ظالم کا انجام تباہی‘ مظلوم کا مقدر کامیابی!

دنیا میں ظلم تو ہر دور میں ہوتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں ڈھائے جانے والے مظالم کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ دنیا میں ایسی اندھیر نگری ہے کہ مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنے کے بجائے سب بڑی قوتیں ظالم کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ اس اندھیر نگری میں بہرحال اہلِ غزہ کی بے مثال قربانیوں اور ناقابلِ شکست عزیمت و جرأت نے دنیا کی ایک بڑی آبادی کو حقیقت سے روشناس کرا دیا ہے۔ مغرب میں بسنے والے لوگوں کے دلوں میں بھی اہلِ غزہ کی ان قربانیوں کے نتیجے میں روشنی کی کرن پیدا ہو گئی ہے۔ یہ لوگ اگرچہ بظاہر اسلام سے دور ہیں مگر ان کے ضمیر زندہ ہیں۔ مغربی دنیا میں ایک بڑی تعداد صہیونی اور امریکی و یورپی پروپیگنڈے کے باوجود‘ آج حقیقت کو جان چکی ہے اور وہ باضمیر لوگ مشکل ترین حالات میں بھی مظلوم کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اہلِ غزہ کی یہ بہت بڑی اخلاقی فتح ہے۔ ساری دنیا اس بات پر حیران ہے کہ لاکھوں ٹن بارود استعمال کرنے کے باوجود اب تک اسرائیلی فوجیں غزہ کے ابابیلوں کے عزمِ بلند اور جذبۂ جہاد کو ختم نہیں کر سکیں۔ ہزاروں شہدا اور لاکھوں زخمیوں کی قربانی کے بعد بھی اہلِ غزہ کو شکست نہیں دی جا سکی۔ امریکہ‘ یورپ اور بھارت کی پشت پناہی کے باوجود اسرائیلی فوجیں مایوسی کا شکار ہیں۔ خود اسرائیل کے اندر عام آبادی نیتن یاہو کی حکومت اور فوجوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ حماس کے خلاف جتنا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا‘ خود اسرائیلی یرغمالیوں نے رہا ہونے کے بعد اس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ جھوٹ آخر جھوٹ ہے کب تک دنیا کو دھوکا دے سکے گا۔
حال ہی میں حماس کی قید سے رہا ہونے والی ایک خاتون نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اسے غزہ میں قید کے دوران کسی فلسطینی نے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی‘ نہ اس کی توہین کی۔ بوڑھی خاتون نوآ ارگامانی (Noa Argamani) نے رہائی کے چند دن بعد پریس میں بیان دیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں سے میڈیا میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔ نہ مجھے کسی نے مارا‘ نہ میرے بال کاٹے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں میرے بال کاٹے گئے اور میری مار پٹائی ہوئی‘ وہ سراسر جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ میں جس عمارت میں رکھی گئی تھی اس میں اندھا دھند اسرائیلی بمبارمنٹ سے بدترین تباہی ہوئی۔ اس بمباری کے نتیجے میں ہی میرے سر پہ زخم آئے اور میرا سارا جسم بھی زخموں سے چور ہو گیا۔
اس خاتون نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ اس طرح کا جھوٹا پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ مجھے ہر رات اسرائیلی بمباری کی وجہ سے خطرات محسوس ہوتے تھے اور نیند نہیں آتی تھی مگر اس میں حماس یا غزہ کے کسی فرد کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ان لوگوں کا رویہ میرے ساتھ شریفانہ تھا۔ بہت سے ذرائع ابلاغ نے اس عمر رسیدہ خاتون کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ بالخصوص ترکش ریڈیو اینڈ ٹی وی (TRT World) نے اس کی پوری تفصیل بیان کی ہے جو 25 اگست کو وائرل ہو گئی۔ یہ محض ایک مثال نہیں‘ اسی طرح کی تفصیلات بہت سی دیگر شخصیات نے بھی رہا ہونے کے بعد بیان کی ہیں جن میں حماس کی شرافت اور انسانی اقدار کا اعتراف کیا گیا ہے۔ سورج کی روشنی کے سامنے کون بند باندھ سکتا ہے۔
حال ہی میں غزہ میں محبوس اسرائیلی اور امریکی یرغمالیوں کی لاشیں ملی ہیں جن کی موت کی وجہ اسرائیلی حملے ہیں۔ اگر جنگ بندی ہو جاتی تو یہ لوگ سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے یہ سارے حادثات ہوئے۔ ہزاروں فلسطینیوں کی شہادتوں پر تو کسی کو کوئی افسوس نہیں‘ مگر جارحیت کرنے والے امریکی اور اسرائیلی مارے جائیں تو طوفان کھڑا ہو جاتا ہے اور دنیا بھر کی شیطانی قوتیں بپھر کر مظلومینِ غزہ پر حملہ آور ہو جاتی ہیں جبکہ مسلم حکمران مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں نے غزہ اور تل ابیب سے جو خبر جاری کی ہے اس میں چشم کشا حقائق سامنے آئے ہیں۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے اور یقینا تاریخ مجرم اور بے گناہ کی پوری شناخت اپنے سینے میں محفوظ کر رہی ہے۔ اللہ کے ہاں بھی ذرے ذرے کی تفصیل پیش کی جائے گی اور اسی کے مطابق فیصلے صادر ہوں گے۔
خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ''غزہ کے علاقے رفح میں سرنگ سے ایک امریکی سمیت 6 اسرائیلی مغویوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے‘ جن افراد کی لاشیں ملی ہیں ان میں چار مرد اور دو خواتین ہیں۔ امریکی شہری ہرش گولڈ برگ پولن کے خاندان کی جانب سے اس کی لاش ملنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ ترجمان اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ تمام افراد کی لاشیں ایک یا دو دن پرانی ہیں۔ امریکی شہری کی لاش ملنے پر امریکی صدر بائیڈن نے کہا گولڈ برگ امریکی شہری تھے‘ لاش ملنے پر غمناک اور غصے میں ہوں۔ انہوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ حماس کے رہنما ان جرائم کی قیمت ادا کریں گے۔ امریکی نائب صدر کملاہیرس نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ امریکی شہری کا خون حماس کے ہاتھوں پر ہے۔ دوسری جانب حماس رہنما عزت الشیق کا کہنا تھا کہ جن یرغمالیوں کی لاشیں ملیں وہ اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہوئے‘ ہم قیدیوں کی زندگیوں کا بائیڈن سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ حماس نے جنگ بندی تجاویز اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو قبول کیا تھا مگر نیتن یاہو اور جوبائیڈن نے اسے مسترد کیا۔ یرغمالیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔ حماس کے ایک اور سینئر رہنما نے بتایا کہ جن چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملی ہیں ان کے نام اس فہرست میں شامل تھے جنہیں جنگ بندی کی صورت میں پہلے مرحلے پر رہا کیا جانا تھا‘‘۔
مغویوں کی لاشیں ملنے پر اسرائیلی وزیراعظم کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے‘ اس نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یرغمالیوں کے قتل کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرایا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حماس کے رہنمأوں کا تعاقب جاری رکھے گا۔ باقی مغویوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے پُرعزم ہیں‘ جنہوں نے یرغمالیوں کو قتل کیا وہ معاہدہ نہیں چاہتے۔ تاہم لاپتا خاندانوں کے فورم نے غزہ سے اپنے رشتہ داروں کی لاشیں ملنے کا ذمہ دار اسرائیلی وزیراعظم کو قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر نتین یاہو حکومت حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر دستخط کر دیتی تو آج ہمارے پیارے یہ یرغمالی زندہ ہوتے۔ نیتن یاہو کے خلاف اس وقت پورے اسرائیل میں ہزاروں لوگ مظاہرے کر رہے ہیں۔ پیر کو مختلف ورکرز اور یونینز کی جانب سے ہڑتال کی گئی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مکمل جنگ بندی کی جائے اور یرغمالیوں کو واپس لایا جائے۔ ہڑتال کرنے والوں کو اسرائیلی وزیر خزانہ نے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ جو شخص بھی ہڑتال اور احتجاج میں حصہ لے گا اسے تنخواہ نہیں دی جائے گی۔
اسرائیلی حملوں کے باوجود اہلِ غزہ نے ہتھیار نہیں ڈالے‘ وہ اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق ظلم و بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک تازہ کارروائی میں مغربی شاہراہ پر تین اسرائیلی پولیس افسر مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔ ایک دوسری کارروائی میں ایک صہیونی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ حملہ آور کارروائی کے بعد بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ پر وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک شہدا کی تعداد 40 ہزار 749اور زخمیوں کی تعداد 94 ہزار 154 ہو چکی ہے‘ جبکہ لاپتا افراد اس کے علاوہ ہیں۔ ان کو شامل کریں تو یہ تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں منہدم عمارتوں کے ملبے کے نیچے لاتعداد شہری‘ مردوخواتین‘ بوڑھے اور معصوم بچے دب کر شہید ہو چکے ہیں جن کی لاشیں بھی نہیں نکالی جا سکیں۔ یہ ظلم ان شاء اللہ ضرور ایک دن ختم ہو کر رہے گا۔ اے اہلِ غزہ تمہاری بے مثال عظمت کو سلام!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں