ایران میں شہادت پانے والے اسماعیل ہنیہ شہید کا تہران میں بھی جنازہ پڑھا گیا، امامت آیت اللہ علی خامنہ ای نے کی۔شہید کے جنازے میں 20 لاکھ کے قریب افراد نے شرکت کی۔ اسی طرح پوری دنیا میں ان کے جنازوں میں کروڑوں اہلِ ایمان شریک ہوئے۔ غم کے ان لمحات میں صہیونی درندوں کے مظالم کا سلسلہ نہ رکا۔ مسجد اقصیٰ کے امام اور خطیب شیخ عکرمہ سعید صبری‘ جن کی عمر 85 سال ہے، انہیں اسرائیلی حکومت نے گرفتار کر لیا کہ انہوں نے اپنے خطبے میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کہا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ آپ سوچئے کہ اس سے بڑھ کر سفاکی اور درندگی کیا ہو سکتی ہے؟ مگر اس کے ساتھ یہ اندھیر نگری بھی ملاحظہ فرمائیے کہ نیتن یاہو‘ جو عالمی عدالت انصاف سے جنگی مجرم اور قاتلِ انسانیت بھی قرار دیا جا چکا ہے‘ بڑے فخر کے ساتھ امریکی کانگریس میں خطاب کرتا ہے اور خود کو ہر عیب سے پاک اور ہر فلسطینی بالخصوص حماس کے ہر فرد کو مجرم‘ گردن زدنی اور قاتل ٹھہراتا ہے۔
انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے امریکی حکمران اس قدر بے حس ہیں کہ ایسے شخص کو جس کے جرائم پوری دنیا کے سامنے بالکل واضح ہیں‘ اعزاز واکرام کے ساتھ اپنی مجلس قانون ساز میں خطاب کی دعوت دیتے ہیں۔ اس نے جتنا جھوٹ اس تقریر میں بولا شاید امریکہ کے تمام حکمران اور قانون دان‘ جن کے جھوٹ بھی کوئی راز نہیں‘ اس کا عشر عشیر بھی آج تک اس ہائوس میں نہ بو ل سکے ہوں گے۔ یہ اندھیر نگری ہے۔ شہدا کا خون ان شاء اللہ رنگ لائے گا اور ظلم وستم کی یہ طویل سیاہ رات ختم ہو کر رہے گی۔
اس بے حسی کے عالم میں بہت بڑا حوصلہ اس بات سے ملتا ہے کہ غزہ میں جو جذبہ کارفرما ہے یہ اسلاف صالحین کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ اسماعیل ہنیہ شہید کے بیٹے عبدالسلام اپنے باپ کی شہادت پر تمام اہلِ فلسطین کو تسلی دے رہے تھے کہ منزل کی جانب سفر جاری رہے گا اور ان شاء اللہ ہم ایک دن منزل حاصل کر کے رہیں گے۔ یہ شہادت نہ پہلی ہے نہ آخری‘ ہم تو لاتعداد شہدا کے امین اور وارث ہیں۔ اسی طرح شہید کی بہو ایناس ہنیہ‘ جو اسماعیل ہنیہ کی بھتیجی بھی ہیں‘ نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں قرآن کی آیت کا حوالہ دیا۔ ترجمہ: ''ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت‘ دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے‘‘۔ (سورۂ ابراہیم: 27)
عظیم خانوادے کی اس عالی ہمت بیٹی نے اس آیت کی روشنی میں اتنی بہترین گفتگو کی کہ جس سے اہلِ ایمان کے حوصلے بلند ہو گئے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے‘ وہ دنیا میں بھی ہمارا سرپرست اور مددگار ہے اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ اس کی رحمت کا سایہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہو گا اور وہ ہمیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ اللہ کے بندے کبھی بددل اور مایوس نہیں ہوتے۔ زندگی اللہ کی امانت ہے وہ جب چاہے لے لے۔ بندے کو نہ کوئی شکایت کرنی چاہیے اور نہ حوصلہ ہارنا چاہیے۔
اندازہ کیجیے کہ آج غزہ میں امتِ اسلامیہ کی یہ ایک مختصر سی تعداد‘ جن کے پاس نہ اسلحہ ہے نہ خوراک‘ ظالم صہیونی درندوں کے سامنے فولادی دیوار بنے کھڑے ہیں۔ یہ حوصلہ ایمان کی قوت اور عشقِ رسول کا انعام ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی اور دیگر اسرائیل کی حامی شیطانی قوتیں جتنا زور لگا لیں‘ اہلِ ایمان ان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ اسماعیل ہنیہ نے اپنی شہادت سے قبل بار بار شہادتوں کے مناظر اور واقعات دیکھے۔ ان کے تین بیٹے حازم‘ عامر اور محمد اور دو پوتے اور دو پوتیاں عید کے اگلے روز اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے تو قطر کے ہسپتالوں میں بیماروں کی عیادت کرتے ہوئے اسماعیل ہنیہ کو یہ خبر ملی۔ اس شیر دل مجاہد نے فوراً کہا: میرے 36 ہزار سے زائد بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں غزہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ ہم ان تمام شہدا کے خون کے وارث ہیں۔ خونِ شہدا کا نہ سودا کریں گے نہ اسے رائیگاں جانے دیں گے۔ ''ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ خون آخر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا‘‘۔
ساری دنیا حیران ہے کہ یہ خواب ہے یا حقیقت۔ اہلِ غزہ جس بے سروسامانی کے باوجود دنیا کی نام نہاد سپر طاقتوں کی سرپرستی میں ظلم و ستم ڈھانے والے اسرائیلی درندوں کے سامنے سینہ سپر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ایک معجزے سے کم نہیں۔ نبی اکرمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے نوازا تھا‘ جس کے نتیجے میں دشمن ایک مہینے کی مسافت پر بھی آپﷺ کے خوف سے لرز اٹھتا تھا۔ آپﷺ دنیا سے تشریف لے گئے مگر آپ کے معجزات اور برکات اس امت کے لیے تا قیامت بہت بڑا سہارا ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ آپﷺ کے سچے امتی بن کر دکھائیں۔خود اللہ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے کہ نہ کمزوری دکھائو اور نہ غم کرو یقینا غلبہ تمہارا مقدر ہے بشرطیکہ تم حقیقی مومن بن جائو۔(آلِ عمران: 139)
آج کے دور میں اہلِ غزہ نے حقیقی مومن بن کر دکھا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بے مثال جرأت اور یادگار استقامت و صبر سے نواز دیا۔اسرائیل کے بہت سے جنگی ماہرین بلکہ فوجی افسران (ریٹائرڈ بھی اور حاضر سروس بھی) اپنے تجزیوں میں تسلیم کر چکے ہیں کہ بے انتہا اسلحہ استعمال کرنے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجوداسرائیل کا مقدر ناکامی ہے۔ اسرائیل کے اندر ہزاروں لوگ نیتن یاہو کے خلاف ہر روز احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں سپر طاقتیں ہونے کا دعویٰ تو بہت سے طاغوتی حکمرانوں نے کیا اور آج بھی کر رہے ہیں مگر سپر طاقت صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ رب العالمین کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ۔ اللہ کے دین کا ساتھ دینے والے اور اس کا جھنڈا اٹھا کر میدان میں اترنے والے ناقابلِ شکست ہوتے ہیں۔ سیرتِ طیبہ میں غزوئہ تبوک ایک نہایت ایمان افروز واقعہ ہے۔اس دور کی سپر طاقت قیصر روم عرب کی نئی مؤسسہ اسلامی ریاست کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا اور واقعی وہ باطل کے لیے خطرہ تھی۔اس نے اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے بہت بڑا لشکر جمع کیا۔ وہ لشکر کے ساتھ شام سے جزیرہ نمائے عرب کی طرف چلا۔ادھر آنحضورﷺ کو اطلاع ملی تو آپﷺ نے مدینہ میں اعلان کیا ہم یہاں نہیں بیٹھیں گے بلکہ عرب کی سرحد پرقیصرِ روم سے مقابلہ کریں گے۔
قیصرِ روم اپنی لاکھوں فوجوں کے ساتھ آرہا تھا۔ مگر آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کی آمد کی خبر سن کر ہی اتنا بدحواس ہوگیا کہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ رعب رسولِ رحمتﷺ کو اللہ تعالیٰ کی خاص عطا تھی۔ غزہ میں آپﷺ کے نہتے امتی جس طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور اسرائیلی ساری قوت کے باوجود جس طرح چیخ و پکار کر رہے ہیں‘ یہ اسی رعبِ نبوی کا اثر ہے۔طوفان الاقصیٰ کے ایک ہی حملے میں اسرائیل کا جو حال ہوا تھا وہ اسلام دشمنوں کا پول کھول چکا ہے۔ اسماعیل ہنیہ زندہ ہے! تمام شہدا زندہ ہیں! صہیونی درندے دو جہانوں میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہر سچے مومن کا اس حقیقت پر ایمان ہے!