پچھلے کالم میں ذکر آ چکا ہے کہ بنوثقیف کے ایک آدمی نے بدعہدی کرتے ہوئے ایک صحابی کو شہید کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عین جنگ کے دوران قاتل کو مقتول کے ورثا کے حوالے کر دیا کہ وہ فیصلہ کر لیں کہ معاف کر دیں یا خون بہا وصول کریں یا قصاص میں قتل کر دیں۔ یہ قانون انسانی جان کی حرمت کا محافظ ہے۔ حکم الٰہی ہے: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت سے ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خون بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے‘‘۔(البقرہ: 178 تا 179)
پاکستان میں معلوم نہیں کس قاعدے کلیے اور ضابطے کے تحت قاتل کو معاف کرنے کا حق صدرِ مملکت کو دیا گیا ہے۔ یہ بالکل غیر اسلامی‘ غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے اور جس د ستوری و قانونی دستاویز میں یہ پایا جائے‘ اسے تبدیل کرنا لازم ہے۔ قاتل کو ورثائے مقتول معاف بھی کر سکتے ہیں، اس سے خون بہا وصول کرکے اس کی جان بخشی کرسکتے ہیں یا پھر اسے اپنے مقتول کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کراسکتے ہیں۔ یہ کام حکومت اور عدلیہ کا ہے کہ وہ طے کرے کہ قاتل کو کس طرح قتل کیا جائے۔ مذکورہ بالا واقعہ سے واضح ہے کہ فیصلہ تو ورثا ہی کو کرنا ہے مگر وہ اپنے طور پر قاتل کو قتل کر دینے کے بجائے حکومت و عدالت ہی سے فیصلہ کرائیں گے۔ انسانی جانوں کی حرمت درکار ہوتو آج ہمیں اسلام کے قانونِ قصاص اور مکمل اسلامی نظام کا احیاو قیام کرنا ہوگا۔
بنوثقیف کا محاصرہ کئی دنوں تک جاری رہا مگر نہ تو قلعے کی دیواریں توڑی جاسکیں نہ ہی بنوثقیف باہر نکل کر لڑنے کے لیے تیار ہوئے۔ مسلمان فدائیوں نے کئی مرتبہ حملے کیے مگر کامیابی نہ ہوسکی۔ اس دوران بنوثقیف کے کچھ غلام اپنے آقاؤں سے چوری چھپے قلعے سے باہر نکل آئے اور آنحضورﷺ کے پاس آکر اسلام قبول کرلیا۔ ان کی تعداد چودہ‘ پندرہ بیان کی گئی ہے۔ ان کے آنے سے قبل آپﷺ نے منادی کرائی تھی کہ جو شخص قلعے سے اتر کر مسلمانوں کے پڑاؤ میں آجائے گا وہ آزاد ہوگا۔ واقدی کے بقول یہ منادی بالخصوص غلاموں کے لیے تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آمد پر سب کو آزاد کردیا۔ سب نے اسلام قبول کرلیا اور سبھی اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔ (ابن ہشام، مجموعہ ج:3 تا 4، ص: 484تا 485، واقدی، ج:3، ص: 927 تا 930)
ان آزاد کردہ غلاموں کو مالدار صحابہ کرامؓ کے ساتھ منسلک کیا گیا تاکہ وہ ان کی ضروریات بھی پوری کریں اور انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے ساتھ معاشی خود کفالت کے لیے مدد بھی دیں۔ ان میں سے حضرت عمربن سعید بن عاصؓ کے سپرد ابوبکرہؓ ہوئے۔ ارزقؓ کو حضرت خالد بن سعیدؓ کی تحویل میں دیا گیا۔ اسی طرح وردان حصرت ابان بن سعیدؓ کے سپرد ہوئے۔ ان نومسلموں میں سے ایک ایک شخص حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت سعد بن عبادہؓ اور حضرت اُسَید بن حُضَیرؓ کے سپرد بھی کیا گیا۔ بعدمیں جب ان کے آقا آنحضورﷺ سے آکر ملے اور اپنے غلاموں کا مطالبہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اُولٰئِکَ عُتَقَائُ اللّٰہِ لَا سَبِیْلَ اِلَیْھِمْ (انہیں اللہ نے آزادی دے دی ہے، اب انہیں غلام بنانے کا کوئی راستہ نہیں)۔ (البدایہ والنھایہ، ج: 4، ص: 347)
اس محاصرے کے دوران حضرت خالدؓ بن ولید اور کئی دوسرے صحابہ اپنی فوج سے باہر نکل کر بنوثقیف کو مبارزت کے لیے بلاتے رہے مگر ان میں سے کسی کو مقابلے پر آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ثقیف کے سردار کنانہ بن عبدیالیل بن عمرو ثقفی نے قلعے کے اندر سے آواز دی اور کہا: ہم اپنے قلعے میں محفوظ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم مقابلے کے لیے ہرگز باہر نہیں نکلیں گے، تمہیں مقابلہ کرنا ہے تو اندر آؤ، ہمارے پاس اتنا راشن موجود ہے کہ ہم سال بھر تمہارا مقابلہ کرسکتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ تم اتنا عرصہ یہاں نہیں ٹھہر سکتے۔ (ابن ہشام، ج:3 تا 4، ص: 481)
ابو محجن ثقفی بہت بڑا جنگجو تھا۔ محاصرۂ طائف کے دوران ایک روز فصیل کے اوپر کھڑے ہو کر اس نے بلند آواز سے کہا: ''اے مسلمانو! تم جن سے لڑتے رہے ہو وہ لڑنا جانتے نہیں تھے۔ ہم بہت سخت دل لوگ ہیں اور ہمارا باپ بھی بڑا سخت تھا، اسی لیے اس کا نام قسی تھا۔ (قسی القلب یا پتھر دل) جب تک ہماری جان میں جان ہے، ہم تمہاری اطاعت نہیں کریں گے اور طائف اتنا مضبوط ہے کہ تم اس پر قبضہ نہیں کر سکتے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس کے جواب میں کہا: ''تم اپنے بل میں گھسے ہوئے لومڑ کی طرح ہو۔ ہم تمہارے ذرائع معیشت کو کاٹ ڈالیں گے تو لومڑ بھٹ سے باہر آجائے گا‘‘۔ حضرت عمرؓ کو اس دوران معلوم نہیں تھا کہ آنحضورﷺ نے محاصرہ اٹھا لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں آکر کہا کہ اے عمرؓ! ان کو ان کے حال پر چھوڑدو۔ اللہ نے اپنے نبیﷺ کو طائف بزور شمشیر فتح کرنے کی اجازت نہیں دی۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کیا آنحضورﷺ نے خود یہ بات فرمائی ہے تو جواب ملا ''ہاں‘‘۔ دراصل نبی اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اشارہ ملا تھا کہ بنو ثقیف جلد اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ عام صحابہ کی رائے یہ تھی کہ ایک طاقت ور دشمن کو حنین میں شکست دینے کے بعد اب ثقیف کو شکست دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے مگر آنحضورﷺ کی رائے کا علم ہوا تو سب نے خاموشی اختیار کی اور محاصرہ اٹھالیا گیا۔ (واقدی، ج: 3، ص: 935)
جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ غطفانی قبائل کا سردار عیینہ بن حصن بھی آنحضورﷺ کی فوج میں شامل تھا۔ محاصرہ اٹھانے کا اعلان سن کر اس نے کہا: ''خدا کی قسم! بنو ثقیف بڑے معزز اور کریم لوگ ہیں اور طاقتور اور بہادر بھی‘‘۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے اس کی بات سنی تو اسے ڈانٹا اور کہا: ''تیری تباہی ہو کیا تو مشرکوں کی تعریف کرتا ہے‘‘۔ اس پر اس کی جہالت و حماقت بھڑک اٹھی اور اس نے کہا: ''خدا کی قسم میں ثقیف سے لڑنے نہیں آیا تھا بلکہ میں نے تو یہ چاہا کہ مسلمان طائف کو فتح کریں تو مجھے بنو ثقیف کی کوئی لڑکی مل جائے اور شاید مجھے اس سے کوئی سعادت مند بیٹا حاصل ہوجائے کیونکہ قبیلہ ثقیف میں برکت، عقل اور دانش وافر ہے‘‘۔ حضرت عمروؓ بن عاص کو اس پر غصہ آیا اور آنحضورﷺ کے پاس آکر انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ''اے عمرو! تم جانتے نہیں ہو کہ یہ ''احمق مطاع‘‘ کے لقب سے معروف ہے‘‘۔ (واقدی، ایضاً۔ ابن ہشام، ایضاً ،ص: 485)
طائف کا محاصرہ تقریباً بائیس دن تک جاری رہا اور اس دوران بارہ صحابہ کرام شہید ہوئے۔ بنوثقیف چونکہ قلعے سے باہر نکلے ہی نہیں اس لیے ان کے صرف دو آدمی مارے گئے۔ آپﷺ نے اہل شوریٰ کو طلب کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ثقیف پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی، لہٰذا محاصرہ اٹھا لینا چاہیے۔ اس دوران حضرت خولہ بنت حکیمؓ زوجہ حضرت عثمانؓ بن عفان نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ آپ کو فتح دے تو مجھے ثقیف کی دو مال دار عورتوں فارعہ بنت عقیل یا بادیہ بنت غیلان کے زیورات میں سے کچھ دیجیے گا۔ آپﷺ نے فرمایا: لَمْ یُؤْذََنْ لَنَا فِیْ ثَقِیْفٍ یَا خَوْلَہْ (اے خولہ! ہمیں ثقیف کے بارے میں اجازت نہیں ملی)۔
اللہ تعالیٰ نے جب اجازت نہیں دی تو اس موقع پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا: کیا پھر کوچ نہ کیا جائے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! منادی کر دو کہ سب لوگ رختِ سفر باندھ لیں اور واپس روانہ ہو جائیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے کوچ کا اعلان کر دیا اور یوں یہ محاصرہ اختتام کو پہنچا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے السیرۃ الحلبیہ، ج: 2، ص: 242۔ واقدی، ج: 3، ص: 935 تا 936۔ البدایہ والنھایہ، ج: 4، ص: 251۔ تاریخ طبری، ج: 3، ص: 83)
حضرت نوفل بن معاویہؓ بڑے جہاندیدہ اور سمجھدار صحابی تھے۔ جنگوں کے ماہر اور قبائل کے احوال سے باخبر۔ نبیٔ رحمت کا مبارک طریقہ یہ تھا کہ آپﷺ ہر موقع کی مناسبت سے اہل الرائے صحابہ سے مشورہ ضرور کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر ان سے ہی آنحضورﷺ نے سب سے پہلے رائے لی تھی۔ انہوں نے عرض کیا تھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ثَعْلَبٌ فِیْ جُحْرٍ اِنْ اَقَمْتَ عَلَیْہِ اَخذْتَہُ وَاِنْ تَرَکْتَہُ لَمْ یَضُرُّکَ شَیْئاً (لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر آپ اس پر دباؤ ڈالیں گے تو اسے (بالآخر) قابو کر لیں گے لیکن اگر آپ نے اسے چھوڑ دیا تو بہرحال وہ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گی)۔ (واقدی، ج: 3، ص: 936 تا 937)