پاکستان کے مقابلے میں دیگر کئی مسلم ممالک میں اسلامی تحریکیں سخت آزمائشوں سے دوچار ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کو عوام نے منتخب کیا مگر دنیا بھر کے ظالمانہ نظام نے مل کر عوام کے نمائندوں کو ایوانِ اقتدار سے اٹھاکر جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا۔ سینکڑوں لوگ شہید ہوچکے ہیں‘ سینکڑوں ہی کو ناروا سزائیں سنائی جاچکی ہیں جن میں قائدین کی ایک بڑی تعداد موت اور عمر قید کی سزاوار ٹھہری ہے۔ ہزاروں مسافرانِ وفا‘ مرد ہی نہیں خواتین بھی‘ بڑے ہی نہیں بچے اور طلبہ بھی‘ جیل کی سلاخوں کے پیچھے داستانِ وفا رقم کررہے ہیں۔ ملک کے منتخب صدر محمد مرسی اور اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع نے جس جرأت وعزیمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا‘ اس سے ہر کارکن کو حوصلہ ملا۔ صدر مرسی جیل میں انتہائی ظالمانہ انتقامی کارروائیوں کے دوران 22 ستمبر 2017ء کو شہادت پا گئے مگر نام نہاد جمہوریت پسند مغربی ممالک اور بے حمیت مسلم حکمران سبھی چپ سادھے تماشا دیکھتے رہے۔
اخوان کی تاریخ عظمت وعزیمت کا مرقع ہے۔ اخوان کے پہلے مرشدعام امام حسن البنا کو 42 سال کی عمر میں 1949ء کے آغاز میں شہید کردیا گیا۔ دوسرے مرشد عام حسن الہضیبیؒ اور اخوان کے سیکرٹری جنرل عبدالقادر عودہؒ کو دیگر ساتھیوں سمیت 1953ء میں سزائے موت سنائی گئی۔ مرشدعام کی سزابعد میں کبرسنی کی وجہ سے عمرقید میں بدل دی گئی جبکہ عبدالقادر عودہؒ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت 1954ء میں تختۂ دار پہ لٹکا دیے گئے۔ اس کے بعد 1966ء میں مفسرقرآن سیدقطبؒ کو پھانسی لگا دیا گیا۔ اخوان کے لیے ابتلا وآزمائش کوئی نئی بات نہیں۔ آج بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ایک جانب شاہ فاروق‘ جمال عبدالناصر اور دیگر ڈکٹیٹرز کی طرح ظالم جنرل عبدالفتاح سیسی ظلم کا کوڑا برسا رہا ہے تو دوسری جانب اخوان کی قیادت اور کارکنان اپنے پیش رَو عظیم رہنماؤں اور شہدا کے درخشاں نقوشِ پا پر پوری ثابت قدمی سے چل رہے ہیں۔ تجدید واحیائے دین کی پوری تاریخ میں یہ واقعات ہر دور میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا ظلم کی یہ سیاہ رات ڈھل جائے گی۔
بنگلہ دیش جو مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا‘ اس میں جماعت اسلامی کو سالمیتِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے کی پاداش میں بنگلہ دیش کے قیام کے کئی عشروں بعد گردن زدنی قراردے دیا گیا۔ قائدین جماعت پر ایسے لغو الزامات لگائے گئے کہ بنگلہ دیش کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان الزامات میں ذرّہ برابر حقیقت نہیں۔ ظلم کی دیوی حسینہ واجد بنگلہ دیش میں ہندوبنیے کی پالیسیاں چلارہی ہے۔ نہ خدا کا خوف ہے، نہ ذرّہ برابر شرم وحیا۔ اب تک جماعت کے اہم ترین رہنما جن کی پاکیزگی اور للّٰہیت کی قسم کھائی جاسکتی ہے‘ جان قربان کرچکے ہیں۔ پروفیسرغلام اعظمؒ 23 اکتوبر 2014ء کو 92 سال کی عمر میں‘ مولانا اے کے ایم یوسفؒ 9 فروری 2014ء کو 88 سال کی عمر اور مولانا دلاور حسین سعیدی 14 اگست 2023ء کو 83 سال کی عمر میں امام ابوحنیفہؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی روایت زندہ کرتے ہوئے جیل میں وفات پا کر زندۂ جاوید ہوچکے ہیں۔ جماعت کے جن رہنماؤں نے دارورسن کو لبیک کہا مگر ظالم کے سامنے رحم کی بھیک مانگنے سے انکار کردیا‘ ان کا کردار تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ عبدالقادر مُلّاؒ13 دسمبر 2013ء کو 65 سال کی عمر میں‘ محمد قمرالزمانؒ12 اپریل 2015ء کو 63 سال کی عمر میں‘ علی احسن محمد مجاہدؒ22 نومبر 2015ء کو 67سال کی عمر میں‘ مولانا مطیع الرحمن نظامیؒ 5 مئی 2016ء کو73سال کی عمر میں اور میرقاسم علیؒ 3 ستمبر2016ء کو 64 سال کی عمر میں تختۂ دار پر جامِ شہادت نوش کرگئے۔ ان عظیم شہدا کو تاریخ ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتی رہے گی۔ (تفصیلات میری کتاب عزیمت کے راہی‘ جلد 5‘ 6 اور 9 میں دیکھی جاسکتی ہیں)
کیا خوش نصیب تھے کہ جنت کے بالاخانوں میں شہدا کی معیت‘ رفاقت ومحبت ان کا مقدر ٹھہری۔ مصر وبنگلہ دیش کے یہ پُرعزم اہلِ ایمان زبانِ حال سے پیغام دے رہے ہیں:
یہ سارے خدائوں سے بیزار بندے
فقط ایک تیرے پرستار بندے
تیرے دینِ حق کی حمایت کے مجرم
یہ ہر اک سزا کے سزاوار بندے
یہ دنیا سے غافل‘ یہ عقبیٰ کے طالب
یہ نادان بندے یہ ہُشیار بندے
یہ سود و زباں کے تصور سے بالا
یہ تیری محبت سے سرشار بندے
اٹھے ہیں کہ قائم کریں دینِ حق کو
تری نصرتوں کے طلب گار بندے
ترے دینِ حق کی شہادت کے مجرم
اور اس جرم کو برملا کرنے والے
محمدؐ کی رحمت کے یہ خوشہ چیں ہیں
عدو کے بھی حق میں دُعا کرنے والے
(کاروانِ شوق‘ از نصراللہ خاں عزیز، ص: 116)
جہاں ایک جانب ظلم وستم کا یہ تاریک پہلو سامنے آتا ہے وہیں بعض خطوں میں اپنے اپنے انداز میں اسلامی تحریکیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہر مقام کے اپنے تقاضے اور ہر تحریک کے لیے اپنی حکمت عملی ہوتی ہے۔ مراکش‘ تیونس اور سوڈان میں (موجودہ فوجی انقلاب سے قبل) اسلامی تحریکیں بڑی حکمت واحتیاط کے ساتھ پیش قدمی کررہی تھیں۔ تینوں ممالک میں پارلیمان اور دیگر منتخب اداروں میں اسلامی تحریکوں کے ارکان اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ کہیں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی تھے اور کہیں دوسرے نمبر پر۔ حکومتوں میں بھی بڑی حکمت کے ساتھ شراکت کی اور اپنے مقاصد سے غافل نہیں ہوئے۔بسا اوقات بعض پالیسیوں کو دیکھ کر یوں لگتا کہ وہ اپنے نصب العین سے ہٹ گئے ہیں مگر براہِ راست جب ان سے بات چیت ہوئی اور اپنے ملک کے معروضی حالات میں اپنی حکمت عملی کی وضاحت کی تو پتا چلا کہ انہوں نے سلامتی اور احتیاط کے ساتھ یہ راستہ اختیار کیا‘ جس میں بہرحال خیر ہے۔
گزشتہ صدی کے ربع اوّل میں ترکی میں خلافت کی بساط لپیٹنے کی سازش مغربی قوتوں نے اس انداز میں تیار کی کہ خود ترکی میں اپنے ایجنٹ پیدا کیے۔ مصطفی کمال‘ جسے اتاترک کہا گیا‘ خلافت کے خاتمے پر اسے ترکی کے سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا گیا۔ اس کے خلاف زوردار آواز مردِ مجاہد بدیع الزمان سعید نورسی (1873ء تا 1959ء) نے بلند کی۔ انہیں زندگی میں بارہا جھوٹے مقدمات میں پھانسا گیا اور جیل میں طویل عرصے تک مختلف وقفوں سے انہیں سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ ترکی کے سیکولر دستور کے خلاف بدیع الزمان سعید نورسی نے بہت کاوش کی مگر اس وقت عوامی تائید حاصل نہ ہونے اور ملک میں بدترین قسم کی آمریت کی وجہ سے خلافت کا مرکز اور سلطان محمد فاتح کا ورثہ سیکولرازم کے حوالے ہوگیا۔ نجم الدین اربکان مرحوم نے ایک مرتبہ پاکستان میں میاں طفیل محمدمرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کی موجودگی میں کہا کہ محترم قائدین آپ لوگ بہت خوش نصیب ہیں۔ دستور کی تدوین میں آپ نے سیدمودودیؒ کی انقلابی قیادت میں لادینیت کی جگہ اسلام کو کلیدی حیثیت سے شامل کروا لیا۔ آپ کا دستور اسلامی ہے۔ ہم سیکولرازم اور کمال ازم کے زہر کو پون صدی سے بھگت رہے ہیں۔ حکومت کے خلاف آپ لوگ عدالت میں جائیں تو دستور آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے جبکہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارا دستور عدالت میں ہمارے خلاف حکمرانوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔