ساتھ ہی ان کے پاس وہ منجنیقیں بھی تھیں جو وہ شام سے لائے تھے۔ طائف کا محاصرہ جب طویل ہوا تو بعض صحابہ کرامؓ نے آپﷺ سے عرض کیا کہ بنوثقیف کے بارے میں بددعا فرمائیں مگر آپﷺ نے بدعا کے بجائے فرمایا: ''اے اللہ بنوثقیف کو ہدایت دے دے‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی اور بنوثقیف، غزوہ ثقیف کے بعد جلد ہی اسلام میں داخل ہو گئے۔
غزوہ بنوثقیف سے قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی فوج کو جب تیار کیا تو پوچھا کہ خالدؓ بن ولید کا اب کیا حال ہے؟ آپ غزوۂ حنین میں زخمی ہو گئے تھے۔ آپﷺ کو بتایا گیا کہ وہ اب ٹھیک ہیں۔ آپﷺ نے انہیں بلا بھیجا اور فرمایا کہ خالد! تمھیں طائف کی طرف جانے والے لشکر کے آگے آگے اپنے ہراول دستے کو لے کر چلنا ہے۔ آپﷺ نے ان کی مدد کے لیے اس راستے کے ماہرین کو بھی مقرر کر دیا جو انہیں آسان اور محفوظ راستے سے منزل پر لے گئے۔ حضرت خالدؓ بن ولید وہاں پہنچ گئے مگر بنوثقیف نے اپنے قلعوں کو خوب مضبوط بنا رکھا تھا۔ فوج کو دیکھتے ہی انہوں نے قلعے کے سبھی دروازے بند کر دیے۔
واقدی اور ابن ہشام کے بقول طائف کی طرف جاتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام ''حرۃ الرغا‘‘ میں قیام فرمایا۔ یہاں آپﷺ کے سامنے قتل کا ایک کیس لایا گیا جس میں بنوہذیل کے لوگوں نے بنوثقیف کے ایک آدمی کے خلاف مقدمہ پیش کیا کہ اس نے ان کے بھائی کو قتل کیا ہے اور وہ نہ تو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ خون بہا قبول کرنے کو۔ چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ کیا اور قاتل کو قتل کے بدلے قتل کردیا گیا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ یہ تاریخ اسلام کا پہلا قصاص ہے۔ جب آپﷺ آگے بڑھے اور ایک وادی میں پہنچے تو آپﷺ نے پوچھا کہ اس وادی کا کیا نام ہے تو بتایا گیا کہ الضیقہ (تنگی کی جگہ)۔ آپﷺ کا معمول تھا کہ انسانوں کے نام بھی اگر غلط معنی پر مبنی ہوتے تو انہیں تبدیل کر دیتے اور مقامات کے ساتھ بھی آپﷺ کا یہی معمول تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے الضیقہ مت کہو بلکہ اسے الیُسْرٰی کہو یعنی آسانی کی جگہ۔ راستے میں آپﷺ نے ایک قلعے کو مسمار کرنے کا حکم دیا جو کبھی مالک بن عوف کا مرکز ہوا کرتا تھا اور ایک معاند مشرک کا باغ بھی اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ویران ہوا۔(واقدی، ج: 3، ص: 924 تا 925، ابن ہشام، ج: 3، 4، ص: 482)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت حبابؓ بن عبدالمنذر صائب الرائے تھے۔ غزوہ بدر میں انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے خیمے لگانے کے لیے جو مشورہ دیا اس پر عمل کیا گیا تھا۔ اسی طرح غزوہ خیبر میں بھی ان کے مشورے کے مطابق مقاماتِ خندق تبدیل کیے گئے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے بہت صائب مشورے دیے جنہیں قبول کیا گیا۔ پہلے مقام پر صحابہ بنوثقیف کے تیروں کی زد میں تھے اور ابومحجن ثقفی ایک بلند مینارے سے کڑی کمان میں لمبے تیر ڈال کر مسلمانوں پر نشانے باندھ رہا تھا۔ کئی صحابہ اس کی تیراندازی سے زخمی ہوئے (بعد میں ابومحجن مسلمان ہوئے تو تاریخ اسلام میں بھی ان کے بڑے کارنامے ہیں)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ نے اس محاصرے کے حالات بیان کیے ہیں۔ حضرت عمروؓ بن امیہ الضمری بیان فرماتے ہیں کہ جگہ تبدیل کرنے سے پہلے یہ تیر ہمارے اوپر یوں آتے تھے جیسے ٹڈی دَل ہو۔ ہم بڑی مشکل سے ان سے بچتے مگر پھر بھی ہمارے کئی ساتھی زخمی ہو گئے۔ پھر حضرت حبابؓ کے مشورے کے مطابق ہم نے اپنی پوزیشنیں تبدیل کیں تو محفوظ و مامون ہوگئے۔ (واقدی، ج: 3، ص: 925 تا 926)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت یزید بن زمعہ بن اسودؓ دشمن کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کا واقعہ مؤرخین نے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ عجیب وغریب ہے۔ بنوثقیف نے ایک جادوگر عورت کو قلعے سے باہر نکالا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے جادو کے ذریعے ہرقوت کو بے بس کر سکتی ہے۔ وہ اس قدر بے حیا خاتون تھی کہ اپنے جسم کے قابلِ ستر حصوں کو برہنہ کرکے مسلم فوج کے سامنے آگئی۔ صحابہ نے اس بے حیائی کے منظر کو دفع کرنے کے لیے حملہ کیا تو وہ بھاگ گئی۔ اس دوران حضرت یزید بن زمعہؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر بنوثقیف سے بات چیت کرنے کے لیے گھوڑے پر سوار ہوکر قلعے کی طرف بڑھے۔ انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ میں گفتگو کے لیے آنا چاہتا ہوں، اگر آپ لوگ مجھے امان دیں تو میں آؤں، اس پر بنوثقیف نے انہیں امان دے دی۔ عربوں کے معروف ضابطے کے برعکس امان دینے کے باوجود حضرت یزید بن زمعہؓ کو شہید کر دیا گیا۔ اس قبیح جرم کا ارتکاب مشہور عرب شاعر اور دانشور امیہ بن ابی الصلت کے بھائی ہذیل بن ابی الصلت نے کیا۔
حضرت یزید بن زمعہؓ کے بھائی حضرت یعقوب بن زمعہؓ بھی لشکر میں موجود تھے۔ بھائی کی جدائی کا غم تو فطری تھا لیکن بنوثقیف کی بدعہدی پر انہیں اور بھی زیادہ صدمہ پہنچا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ قاتل ہذیل اپنے کسی کام سے قلعے سے باہر نکلا۔ اس کا خیال تھا کہ اس وقت اسے کوئی نہیں دیکھ رہا مگر حضرت یعقوبؓ اتفاق سے اسے دیکھ رہے تھے اور اس کی گھات میں تھے۔ جونہی قاتل باہر نکلا حضرت یعقوبؓ نے اسے پکڑ کر قابو کر لیا اور وہیں قتل کرنے کے بجائے اسے باندھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ میرے بھائی کا قاتل ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تجھے اختیار ہے تو جو بھی فیصلہ چاہے‘ کر لے۔ انہوں نے عرض کیا: میں بھائی کا قصاص لینا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ تمہاری اپنی صوابدید ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ (واقدی، ج: 3، ص: 926)
قتل کے معاملے میں قانونِ قصاص جہاں بھی نافذ ہو جائے انسانی جانیں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں قتل و غارت گری اسی وجہ سے زوروں پر ہے کہ پوری روح کے ساتھ قانون قصاص یہاں نافذ نہیں۔ (باقی)