قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے قائد ہی نہیں‘ پوری ملتِ اسلامیہ کا فخر تھے۔ 6 جنوری 2013ء کو آپ کی وفات سے پورا عالمِ اسلام غم میں ڈوب گیا۔ قاضی صاحب کے متعلق میں نے ان کی وفات پر جو تحریر لکھی وہ قلم برداشتہ بھی تھی اور دل برداشتہ بھی۔ وہ میری کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ (جلد چہارم) میں چھپ چکی ہے۔ دل برداشتہ یوں کہ اچانک پہنچنے والے اس صدمے سے دل و دماغ اور جسم و جان نڈھال اور بے حال تھے۔ میں نے اس مضمون کے آخر میں لکھا تھا کہ بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے مگر ہمت نہیں۔ اللہ نے چاہا تو پھر مزید لکھوں گا۔ سو آج بے ساختہ قلم و قرطاس کی طرف ہاتھ بڑھ گیا اور راہوارِ تخیل حرکت میں آگیا۔ اس عظیم راہ نما کو بچھڑے تیرہ سال بیت گئے ہیں مگر صدمہ ہنوز تازہ محسوس ہوتا ہے۔ قاضی صاحب سے ایک تعلق تحریکی و تنظیمی تھا مگر ایک تعلق ذاتی نوعیت کا بھی تھا، اور میں کیا اور میری بساط کیا، مرحوم کے ذاتی تعلقات کا حلقہ تو انتہائی وسیع و عریض تھا۔ اس میں ملکی و بین الاقوامی، ہر سطح کی بڑی بڑی شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے۔ بہرحال ہر ایک ساتھی کے اپنے تجربات و یادیں ہیں۔ میں جب بیرونِ ملک سے بارہ سال بعد 1985ء میں وطن واپس آیا تو قاضی صاحب قیم جماعت تھے۔
یوں تو 1971ء سے کئی بار باہمی ملاقاتیں ہوچکی تھیں مگر کینیا میں ان کی آمد اور مختلف پروگرامات کے حوالے سے بڑی حسین یادیں میرے دل میں موجزن تھیں۔ اسی کے تناظر میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ وہاں کے تمام مراکز اور منصوبے کیسے چل رہے ہیں اور اب کون ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے ؟میں نے وہاں کی صورتِ حال اور ٹیم سے متعلق عرض کیا۔ فرمانے لگے ''آپ نے جو کام وہاں کیا، اس کی جو بھی رپورٹ آپ دیں، صحیح معنوں میں اس کا حقیقی ادراک اور اعتراف وہی کرسکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے مشاکل و مناظر دیکھے ہوں۔ میں اور ڈاکٹر سید مراد علی شاہ صاحب آپ کے ہاں سے واپس پلٹے تو آپ کو بہت دعا دی کہ آپ نے اس دیارِ بعید میں اپنی جوانی اس مشن کے لیے لگا دی ہے۔ میں ہمیشہ آپ کے لیے دعا کیا کرتا ہوں...‘‘۔
میں نے قاضی صاحب محترم کا تبصرہ سنا تو بہت حوصلہ ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں خود اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو بخوبی جانتا تھا، اس لیے اپنے کام کے بارے میں اتنی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا مگر برادرِ بزرگ کے مشفقانہ تبصرے نے ایک عجیب اطمینان کا احساس دلایا۔ میں قاضی صاحب کی ٹیم کا ایک انتہائی نووارد اور جونیئر رفیق تھا مگر کمال ہے قائد محترم کا کہ انہوں نے ایک بار نہیں بار بار تشجیع و حوصلہ افزائی فرما کر میری کمزوریوں کی حکیمانہ انداز میں اصلاح فرمائی۔ میں قاضی صاحب کے ساتھ ان کے قیم ہونے کے دور میں بھی‘ اور ان کی امارت کے زمانے میں بھی ملک بھر میں مختلف مقامات پر گیا۔ اکثر جگہوں پر دعوتی، تنظیمی اور تربیتی پروگراموں میں مجھے درسِ قرآن کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی۔ میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ آپ کی موجودگی میں میرے درس کی کیا اہمیت ہے تو آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر خوب محبت سے دبایا اور فرمانے لگے ''میں خود چاہتا ہوں کہ تمہارا درس سنوں، اسی لیے ہر درس میں اہتمام کے ساتھ بیٹھتا ہوں‘‘۔ دراصل یہ بھی مرحوم کا تربیت ہی کا ایک انداز تھا۔
ایک مرتبہ ہم اکٹھے جنوب مغربی پنجاب کے دورے پر تھے اور یہ واقعہ لیّہ کا ہے۔ میں نے نمازِ فجر کے بعد سورۂ توبہ کی آیات38تا 41 کا درس پیش کیا۔ محترم قاضی صاحب تشریف فرما تھے۔ میں نے دیکھا کہ صحابہ کرامؓ کے مالی ایثار و قربانی کے تذکرے سے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں اور وہ ٹشو سے انہیں خشک کرنے لگے۔ دراصل یہ ان کی رقتِ قلب اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ بے پناہ محبت کا مظہر تھا۔ خود جب کوئی واقعہ بیان کرتے یا سوز و گداز کے ساتھ اشعار پڑھتے تو بارہا اشکبار آنکھیں پورے مجمع پر ایک جذباتی کیفیت طاری کر دیتیں۔ محترم قاضی صاحب کے پاس کوئی سائل آجاتا تو اس کی مشکلات سن کر فوراً اس کی مدد کیلئے اقدام کرتے۔ بعض اوقات قاضی صاحب کی نرم دلی سے کچھ طالع آزما قسم کے لوگ ناجائز فائدہ بھی اٹھا لیتے مگر غریب پروری کی روش قاضی صاحب نے ترک نہیں کی۔ امتِ مسلمہ پر جب بھی کوئی افتاد آتی قاضی صاحب تڑپ اٹھتے۔ ان کیلئے دعا کرتے تو کئی بار اشکوں سے وضو کا سماں بندھ جاتا تھا۔
مرکزِ جماعت میں 1989ء میں ایک مشاورت ہوئی جس میں صوبہ پنجاب کی امارت زیر بحث آئی اور طویل نشست کے بعد طے پایا کہ مرکز سے نائب قیم جماعت (راقم الحروف) کو صوبہ پنجاب میں منتقل کر دیا جائے۔میں ذاتی طور پر اس کے لیے بالکل آمادہ نہیں تھا مگر قاضی صاحب نے فرمایا کہ کسی کارکن کا یہ حق نہیں کہ وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے۔ یہ تو نظم کا کام ہے اور پھر مشاورت میں تو برکت بھی ہوتی ہے اور اس کے فیصلوں کو اللہ کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے مطابق مجھے صوبہ پنجاب کا عارضی امیر مقرر کر دیا گیا۔ اس سے قبل حضرت مولانا فتح محمد (رحمۃ اللہ علیہ) امیر صوبہ تھے۔ چند ہی ہفتوں کے بعد صوبائی امارت کے لیے استصواب ہوا اور اس کا نتیجہ آنے پر مجھے امیر صوبہ مقرر کر دیا گیا۔ قاضی صاحب کے ساتھ بارہ سال اس ذمہ داری پر کام کیا اور قاضی صاحب کو بہت قریب سے دیکھا۔ ان کا حوصلہ بہت بلند اور ان کا دل بڑا گداز تھا۔ آنحضورﷺ کا ذکر کرتے ہوئے کئی بار گلوگیر ہوجاتے تھے اور چشمِ تر کیساتھ جو اظہارِ عقیدت کرتے اس کی اپنی ہی شان ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ علامہ اقبال کا ایک واقعہ سنایا اور سناتے ہی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہوگئیں۔
واقعہ یوں ہے کہ علامہ اقبال کے دورِ لڑکپن میں موسمِ گرما میں دوپہر کے وقت جب لوگ آرام کر رہے تھے، ایک گداگر نے دروازے پر صدا لگائی اور اپنی لاٹھی سے بار بار دروازہ کھٹکھٹایا۔ اقبال اس شور سے بے آرام ہو کر اٹھ بیٹھے اور باہر نکل کر فقیر سے اس کی لاٹھی چھین لی۔ پھر وہ لاٹھی اس کے کاسۂ گدائی پر دے ماری۔ فقیر کا کشکول ٹوٹ گیا اور اس میں جو آٹا تھا‘ وہ گر گیا۔ اسی دوران علامہ کے والد گرامی قدر شیخ نور محمد بھی باہر نکل آئے اور یہ منظر دیکھ کر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انھوں نے اقبال کو مخاطب کرکے درد بھرے انداز میں کہا ''میں روزِ قیامت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائوں گا؟ وہ مجھ سے پوچھیں گے، نور محمد! تمہارے سپرد ایک لڑکا کیا گیا تھا، تم نے اس کی یہ تربیت کی؟
قاضی صاحب نے جب یہ واقعہ سنایا اور اقبال کے فارسی کلام سے ایک آدھ شعر بھی پڑھا تو مجھے تجسس ہوا کہ اقبال کا متعلقہ کلام پڑھا جائے۔ علامہ کے فارسی کلام ''اسرارِ خودی‘‘ کی یہ پوری نظم بار بار پڑھی۔ ہر مرتبہ عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ نظم کا موضوع ہے ''در معنیٔ ایں کہ حُسنِ سیرتِ ملیہ از تادّب بآدابِ محمدیہ است ‘‘۔43 اشعار پر مشتمل یہ نظم بہت خوب ہے۔ علامہ اقبال نے بالخصوص اپنے والد کا درد بھرا شکوہ جن الفاظ میں منظوم کیا ہے اس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
درمیانِ انجمن گردد بلند
نالہ ہاے ایں گدائے دردمند
(تصور کرو) جب حشر کا مجمعِ عام ہوگا اور اس میں یہ درد کا مارا فقیر بے نوا درد بھرے نالے بلند کر رہا ہوگا!
اے صراطت مشکل از بے مرکبی
من چہ گویم چوں مرا پرسد نبیؐ
اے جادۂ اسلام سے ہٹ کر یہ نازیبا حرکت کرنے والے! جب نبیٔ برحق حشر میں مجھ سے باز پرس کریں گے تو میرے پاس کیا جواب ہوگا۔
''حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے ازدبستانم نبرد
(وہ فرمائیں گے) ''اللہ نے ایک مسلم نوجوان تیرے سپرد کیا تھاکہ وہ تمہارے ذریعے میرے باغیچہ اخلاقِ حسنہ سے کوئی حصہ پا لے۔
از تو ایں یک کار آساں ہم نشد
یعنی آں انبارِ گِل آدم نشد‘‘
تجھ سے یہ آسان سا کام بھی نہ ہوسکا۔ یعنی مٹی کا یہ مجسمہ تجھ سے ایک (اچھا) انسان نہ بن سکا۔‘‘
در ملامت نرم گفتار آں کریم
من رہینِ خجلت وامید و بیم
وہ ذات کریم تو اس ملامت میں بھی اپنی خوش خلقی قائم رکھیں گے، مگر میں امید اور خوف کے درمیان وہاں ندامت و شرم ساری کا نمونہ بنا کھڑا ہوں گا۔
اند کے اندیش و یاد آر اے پسر
اجتماعِ امتِ خیر البشرؐ
اے بیٹے ذرا سوچ اور یہ بات دل نشیں کرکہ، خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا وہ (بے مثال) اکٹھ ہوگا۔
باز ایں ریشِ سفیدِ من نگر
لرزۂ بیم و امیدِ من نگر
پھر ذرا تصور کرکہ میں اپنی سفید ریش کے ساتھ کس صورتِ حال سے دوچارہوں گا۔ خوف و امید کے درمیان مجھ لرزتے ہوئے (بوڑھے) کے بارے میں ذرا سوچ!
بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن
اپنے باپ پر یہ ناروا و نازیبا ظلم مت ڈھانا۔ غلام کو آقا کے سامنے رسوا و ذلیل نہ کرنا۔
غنچۂٖ از شاخسارِ مصطفی
گل شو از بادِ بہارِ مصطفی
(اے اقبال! تو سوچ کہ تو ہے کون؟) خود تو پیغمبرِ مصطفیٰ کی شاخ کا ایک غنچہ ہے۔ تجھے (اخلاقِ نبوی سے) خود کو سنوار کر بادِ بہاری کے طفیل پھول کی صورت اختیار کرنی ہے ‘‘۔
سچی بات یہ ہے کہ اقبالؒ بھی سچے عاشق رسول تھے اور اقبال شناس قاضی حسین احمدؒ کے اندر بھی نبیٔ مہرباںﷺ کی محبت اور عشق کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ میں ان دونوں عظیم شخصیتوں کا عقیدت مند اور خوشہ چین ہوں اور یہ اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔