اسلام کا نور جزیرہ نمائے عرب میں چمکا اور مختصر عرصے میں پوری دنیا میں اپنی کرنوں سے اُجالا کر دیا۔ باطل کے اندھیروں میں اہلِ حق نے جانوں کے ندرانے پیش کر کے اس روشنی کی لو کو تیز تر کرنے کا کٹھن فریضہ سرانجام دیا۔ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی تاریخ تو مرتب ہوتی رہی مگر اہلِ حق کو بھی کوئی مؤرخ نظرانداز نہیں کر سکتا۔ مولانا مسعود عالم ندویؒ برصغیر پاک وہند کے ایک مستند عالم دین اور محقق قلم کار تھے۔ آپ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''دسویں صدی ہجری تک اس برصغیر کی عام حالت عجیب تھی۔ گو اللہ کی زمین نیک بندوں سے بالکل خالی بھی نہیں رہی۔ صلحائے امت انفرادی طور پر تبلیغ ودعوت کا کام کرتے رہے۔ بادشاہوں میں محمد تغلق‘ فیروز تغلق اور سکندر لودھی کے نام ملتے ہیں، جنہوں نے اپنی صوابدید اور ہمت کے مطابق صورتحال کے بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن دشواری یہ تھی کہ صحیح الفکر اہلِ علم کے فقدان‘ دین سے عام بے خبری اور خاص طور پر اسلام کے ملکی اور جنگی قانون سے پوری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بسا اوقات ایسے کام بھی کر جاتے تھے جن کی قانونِ شریعت کے اندر مشکل ہی سے گنجائش نکل سکتی ہے۔ بہرحال اس کے باوجود ہندستان کی تاریخ میں ان نیک دل اور خدا ترس بادشاہوں کا ایک خاص مقام ہے‘ جسے اسلامی تاریخ کا مؤرخ کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتا۔‘‘ (رودادِ جماعت اسلامی‘ جلد: ششم‘ ص: 179)
اکبرکے دینِ الٰہی کی گمراہیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ندوی صاحب نے مزید فرمایا: ''اکبر اور اس کے درباری سالہاسال تک جس فتنۂ خبیثہ کی پرورش کرتے رہے اور ان کی پھیلائی ہوئی اخلاقی بیماریاں جس طرح سوسائٹی کے رگ وپے میں سرایت کرتی رہیں‘ ان کے دفعیہ اور بیخ کنی کے لیے ایک صاحبِ فہم اور اولوالعزم فرماں روا کی ضرورت باقی تھی‘ جو الحمدللہ کہ بوریانشین اور گلیم پوش سلطان‘ عالمگیر اورنگزیب کی تخت نشینی سے پوری ہوگئی۔ اس کی تخت نشینی کیا تھی؟ ایک مسلسل جہاد کا عزم‘ ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا آغاز! داراشکوہ اور اورنگزیب کی جنگ صرف دو بھائیوں کی لڑائی نہ تھی۔ حقیقت میں یہ دو مختلف مکاتبِ فکر کی جنگ تھی۔
ایک شاہزادہ اپنے پردادا اکبر کی سنتِ (خبیثہ) زندہ کرنا چاہتا تھا اور دوسرا ہادی اعظمﷺ کی سنتِ مطہرہ کی سربلندی کا علمبردار تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اسلامی ہند کی کوئی تاریخ اس بوریا نشین بادشاہ کے کارناموں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ تغلق خاندان کے بعض فرماں رواؤں کو چھوڑ کر یہ پہلا اور آخری بادشاہ تھا جس نے بتوں کی اس سرزمین میں دینِ حق کی بنیادیں مضبوط کیں‘‘۔(ایضاً‘ ص: 186 تا 187)
اکبر کے دینِ باطل کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں امام مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کو گوالیار کے قلعے میں ناقابل بیان اذیتوں سے دوچار کیا گیا مگر انہوں نے کلمۂ حق سے رو گردانی کرنے سے انکار کردیا۔ گمراہ اور اسلام سے برگشتہ مغل شہنشاہ اکبر نے دینِ الٰہی کے نام سے ایک نیا مذہب گھڑا۔ اس فتنے کا مقابلہ حضرت امام نے کیا۔ جہانگیر کے دور تک وہ آزمائش کی چکی میں پستے رہے۔ شاہجہاں کی حکومت آئی تو یہ دورِ ابتلا ختم ہوا اور پھر اورنگزیب تخت نشین ہوا تو حضرت امام احمد مغل ریاست کے ہیرو کے طور پر معروف ہوگئے۔ اورنگزیب اپنے پردادا اکبر کے حوالے سے کہا کرتا تھا: ''جد من اکبر نہ بود اکفر بود۔‘‘ یہ انقلاب حضرتِ شیخ کی زندگی ہی میں چشم فلک نے دیکھا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
حاضر ہوا میں شیخِ مجددؒ کی لَحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اَسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اگرچہ سخت ابتلا اور براہِ راست تصادم کا دور تو نہ دیکھا مگر وہ بھی شاہی درباروں کی مراعات سے ہمیشہ دور رہے۔ برصغیر میں اپنی زبان سے اور اپنے قلم سے کلمۂ حق پورے زور اور متانت کے ساتھ بلند کرتے رہے۔ ان کا اور ان کے صاحبزادگان کا علمی ورثہ اس امت کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کی فکر عربی‘ فارسی‘ اردو اور دیگر زبانوں میں تشنگانِ علم کے لیے بحرِزخّارہے۔
حضرت سیداحمدشہیدؒاور شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒنے اپنے عملی جہاد کا آغاز کرنے سے قبل اپنے آپ کو اور جملہ ساتھیوں کو جفاکشی کا عادی بنایا۔ زندگی کی سختیاں تربیتی نظام میں شامل کرکے آنے والے کٹھن مراحل کے لیے تمام وابستگانِ تحریک کو حق کے ایسے سپاہی بنا دیا جوہرمشکل میں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ آسائش و راحت ممنوع ہرگز نہیں مگر جہاں آسائشیں راہِ حق کی رکاوٹیں بننے لگیں وہاں ان کا استعمال مناسب نہیں ہوتا۔ سیدبادشاہ اور ان کا پورا قافلہ سلف صالحین کی زندہ مثال تھا۔ دنیا کو ان لوگوں نے آخرت کے بدلے میں فروخت کردیا تھا۔ وہ اپنے اس سودے پر راضی اور خوش تھے۔ ابھرتی ہوئی باطل قوتوں کے خلاف ان عظیم مجددینِ ملت نے ایک ایسے وقت میں جہاد کیا جب ہماری ملت بحیثیت مجموعی پوری دنیا میں ادبار وانحطاط اور شکست خوردگی کا شکار ہوچکی تھی۔ اس تحریک کے تمام وابستگان نے یادگار کارنامے سرانجام دیے۔ باطل سے مردانہ وار ٹکرائے اور کہیں مداہنت یا کمزوری نہیں دکھائی۔
علامہ اقبال دردِ دل رکھنے والے ایک عظیم شاعر اور مصلح تھے۔ انہیں مروجہ اصطلاح اور معانی میں مجدد کہنا تو شاید مشکل ہے مگر داعیانِ حق کے لیے جو بنیادی اوصاف ضروری ہیں‘ ان کی ترجمانی ان کے کلام میں نہایت مؤثر اور بلیغ انداز میں کی گئی ہے۔ علامہ اقبال کا ''شاہین‘‘ درحقیقت داعیٔ حق ہی ہے۔ راقم نے ہمیشہ داعیٔ حق کو اقبال کے شاہین کی زندہ مثال سمجھا ہے اور ہر داعیٔ حق کے بارے میں یہی تصور قائم کیا ہے کہ وہ غیور وجسور، خود دار وخودبین، خدا خوف وخود آگاہ اور سیر چشم ودرویش منش مخلوق ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اقبال کا شاہین ہے۔
داعیٔ حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ آزمائشوں کی کبھی تمنا نہ کرے۔ آزمائشوں سے خود حضور پاکﷺ نے بھی پناہ مانگی تھی۔ ہر داعی کو بھی ان سے پناہ مانگنی چاہیے؛ البتہ یہ چیز ہمیشہ ذہن میں مستحضر رہنی ضروری ہے کہ دعوتِ حق اور آزمائش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قرآنِ مجید نے اس بارے میں تفصیلاًروشنی ڈالی ہے۔ قرآنِ مجید نے اس بارے میں تفصیلاًروشنی ڈالی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے مندرجہ ذیل آیات: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں‘ انہیں مردہ نہ کہو‘ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘ انہیں خوش خبری دے دو‘ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں‘‘۔ (البقرۃ: 153 تا 157) سورۂ محمد میں فرمایا: ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں‘‘ (محمد: 31) (جاری)