حضور اکرمﷺ کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ آپﷺ نے جو جنگیں لڑیں‘ ان کے علاوہ بھی بڑی صبر آزما مہمات سے سابقہ پیش آتا رہا۔ ان میں آپﷺ کا صبر و تحمل اور جرأت و استقامت امت کے لیے ہر جدوجہد کے دوران بہترین اسوہ ہے۔ صلح حدیبیہ سے قبل آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو مکہ بھیجا کہ وہ سردارِ قریش ابو سفیان سے بات چیت کریں کہ ہم عمرہ کرنے کیلئے آئے ہیں جنگ لڑنے کیلئے نہیں‘ اس لیے ہمارا راستہ نہ روکا جائے۔ حضرت عثمانؓ کو قریش نے پیشکش کی کہ وہ طواف کر لیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ آنحضور ﷺاور آپ کے اصحاب کے بغیر میں ہرگز طواف نہیں کروں گا۔
مجھے گوارا بغاوت نہیں اصول کے ساتھ
طواف میں بھی کروں گا مگر رسولؐ کے ساتھ
حضرت عثمانؓ کی واپسی میں جوں جوں تاخیر ہو رہی تھی‘ حالات میں تجسس کی کیفیت بڑھ رہی تھی۔ پھر یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو مکہ میں شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر حدیبیہ میں پہنچی تو نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ عثمان ہمارا سفیر اور مدینہ کی ریاست کا شہری اور ہمارا بھائی تھا۔ اگر اس کے قتل کی خبر درست ہے تو پھر ہم غیر مسلح ہونے کے باوجود اس کے خون کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں پلٹیں گے۔ آنحضورﷺ تو بار بار یہ کہتے رہے تھے کہ خدا کی قسم آج قریش مجھ سے جو مطالبہ بھی کریں گے میں اسے تسلیم کرلوں گا تاکہ ہمارے اور ان کے درمیان صلح ہوجائے اور اللہ کے گھر کی تعظیم و تکریم پر کوئی حرف نہ آئے۔ اب نئی صورتحال میں آپﷺ نے صحابہ کو تجدیدِ بیعت کا حکم دیا۔ اس بیعت کو قرآن مجید نے بیعتِ رضوان کہا ہے۔ اس وقت آنحضورﷺ کے گرد چودہ سو صحابہ موجود تھے۔ آپﷺ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ یہ بیری کا ایک گھنا اور سایہ دار درخت تھا۔ پھر آپﷺ نے صحابہ کو فرداً فرداً بیعت کرنے کی دعوت دی۔ دراصل یہ بیعت‘ موت پر بیعت تھی۔ اللہ نے اس بیعت اور اس پر عمل کرنے والوں سے اپنی محبت ورضا کا اظہار فرمایا۔
حضرت عمرؓ نے آپﷺ کے دست مبارک کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ لیا تاکہ آنحضورﷺ کو اتنے لمبے عرصے تک بیعت لینے میں زحمت نہ ہو۔ تمام چودہ سو صحابہ کرام یکے بعد دیگرے بیعت کرتے گئے۔ ان سب کا اسلام میں بڑا مقام ہے۔ ان کو اصحابِ بیعتِ رضوان بھی کہا جاتا ہے اور اصحاب الشجرہ بھی۔ دونوں نام قرآنِ مجید کی آیت سے لیے گئے ہیں۔ اللہ کاارشاد ہے: اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے (تحت الشجرۃ) تم سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا اس لیے اُس نے ان پر سکینت نازل فرمائی‘ ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی‘ اور بہت سا مالِ غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے۔ (الفتح: 18) جب سب لوگ بیعت کر چکے تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ عثمان زندہ ہے یا شہید ہوچکا ہے‘ اُسے ہم نے جس مہم پر بھیجا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے راستے کا سفر تھا۔ لوگو! میں اب عثمان کی طرف سے بیعت کر رہا ہوں۔ پھر آپﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کے اوپر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ حضرت عثمانؓ کے بے شمار فضائل میں یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے دستِ مبارک کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْہِمْ (اُن کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا) (الفتح: 10)۔
سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ اگرچہ آنحضورﷺ حضرت عثمانؓ کی طرف سے بیعت کر چکے تھے مگر جب حضرت عثمانؓ واپس آئے اور انہیں بیعتِ رضوان کا پتا چلا تو انہوں نے دوبارہ آنحضورﷺ کے ہاتھ پر تجدیدِ بیعت کی سعادت حاصل کی۔ یہ منظر کتنا ایمان افروز تھا کہ ایک جانب تو مسلمانوں کے دل ٹھنڈے ہو رہے تھے کہ انہیں اللہ پر اپنے ایمان و توکل اور اس کی تائید سے کامیابی نظر آرہی تھی اور دوسری جانب کفار پر سراسیمگی طاری ہورہی تھی۔ ان تک یہ خبریں پہنچیں اور بتانے والوں کی منظر کشی نے انہیں حالات کی سنگینی کا احساس دلایا تو وہ خاصے فکر مند ہوئے اور سر جوڑ کر بیٹھے۔ اس پر یہ طے پایا کہ سہیل بن عَمرو کی قیادت میں ایک وفد بھیجا جائے جو جا کر رسول اللہﷺ سے بات چیت کرے۔ سہیل بن عمرو بہت زیرک اور سمجھدار انسان تھا۔ اس نے اپنے ساتھ اپنے ہی قبیلے کے دو افراد حُوَیطِب بن عبد العزیٰ اور مِکْرَز بن حفص کو بھی لے لیا۔
اہلِ حدیبیہ اور اصحابِ بیعتِ رضوان کو اللہ رب العالمین نے بڑا درجہ دیا ہے۔ اکثر آئمہ کے نزدیک شرکائے حدیبیہ کا درجہ اہلِ بدر کے قریب قریب ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ جو آنحضورﷺ کے ساتھ اس سفر میں شریک تھے‘ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺنے ارشاد فرمایا: تم اہلِ ارض میں سے سب سے بہترین لوگ ہو۔ اور ہم اس دن چودہ سو کی تعداد میں آپﷺ کے ساتھ تھے۔ بخاری میں یہ حدیث نقل کی گئی ہے اور حضرت جابرؓ نے مزید یہ الفاظ بھی نقل کیے کہ اگر آج وہ درخت اپنی جگہ پر موجود ہوتا تو میں تمہیں دکھا سکتا تھا۔اس درخت کو لوگو ں نے تقدس دینا شروع کر دیا تھا۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب کی دور رس نگاہوں نے بھانپ لیا کہ بعد میں آنے والے لوگ کسی فتنے میں مبتلا ہوجائیں گے لہٰذا انہوں نے یہ درخت کٹوا دیا تھا۔
حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی‘ ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی اصحابِ بیعت کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں اور کیوں نہ ہوں، ان پاکیزہ نفوس نے انتہائی نازک اور کٹھن حالات میں ہر خطرے سے بے نیاز ہو کر اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کی تھی۔
صلح حدیبیہ میں چار اہم شقیں شامل تھیں۔ ان پر فریقین کا اتفاق ہوا اور معاہدے پر آنحضورﷺ کی مہر اور سہیل بن عمرو کے دستخط ہوئے۔ دیگر لوگ‘ جنہوں نے بطور گواہ دستخط کیے‘ ان میں حضراتِ ابوبکر‘ عمر اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ معاہدے پر دستخط ہوجانے کے بعد ایک کاپی آنحضورﷺ کے پاس رہی اور دوسری کاپی سفیرِ قریش کو دیدی گئی۔
اس معاہدے کی شرائط تھیں؛ 1:اگلے دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بندی رہے گی اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔ 2: اس دوران میں قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر مدینہ جائے گا اسے واپس کردیا جائے گا اور آپﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا‘ اسے وہ واپس نہ کریں گے۔ 3: قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اُسے اس کااختیار ہوگا۔ 4: محمدﷺاور ان کے ساتھی اس سال واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں‘ بشرطیکہ صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں‘ جو نیام میں ہو اور کوئی سامانِ حرب ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہلِ مکہ مکمل طور پر اُن کیلئے شہر خالی کردیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے)۔ مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
اس صلح کے بعد آنے والے ماہ و ایام میں اسلام مسلسل پیش قدمی کرتا رہا اور کفر کی پسپائی ہر روز تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی تاآنکہ اللہ نے فتحِ مکہ کی منزل آسان کر دی۔ صلح حدیبیہ کے وقت نازل ہونے والی سورۃ الفتح کے آغاز میں اللہ نے فرما دیا تھا: بے شک ہم نے آپ کے لیے فتح مبین مقدر کر دی ہے۔