جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے‘ وہاں ایک دور میں تحریک اسلامی مقبوضہ کشمیر نے اپنے جھنڈے اور نشان پر کئی سالوں تک ریاستی الیکشن میں حصہ لیا اور سید علی گیلانیؒ کئی دیگر جماعتی رہنمائوں کے ساتھ ریاستی اسمبلی کے رکن رہے۔ بعد میں (جماعت اسلامی) اور جہادی ونگ (حزب المجاہدین اور تحریک حریت میں شامل دیگر تمام جماعتیں) بھارت کے دھونس دھاندلی سے آلودہ انتخابات کا کافی عرصے سے بائیکاٹ کر چکی ہیں۔ مودی حکومت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کر کے یو این او کے چارٹر کو پاش پاش کر دیا۔ کشمیریوں اور ان کے حامیوں نے اس فیصلے کو نہ قبول کیا ہے اور نہ ہی کبھی قبو ل کریں گے۔ ہر روز بے گناہ کشمیریوں کے لاشے گر رہے ہیں اور پورے کشمیر میں ہر مرد و خاتون‘ بچہ اور بوڑھا ''بھارت مردہ باد‘‘ اور ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہا ہے۔ شہدا کے جسدِ خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپردِ خاک کیا جاتا ہے مگر افسوس کہ پاکستان کے حکمران اپنے فرضِ منصبی سے بالکل غافل ہیں۔ کرتارپور راہداری کھول دینا ہی ان کے نزدیک اصلی اور اہم ترین کام تھا جو وہ کر چکے ۔ ''تفوبر تو اے چرخ گرداں تفو‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد جتنے افراد اور عناصر بھی چہرے بدل بدل کر ایوانِ اقتدار میں براجمان ہوئے ہیں‘ خواہ وہ کس طبقے اور ادارے سے تعلق رکھتے ہوں‘ انہوں نے اپنا پیٹ بھرنے اور من موجیں کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ ان سب حکمرانوں کا طرزِ عمل بزدلی اور بے حسی کا مرقع رہا ہے۔ کشمیر پر ان کی بے حسی اور ملک کو دولخت کرنے کا ناقابل معافی جرم ان کے نامۂ اعمال میں شامل ہے۔ آج کشمیری اپنے بل بوتے اور اللہ کے توکّل پر بھارتی بنیے کے مظالم کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور اس کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی ہیں‘ ساری قیادت نظربند ہے یا جیلوں میں مقید‘ مگر جماعت ایک خوشبو ہے‘ اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔اسلامی جماعتیں ہند‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں اپنے مخصوص اور معروضی حالات کے مطابق اپنے اپنے ملک میں سرگرم عمل ہیں۔ ہم ان کے تشخص کے حوالے سے ذیل کی سطور میں چند نکات پر کچھ عرضِ خدمت کر رہے ہیں:
سوچ بچار‘ طور طریقے‘ رفتار وگفتار‘ اخلاق وکردار‘ پسند وناپسند‘ معیارِ خیروشر، غرض ہر چیز اپنے نصب العین کے عین مطابق ہونی چاہیے۔ نصب العین رضائے الٰہی کا حصول اور فلاحِ اخروی ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے اقامتِ دین کا فریضہ قرآن وسنت کی روشنی میں فرضِ عین ہے۔ اس نصب العین کے حصول میں جہاں کہیں عملی جھول پیدا ہوا‘ ہم منزل سے دور ہٹ گئے۔ ہماری کامیابی اس میں ہے کہ ہم فکری اور عملی ہر لحاظ سے اپنا تشخص قائم رکھیں‘ اسے اجاگر کرتے رہیں اور جہاں کوئی کوتاہی ہوجائے اس کو دور کرنے کی فوری اور سنجیدہ فکر کریں۔ انسان ہونے کے ناتے ہم سے بہت مرتبہ غلطیاں ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ان کا احتمال برابر موجود ہے‘ مگر ان غلطیوں کا اعتراف اور مخلصانہ اصلاح کی نیت اور کوشش تقاضائے ایمانی اور ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ محکم اصولوں کی روشنی میں وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر تدابیر پہلے بھی سوچی جاتی رہی ہیں‘ آئندہ بھی یہ عمل جاری رہے گا۔ زندہ تحریکیں کبھی جمود کا شکار نہیں ہوا کرتیں۔ آئینِ نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اڑنا تنزل کی علامت ہے۔ زندگی حرکت اور ارتقا کا نام ہے۔ جس طرح بنیادی اصولوں اور طے شدہ نصب العین سے انحراف تباہ کن ہے‘ اسی طرح انقلابی پیغام کے تقاضوں سے صرفِ نظر کرنا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ بقول حکیم الامت:
نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
شکارِ مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں!
اگر تدبیر کی غلطیوں کا صحیح اور بے لاگ تجزیہ کرکے ہم کمربستہ ہوجائیں اور آئندہ یہ غلطیاں نہ دہرائیں تو ان شاء اللہ ہم تیز رفتاری کے ساتھ جانبِ منزل رواں دواں ہوجائیں گے۔ ہم نے اپنی پہچان اور تشخص کو چھوڑ کر اتحادوں کی سیاست میں جو حصہ لیا‘ وہ اس وقت کے تقاضوں کے مطابق‘ ممکن ہے‘ ناگزیر ہو مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان میں ہم نے اپنا کافی سرمایہ کھویا ہے۔ اس سرمائے کی واپسی اور آئندہ اس کی افزائش کے لیے احساسِ زیاں کے ساتھ ہوش مندانہ منصوبہ بندی اور جرأت مندانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ افراد ہی سے اجتماعیت وجود پاتی ہے۔ تنظیموں‘ تحریکوں اور قافلوں کا اصل سرمایہ بے لوث کارکنان ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جماعت اسلامی نے آئی جے آئی میں جا کر اپنے بہت سے قیمتی ساتھی اور بڑی تعداد میں ووٹرز کھو دیے‘ اسی طرح ایم ایم اے کے اتحاد میں‘ پھرصوبہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے ساتھ صوبائی حکومت میں شراکت کی وجہ سے بھی خاصے جھٹکے کھانے پڑے۔ اگرچہ اب قیادت اور کارکن پوری طرح یکسو ہو چکے ہیں کہ ہمیں ہر ایک کے ساتھ بات چیت حسبِ موقع کرنی چاہیے‘ مگر اپنی شناخت‘ منشور‘ جھنڈے اور انتخابی نشان کی حفاظت کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ اس راستے پہ وقت لگ سکتا ہے مگر منزل تک پہنچنے کا کوئی دوسرا شارٹ کٹ نہیں ہے۔ کارکنان اور ہر سطح کے نظم کے لیے جامع تربیتی نظام‘ اس پر سنجیدگی سے عمل اور ہر کام کا آڈٹ‘ احتساب اور جائزہ ضروری ہوتا ہے جہاں کمی اور کمزوری پائی جائے اس کا فوری تدارک‘ ارتقا اور بقا کا ضامن ہوتا ہے۔
تنظیم سیاسی ہو یا دعوتی‘ اس کے پیشِ نظر ہمیشہ اپنا دائرہ اثر اور افرادی قوت بڑھانا ایجنڈے کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ کام کی توسیع اور دعوت کے پھیلاؤکے لیے دل بھی بڑا کرنے کی ضرورت ہے اور دروازہ بھی‘ مگر دروازے کو چوپٹ کھول دینا نہ دانش مندی ہے، نہ سلامت روی۔ باہمی محبت والفت ہی تنظیمی قوت کا راز ہے‘ مشاورت اسلامی تعلیمات کا بنیادی پتھر ہے اور اطاعت امر امتیازی شان۔ یہ اطاعت فی المعروف ہوتی ہے جو قرآن وسنت کا محکم حکم ہے۔ اطاعت فی المعصیت کا اسلام میں قطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ اوپر بیان کردہ یہ صفات کمزوری کا سدباب کرتی اور قوت کا سرچشمہ بن جاتی ہیں۔
تمام تر جدوجہد رضائے الٰہی کے لیے ہونی چاہیے اور تنظیم خالصتاً رضاکارانہ بنیادوں پر قائم ہو۔ نہ زورزبردستی سے کسی کو تنظیم میں شامل کیا جاسکتا ہے‘ نہ جبراً اُسے اس میں شامل رہنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح رضاکارانہ طور پر آنے والوں کے راستے میں ناروا رکاوٹیں ڈالنا بھی تنگ نظری اور منفی سوچ ہے‘ جس کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ تربیت کا عمل پوری زندگی کو محیط ہے۔ نئے لوگوں کی تربیت اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب پرانے کارکنان اس عمل سے گزر چکے ہوں۔ آنے والوں کو یقینا نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنا ذمہ داران‘ تنظیم اور کارکنان کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حکمت کے ساتھ کام کیا جائے تو ایک بڑی تعداد آسانی اور سہولت کے ساتھ تحریک میں ضم ہوجاتی ہے۔ جو اصحاب کوشش کے باوجود خود کو اجنبی پائیں‘ ان کے لیے بہرحال یہ راستہ کھلا ہونا چاہیے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق کوئی اور پلیٹ فارم منتخب کرلیں۔
تنظیم کی قوت کا راز باہمی محبت اور ہمدردی میں ہوتا ہے۔ یہاں تو اختلاف بھی خیر خواہی کے جذبے سے کیا جاتا ہے اور احتساب وتنقید میں بھی ہمدردی اور محبت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ امیر ومامور کا تعلق کبھی بھی آقا وغلام کا نہیں ہوتا بلکہ اس میں اخوت ومودت اور شفقت واحترام کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔ بظاہر کمزور بندے اپنی انہی صفات کی بدولت باطل کو طاقتور اور ناقابلِ تسخیر نظر آتے ہیں۔ آج کے نازک دور میں سب سے زیادہ ضرورت باہمی اعتماد کی بحالی اور اخوت ومحبت کی تجدید ہے۔ باقی امور ان شاء اللہ خود بخود آسان ہوجائیں گے۔ (جاری)