صدر زرداری نے کہا، … ’’ہم نے پنجاب حکومت کو اربوں روپے کے فنڈز دیے جو صرف لاہور پر لگادیے گئے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں تک بھی قابل قبول تھا لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ 70ارب روپیہ لگاکر نہ صرف بیشمار لوگوں کی زندگیاں اجیرن کردی گئیں بلکہ اربوں روپے کی جائیدادوں کا بھی تیاپانچہ کرکے انہیں ٹکے ٹوکری کردیا گیا، فیروز پور روڈ پر کاروبار کی جو تباہی ہوئی وہ اس کے علاوہ ہے۔ اوپر سے اس سپرفلاپ پراجیکٹ کی اشتہار بازی کرکے عوام کو بیوقوف بھی بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ مضحکہ خیز منصوبہ پورس کے ہاتھی سے کم نہیں۔ چند اعدادوشمار ودیگر حقائق پر غور فرمائیں۔ جنگلہ بس 27کلومیٹر لمبی، خرچہ 70ارب یعنی تقریباً سواارب روپے فی کلومیٹر۔ 27کلومیٹر پر 27سٹاپس ہیں اور اگر ہرسٹاپ پر بس اوسطاً دو منٹ بھی کھڑی ہو کہ بچے، بوڑھے، معذور ، عورتیں سبھی ہوتے ہیں تو 2منٹ فی سٹاپ کے حساب سے کل 54منٹ بنتے ہیں جبکہ بنانے والے مسلسل یہ جھوٹ بول رہے ہیں کہ گجومتہ تا شاہدرہ یہ سارا سفر 55منٹ میں طے ہوگا تو کیا یہ عوام الناس کو جانوروں سے بھی کم عقل سمجھتے ہیں؟ 27کلومیٹر ٹریک کا کرایہ 20روپے رکھا گیا ہے جبکہ البراق کمپنی کو حکومت پنجاب فی کلومیٹر 360روپے رینٹ ادا کرنے کی پابند ہے جوکہ 27کلومیٹر 19440روپے دوطرفہ بنتا ہے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ ایک بس میں 100مسافر موجود ہیں تو حکومت پنجاب کو دوطرفہ کرایہ کی مد میں جو حاصل ہوگا وہ صرف 4000روپے ہوگا۔ باقی 15440روپے حکومت پنجاب کس کی جیب سے البراق کمپنی کو ادا کرے گی؟ حکومت پنجاب کا اشتہار تھا کہ میٹروبس پر سفر کرنے والوں کی تعداد 110,000روزانہ ہوچکی ہے۔ اگر حساب کریں تو اتنے مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے 1100چکر درکار ہیں۔ 20روپے فی سواری کے حساب سے حکومت پنجاب کو 1100چکروں میں صرف چوالیس لاکھ روپے کی آمدنی ہوگی اور اگر ہم اتنے چکروں کو انیس ہزار چارسو چالیس روپے سے ضرب دیں تو اس حساب سے دو کروڑ تیرہ لاکھ چوراسی ہزار روپے روزانہ حکومت پنجاب البراق کمپنی کو ادا کررہی ہے جبکہ اس میں 27سٹاپس کے سٹاف وغیرہ کے اخراجات شامل نہیں۔ سبحان اللہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ اک اور ظلم یہ ہوا کہ فیروز پور روڈ کے اردگرد کی آبادیوں میں رہنے والوں کا پٹرول پر خرچ اگر پہلے 500روپے تھا وہ اب 800ہوچکا ہے مثلاً ماڈل ٹائون سے گلبرگ جانے کے لیے پہلے کلمہ چوک سے دائیں اور سفر ختم جبکہ اب اس پاگل پن کے نتیجہ میں پہلے ایف سی کالج جائو پھر یوٹرن لے کر واپس دوبارہ کلمہ چوک اور پھر بائیں مڑ کر گلبرگ میں گھسو اور اس مجنونانہ منصوبہ کا ماتم کرو ۔ اور ہاں جو میئر استنبول نے 100لنڈے کی بسیں دینے کا وعدہ کیا، وہ کہاں ہیں ؟ مزید یہ کہ حکومت نے جو 100نئی ڈائیووبسیں خریدی تھیں وہ کہاں ہوتی ہیں ؟ ابھی تک البراق کمپنی نے صرف 45بسیں فراہم کی ہیں جبکہ حکومت پنجاب کی جانب سے اوپر بیان کی گئی تمام سبسڈی کے علاوہ ڈیڑھ ارب روپے سالانہ کرایہ دینا بھی منظور کیا گیا ہے۔ ان بسوں کی عمر زیادہ سے زیادہ 10سال ہے اور ان 10سالوں میں بسوں کے کرایہ کی مد میں البراق کو 15ارب روپے حکومت پنجاب کے ذمہ واجب الادا ہوں گے تو حضور! کیا یہ پراجیکٹ استروں کی مالا نہیں ہے جو پنجاب کے گلے میں ڈال دی گئی ہے ؟ دلچسپ بات یہ کہ اوپری اعدادوشمار میں 27سٹاپوں کے سٹاف کا خرچہ، برقی زینوں کی حماقت کے اخراجات‘ جنریٹرز کی رننگ کاسٹ، میٹروپولیس کی تنخواہیں وغیرہ اور ٹریک کی صفائی ستھرائی کے خرچے شامل نہیں۔ افتتاح والے دن خادم صاحب نے فرمایا تھا کہ ساڑھے چارسال میں منصوبے کی لاگت واپس آجائے گی۔ یہ سفید جھوٹ سے بھی آگے کا کام ہے کہ اس قدر سبسڈائزڈ منصوبہ ساڑھے چارسال میں لاگت پوری کرہی نہیں سکتا کہ دنیا میں آج تک ایسی کوئی مثال نہیں۔ پھر یہ بس جیل کے اوپر سے گزرتی ہے جو بدترین سیکیورٹی کو مپرومائز ہے۔ پل پر ایک ٹرن ایسا بھی ہے جیسا کوئی ہوشمند سادہ سڑک پر بھی نہیں رکھتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غریبوں کے لیے نیوروسرجری کا ایک ہی سنٹر تھا یعنی جنرل ہسپتال تو اس عوام دشمن منصوبہ نے اس تک کا فاصلہ بھی کئی گنا بڑھا دیا جبکہ دماغی چوٹ کے مریض کا ایک ایک پل بہت قیمتی ہوتا ہے۔ خادم پنجاب صاحب نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو کہا ہے کہ اس منصوبہ کا پوسٹ مارٹم کرے جبکہ ٹرانسپیرنسی نے اس سلسلہ میں بجاطورپر چودھری پرویز الٰہی سے کہا ہے کہ ثبوت دیں۔ تیل دیکھیں اس کی دھار دیکھیں …حکومتیں اندر خانے کیسا کیسا جوڑ توڑ کرسکتی ہیں ؟چودھری پرویز الٰہی سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ انہیں چاہیے کہ اپنی ٹیم کو اس پراگندہ پراجیکٹ کی دھجیاں اڑانے کی ہدایت کریں اور ساری ’’فیکٹ شیٹ‘‘ ’’ٹرانسپیرنسی‘‘ کو ہفتہ کے اندر اندر فراہم کردیں۔ صرف منصوبہ کی کل لاگت کے حوالہ سے بولا گیا ٹیکنیکل جھوٹ ہی پکڑاجائے تو صوبہ پر احسانِ عظیم ہوگا کہ کیا اس COST میں بار بار کی توڑپھوڑ بھی شامل ہے؟ اور وفاقی حکومت کو بائی پاس کرنے کے لیے جو چالاکیاں کی گئیں، ان کی تفصیل کیا ہے؟