حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ …(3)

حضرت عمر فاروقؓ اپنے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ صحابہ کے ساتھ مشاورت کی ایک نشست میں بیٹھے تھے۔ فاروقِ اعظمؓ سے ملنے کے لیے وہ صحابہ آئے جو زمانہ کفر میں مکہ کے بڑے بڑے سردار تھے۔ ان میں ابو سفیان بن حرب‘ عکرمہ بن ابی جہل‘ حارث بن ہشام اور سہیل بن عمرو شامل تھے۔ اسی لمحے کچھ اور اہلِ اسلام بھی حضرت عمر فاروقؓ سے ملنے کی خاطر آئے۔ ان لوگوں میں خباب بن ارت‘ بلال بن رباح‘ سلمان فارسی اور عمار بن یاسر رضوان اللہ علیہم شامل تھے۔ یہ سبھی سابقون الاولون اور صاحب استقامت و عزیمت صحابہ تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے جاہلی دور کے ان غلاموں کو‘ جن کی تاریخ ساز قربانیوں نے اہلِ مظالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اور جن کو حضورِ اکرمﷺ نے جنت کی بشارت دی تھی اور جو اسلامی معاشرے میں غلام نہیں بلکہ معزز سردار کا رتبہ حاصل کر چکے تھے‘ رئوسائے قریش سے قبل ملاقات کے لیے بلا لیا۔ سردارانِ قریش یہ دیکھ کر بہت تلملائے اور ابوسفیانؓ نے تو اپنے دلی جذبات کو زبان بھی دے دی اور کہا: ''میں نے آج جیسی (ذلت) کبھی نہیں دیکھی‘‘۔
اسلام نے تمام جاہلی رسومات اور سوچ کو ختم کر دیا تھا۔ تکبر کا ایک ذرہ بھی کسی کے اندر ہو تو وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے بڑے بڑے سردار بہت بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور سب کی پوری طرح تربیت نہیں ہو پائی تھی۔ یہ الفاظ اپنے اندر دورِ جاہلیت کی سوچ کے غماز تھے۔ گو کہ ان افراد کے درمیان وہ عظیم ستارے بھی موجود تھے جو فلک اسلام پر طلوع ہوئے تو روشنی ہی روشنی پھیلائی۔ اپنی ساری سابقہ سوچوں کو دفن کر دیا اور خود کو صبغۃ اللہ میں ڈھال لیا۔ اس سوچ اور ماہیت قلب کی مثالیں بے شمار ہیں۔ اس موقع پر ابوسفیانؓ کے جواب میں ان کے اپنے ساتھی اور بڑے سردار حضرت سہیلؓ نے فوراً کہا: ''ان کو ملامت نہ کرو‘ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ انہیں بھی دعوت دی گئی تھی اور تمہیں بھی دعوت دی گئی تھی پس وہ دعوت کی طرف تیزی سے لپکے اور تم پیچھے رہ گئے‘‘۔ پھر فرمایا: ''اے قوم! جہاد کی طرف توجہ دو اور اسے اپنے اوپر لازم کر لو شاید کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو شہادت کی نعمت سے نواز کر تلافیِ مافات کر دے‘‘۔ ماشاء اللہ کتنا بے مثال کلام اور کتنا عظیم جواب ہے!
حضرت سہیلؓ بن عمرو ایک زیرک و دانا شخص اور ایک بڑے سفارتکار تھے۔ یہی وہ شخص تھا جس نے صلح حدیبیہ کے معاہدے میں بسم اللہ اور محمد رسول اللہ کے الفاظ پر اعتراض اٹھایا تھا اور بعد ازاں رسول اللہﷺ نے ان الفاظ کو تبدیل کر دیا تھا مگر بعد میں یہی سہیلؓ بن عمرو تھے کہ رسول اللہ کے وصال کے وقت جب بیت اللہ میں مرتدین اہلِ مکہ کو دینِ اسلام سے برگشتہ کر رہے تھے تو اُس وقت سہیل بن عمرو نے ایسا پُراثر خطاب کیا کہ جس نے سب کو خاموش کر کے رکھ دیا۔ یہ بھی فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے اور قبولِ اسلام کے بعد بے شمار عظیم کارنامے سر انجام دیے۔ ان کے حالات میری کتاب ''روشنی کے مینار‘‘ میں درج ہیں۔
صحابہ کرامؓ حضور رسالت مآبﷺ کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے دلوں میں جنت کی محبت اور اللہ ورسول کی رضا یوں رچی بسی تھی کہ غم ہو یا خوشی‘ عسرت ہو یا فراخی وخوشحالی‘ ان کی نظریں دنیا کے مقابلے میں آخرت پر ہی مرکوز رہتی تھیں۔ حضرت خبابؓ نے جب خلفائے راشدین کے دور میں فتوحات کی بہار دیکھی تو اس سے بہت خوش بھی ہوتے کہ مدینہ کی اسلامی ریاست معاشی مشکلات سے نکل کر خوشحالی کی جانب رواں دواں ہے لیکن کبھی کبھی دولت کی ریل پیل کو دیکھ کر بہت غمزدہ ہو جاتے اور آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ جب پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا ہے تو آپؓ نے فرمایا: جو صحابہ اپنے نام ومرتبے میں ہم سے بہت بلند وبالا تھے وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کو پورا کفن بھی نصیب نہ ہوا۔ پھر خاص طور پر حضرت مصعبؓ بن عمیر اور سید الشہداء حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کا نام لے کر ان کے آخری لمحات کا ذکر کرتے۔ اس دوران ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔آپؓ نے کئی بار یہ کہا کہ ان عظیم المرتبت صحابہ نے تنگی وعسرت میں وقت گزارا اور دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہونے سے پہلے آخرت کو سدھار گئے۔ ہمیں جو نعمتیں مل رہی ہیں‘ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی وجہ سے آخرت میں ہمارے درجات نیچے نہ آجائیں۔
جب حضرت خبابؓ بڑھاپے کی منزل کو پہنچے تو حضرت عثمانؓ کی شہادت کا المناک واقعہ رونما ہوا۔ فسادیوں کے اس ظلم اور شہید مظلوم ذوالنورینؓ کی شہادت نے آپؓ کے دل کا قرار چھین لیا‘ آپ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ شہادتِ عثمان کے بعد آپؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت کی اور اپنے اہل وعیال کو بھی حکم دیا کہ وہ خلیفہ راشد حضرت علیؓ کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کریں۔ حضرت علیؓ نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تو حضرت خبابؓ بھی کوفہ میں منتقل ہو گئے اور وہیں پر 37ھ میں شدید بیمار پڑے اور چند دنوں کے بعد بعمر 72 سال وفات پا گئے۔ وفات سے قبل تاریخ میں آپؓ کے جو حالات بیان ہوئے ہیں‘ وہ بھی بڑے سبق آموز ہیں۔ شدید تکلیف کی حالت میں جب صحابہ عیادت کے لیے آتے تو آپؓ کو خوشخبری سناتے کہ اے ابوعبداللہ آپ سادس الاسلام ہیں۔ حضور پاکﷺ اپنی ساری زندگی آپ سے خوش رہے۔ ہمیں اللہ کی رحمت سے یقینی امید ہے کہ آپؓ حوضِ کوثر پر آنحضورﷺ کے دست مبارک سے جامِ کوثر پئیں گے اور اپنے پیارے ساتھیوں کے ساتھ جنت میں خوش خوش زندگی گزاریں گے۔ اپنے مخلص بھائیوں کی یہ باتیں سن کر آپؓ پر گریہ طاری ہو گیا اور شہدائے احد کا حوالہ دے کر وہی بات دہرائی جس کا تذکرہ ہو چکا کہ ان خوش نصیب جنتیوں نے تو دنیا سے کچھ نہ پایا اور اپنا سارا اجر آخرت کے لیے سمیٹ کر اپنے دفتر میں جمع کر لیا جبکہ ہم نے دنیا کی نعمتوں اور عیش وعشرت کی زندگی میں وقت گزارا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے وہاں ہمارے حساب کی کیفیت کیا ہو گی۔ آخری وقت میں کہا کہ میرا کفن مجھے دکھائو۔ جب کفن کا کپڑا دیکھا تو وہی گریہ طاری ہو گیا۔ اور کہا کہ شہدائے احد کو چھوٹی چھوٹی چادروں میں کفنایا گیا‘ سر ڈھانپتے تھے تو پائوں ننگے ہو جاتے تھے۔ پائوں ڈھانپتے تھے تو سر ننگا ہو جاتا تھا۔ پھر آنحضورﷺ کے حکم کے مطابق ہم نے ان شہداء کے پائوں اذخر (گھاس) سے ڈھانپے۔ 72 سال کی عمر میں آپؓ کوفہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ اہلِ کوفہ اپنے مُردوں کو شہر کے اندر بنائے گئے قبرستانوں میں دفن کرتے تھے۔ آپؓ نے وصیت کی کہ آپ کی قبر شہر کے باہر کھلے میدان میں بنائی جائے۔ حضرت علیؓ اور حضرت خبابؓ میں باہمی دوستی اور مثالی محبت تھی۔ حضرت خبابؓ کی وفات کے وقت حضرت علیؓ جنگ صفین میں مصروف تھے۔ جنگ سے فارغ ہونے کے بعد جب حیدرِ کرارؓ کوفہ کی طرف پلٹے تو معلوم ہوا کہ ان کے دوست حضرت خبابؓ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ اس خبر پر آپؓ غمگین ہو گئے۔ واپسی پر سب سے پہلے آپؓ حضرت خبابؓ کی قبر پر گئے اور دیر تک سوز وگداز کے ساتھ ان کی مغفرت کے لیے دعائیں کیں اور ان کے مناقب بھی بیان کیے۔ پھر آپؓ کے غمِ فراق کا ذکر کرکے شیرِ خدا کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ حضرت خبابؓ کے بیٹے عبداللہؓ بھی صحابی تھے اور انہی کی نسبت سے آپ کو ابوعبداللہ کہا جاتا تھا۔ باپ کی وصیت کے مطابق حضرت عبداللہ بن خبابؓ نے حضرت علیؓ کا بھرپور ساتھ دیا۔
حضرت خبابؓ اپنے فن میں مثالی مہارت رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ میں بیشتر وقت غزوات اور مہمات میں گزرا مگر جو وقت میسرآتا اس میں اپنے ہنر وفن کا بہترین استعمال کرکے خاصی رقم کما لیتے تھے۔ مستحقین کو بھی اپنے مال ودولت میں شریک کرتے تھے۔ تمام صحابہ کی طرح بیت المال سے آپؓ کا سالانہ وظیفہ چار ہزار درہم مقرر تھا۔ جب آپؓ کی وفات ہوئی تو آپ کے نقد اثاثے میں چالیس ہزار درہم موجود تھے۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں