اسماعیل ہنیہ اور سارے اہلِ غزہ ظلم کے خلاف تاریخی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ مسلح جنگ میں ایک فریق ہر طرح کے تباہ کن اسلحے سے پوری طرح لیس ہو اور فریقِ ثانی اس سے بالکل محروم ہو‘ اس کے باوجود وہ ہتھیار ڈالنے کے بجائے مسلسل طاقتور دشمن سے لڑ رہا ہو۔ یہ مثال تاریخِ انسانی میں اہلِ غزہ ہی نے قائم کی ہے۔ پوری دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے‘ مگر اہلِ غزہ خونِ شہدا سے اس اندھیر نگری میں چراغاں کر رہے ہیں۔ ان کی تمام امیدیں خالقِ کائنات کی نصرت پر مبنی ہیں اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور مدد کرے گا۔ حدیث پاک کے الفاظ ہیں: ولو بعد حین یعنی دیر ہو سکتی ہے مگر اندھیر نہیں۔ (سنن ترمذی)
ظلم اور ظالم کے پشتیبان امریکی حکمرانوں نے انسانیت کے قاتل نیتن یاہو کو‘ جو عالمی عدالت کی طرف سے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا جا چکا ہے‘ 25جولائی کو اپنی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ انسانی حقوق کے دعوے کرنے والے یہ سنگدل حکمران کس قدر دوغلے پن کا کھلے عام مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حکمت نبوی کی یہ بات کتنی عظیم ہے کہ جب شرم و حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو!(صحیح بخاری)
25جولائی کو امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے انسانیت کے قاتل نیتن یاہو نے اس قدر جھوٹ بولے کہ خود مغربی دنیا کے تجزیہ کار اس کا اب تک پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ جو مظالم صہیونی درندے اہلِ غزہ پر ڈھا رہے ہیں ان سب کو نیتن یاہو نے مجاہدینِ غزہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ اس نے یہاں تک بھی کہا کہ غزہ کے جنگجو محبوس عورتوں کی عزتیں لوٹتے ہیں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی مجاہدین کی قید سے رہا ہونے والی کئی یہودی اور عیسائی خواتین اپنے انٹرویوز میں کھل کر اظہار کر چکی ہیں کہ حماس کے مجاہدوں کا رویہ ان کے ساتھ نہایت شریفانہ اور مؤدبانہ تھا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ انٹرویوز تمام لوگوں تک پہنچ چکے ہیں۔ جھوٹ آخر جھوٹ ہے‘ کب تک لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے گی۔
نیتن یاہو کی امریکہ آمد پر بہت سے امریکیوں نے‘ جن میں خود یہودی اور ان کے مذہبی رہنما 'ربی‘ بھی اپنے مذہبی لباس کے ساتھ شامل تھے‘ اس ظالم کے خلاف احتجاج کیا اور نعرے لگائے۔ ان سب لوگوں کی تصاویر عالمی میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں حماس کے خلاف جو ناقابلِ بیان جھوٹے الزامات لگائے ان کی حقیقت پوری دنیا جانتی ہے۔ اسی لیے مغربی دنیا میں نوجوان طلبہ و طالبات اور سول سوسائٹی کے افراد اہلِ غزہ کی حمایت میں اور اسرائیلی درندگی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ وہ پولیس کی سختیوں کو بھی جھیلتے ہیں اور ناروا مقدمات کو بھی بھگتتے ہیں‘ مگر مسلسل حق کا ساتھ پوری پامردی سے دے رہے ہیں۔ اپنے خطاب میں بار بار صہیونی قاتل نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جو لوگ باہر احتجاج کر رہے ہیں‘ یہ ہماری ریاست کے دشمن ہونے سے پہلے امریکی ریاست کے دشمن ہیں‘ گویا اُسے اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اس کے جرائم پر امریکی کانگرس کے باہر مظاہرے ہو رہے ہیں۔
''طوفان الاقصیٰ‘‘ نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیرہونے کا دعویٰ غلط ثابت کر دیا تھا۔ اگر غزہ کے یہ نہتے لوگ اسرائیل کے مقابلے میں ایک دو فیصد بھی اسلحے سے لیس ہو جائیں تو اسرائیلی فوجیں دم دبا کر بھاگ جائیں اور اسرائیل صفحۂ ہستی سے مٹ جائے۔ بغیر اسلحے کے بھی دس ماہ کے عرصے میں انہوں نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔ چالیس ہزار شہدا کی قربانی کے باوجود اگر یہ لوگ ہتھیار نہیں ڈال رہے تو اس کے پیچھے وہ ایمانی جذبہ کارفرما ہے جو شیخ احمد یاسینؒ‘ عبدالعزیز رنتیسیؒ‘ اسماعیل ہنیہؒ اور دیگر شہداکے دلوں میں موجزن تھا۔ اسماعیل ہنیہ تمام شہدا کی طرح زندہ ہیں کیونکہ شہدا مرا نہیں کرتے۔ اس پر اللہ کی کتاب گواہ ہے۔ شہدا کے خونِ مقدس کی برکت سے آخرکار باطل مٹ جائے گا۔ ''اور اعلان کر دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 81)۔
حماس کے قائد کی شہادت پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اعلان کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے خون کا بدلہ لینا ایران پر واجب ہے۔ دیکھیے اس پر کتنا عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل اہم جرنیل قاسم سلیمانی اور شام میں شہید ہونے والے سفارتکاروں کے خون کا تو خاطر خواہ بدلہ نہ لیا جا سکا تاہم ہماری دعا ہے کہ اب آیت اللہ خامنہ ای کا پُرعزم اعلان اللہ کی نصرت سے حقیقت کا روپ دھارے۔ عالمِ اسلام تو آج بے حسی کا شکار ہے اور المیہ یہ ہے کہ نیتن یاہو نے کانگرس کے خطاب میں اسرائیل کی علاقائی عرب ملکوں سے دوستی کو اپنی ایک بہت بڑی کامیابی اور اثاثہ قرار دیا۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اہلِ ایمان سنجیدگی سے سوچیں آج کلمہ گو حکمران اور ان کے حواری کہاں کھڑے ہیں؟ اگر یہ جنگ نہیں لڑ سکتے تو حماس کی مالی‘ مادی اور جنگی اسلحے کے ساتھ مدد تو کر ہی سکتے ہیں‘ مگر ان کے ہاں تو حماس ایک ناپسندیدہ اور غیرقانونی تنظیم ہے۔ کھلے دشمن کے لگائے ہوئے زخموں کی پروا نہیں کہ وہ تو دشمن ہے‘ زیادہ افسوس اور دکھ کلمہ گو مسلمانوں کے اس دوغلے طرزِعمل سے پہنچتا ہے۔ ترکیہ اور قطر دو ممالک ہیں جنہوں نے اپنی سرزمین پر حماس کی قیادت کو حفاظت کے ساتھ رہائش دے رکھی ہے۔
اے ایف پی کی ایک رپورٹ جو 2 اگست2024ء کے اخبارات میں شائع ہوئی‘ وہ بہت دلدوز ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے 300 دن مکمل ہونے پر غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے اعدادو شمار پیش کیے ہیں جن کے مطابق ان 300 دنوں میں اسرائیل نے تین ہزار457 ہوائی اور زمینی حملے کیے ہیں جن میں 82 ہزار ٹن بارود برسایا گیا۔ 2 اگست 2024ء تک ان حملوں میں 39 ہزار 480 افراد شہید اور91 ہزار 128افراد زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ 10ہزار افراد ہنوز لا پتا ہیں‘ ملبوں کے نیچے سے ان کی لاشیں نہیں نکالی جا سکیں۔ غزہ کی کل آبادی کا 6 فیصد شہید ہو چکا ہے۔ شہدا میں 16 ہزار 314 بچے اور 11 ہزار خواتین شامل ہیں۔ 520 لاشیں اجتماعی قبروں سے ملیں‘ 35 افراد غذائی قلت کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔ انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ 33 ارب ڈالر کے براہِ راست نقصانات ہوئے۔ 198 سرکاری عمارتیں‘ 117 تعلیمی ادارے‘ 610 مساجد‘ 3 گرجا گھر‘ ڈیڑھ لاکھ رہائشی یونٹ‘ 206 آثارِ قدیمہ‘ 34 کھیلوں کے مراکز‘3 ہزار کلومیٹر سے زائد بجلی کی ترسیل کا نظام اور 700 پانی کے کنویں تباہ ہوئے۔ 34 ہسپتالوں‘68 مراکزِ صحت کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کئی ہسپتال مکمل طور پر تباہ اور باقی غیر فعال ہو گئے۔ گزشتہ روز اسرائیلی حملوں میں مزید 35افراد شہید‘ بیسیوں زخمی ہو گئے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کے رہنمائوں کو قتل کرکے سرخ لکیریں عبور کی ہیں۔ (روزنامہ دنیا‘ 2 اگست 2024ء)۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار 2 اگست تک کے تھے اور ان میں ہر روز مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ (جاری)