"HNC" (space) message & send to 7575

جمہوری شغل میلہ

روڈ میپ بالکل سامنے ہے، انیس بیس کی اونچ نیچ کے ساتھ انتخابی انتظامات ودیگر معاملات بھی بظاہر بالکل ٹھیک جارہے ہیں، ہر شے اپنی اپنی جگہ پر فٹ بیٹھتی جارہی ہے لیکن پھر بھی کیا کروں یہ جوکم بخت دل ہے ناں تو…دل ہے کہ مانتا نہیں اور دھیان بار بار اس منحوس انگریزی محاورے کی طرف جاتا ہے جس کا عوامی جمہوری ترجمہ کچھ یوں ہے کہ چائے کے کپ اور ہونٹوں کے درمیان کہیں بھی سب کچھ سلپ ہوسکتا ہے لیکن خیر جوکچھ بھی ہو رونق ، میلہ اور تماشہ خوب چل رہا ہے۔ کہیں سونامی کی خوشخبری ہے، کہیں ایٹمی دھماکے کے بعد معاشی دھماکے کی بات ہورہی ہے اور کہیں پنجاب کو کنگال کرنے والوں کا موازنہ اسے خوشحال کرنے والوں کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔ غرضیکہ ’’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘ روم میں جب قحط پڑتا، بھوک ننگ اپنے عروج پر پہنچ جاتی تو رومن اشرافیہ بدنامِ زمانہ رومن اکھاڑے کھول دیتی جہاں غلاموں کو غلاموں کے ساتھ لڑایا جاتا، بھوکے شیر زندہ انسانوں پر چھوڑ دیئے جاتے، تربیت یافتہ مرغ بندھے ہوئے قیدیوں کی آنکھیں نوچ نوچ کر نوشِ جان فرماتے اور مفلوک الحال استحصال زدہ عوام اپنی محرومیاں، ذلتیں، رسوائیاں بھول کر رومن اکھاڑوں کے خون آشام کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے …آج یہ سب کچھ اک مختلف انداز میں ہورہا ہے۔ ہم جیسے ملکوں کی مکار اشرافیہ نے رومن اکھاڑوں کی جگہ وقفوں وقفوں سے انتخابی دنگل رچانے کے فیشن کو فروغ دے رکھا ہے۔ جس کے پیٹ میں روٹی اور تن پر کپڑے پورے نہیں وہ بھی پورے جوش وخروش سے اس فراڈ انتخابی عمل کا جمہوری حصہ بن جاتا ہے جس کا کوئی نتیجہ آج تک عوام کے لیے کسی مثبت تبدیلی کا باعث نہیں بن سکا اور نہ آئندہ ایسا ہوتا نظر آتا ہے کہ بنیادی طورپر اکثر وبیشتر وہی نظر بٹو میدان میں ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا ناں کہ کسی اُلو کے پٹھے کی جگہ کوئی اُلو کا چرخہ ایوان تک رسائی پالے گا۔ یہاں یہ وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ بھائی !’’اُلو کا پٹھا‘‘ کوئی گالی یا غیرپارلیمانی لفظ نہیں ہے کیونکہ ’’پٹھا‘‘ پہلوانی زبان میں ’’شاگرد‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور طبّی زبان میں یہ مَسل کا ترجمہ ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اہلِ مغرب کے برعکس ’’اُلو‘‘ ہمارے ہاں بیوقوفی کا سمبل ہے۔ واقعی مشرق ومغرب بُری طرح متضاد ہیں کہ الو وہاں عقل ودانش اور یہاں حماقت کی علامت ہے۔ گدھا بھی اپنی شدید محنت اور شاکر وصابر طبیعت کے سبب ہمارے کلچر میں بیوقوف اور گھٹیا سمجھا جاتا ہے جبکہ اہلِ مغرب اسے فخر سے OWNکرتے ہیں کہ سپرپاور کی تومین سٹریم سیاسی پارٹی کا سمبل ہی گدھا ہے۔ فرق صاف ظاہر کہ یہاں انتخابی نشان ’’شیر ‘‘ ہوتا ہے، چیرپھاڑ کی نشانی۔ آیا آیا شیر آیا آیا آیا بگھیاڑ آیا واقعی انہیں گدھے پسند نہیں جو خدمت کی علامت ہوتے ہیں، انہیں بگھیاڑ پسند ہیں چاہے ان کے بچے ہی چیرپھاڑ کر رکھ دیں۔ خداجانے غیوروں ،باشعوروں کو یہ بات سمجھ کب آئے گی کہ انہیں شیروں کی نہیں گدھوں کی ضرورت ہے ۔ شاہینوں کی نہیں اُلوئوں کی ضرورت ہے لیکن ان کے تو دماغ ہی ایسی شاعری نے اُلٹ دیئے ۔ الٹنا پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا لہوگرم رکھنے کا ہے اک بہانہ اسی الٹ، پلٹ اور جھپٹ نے خانہ خراب کرکے رکھ دیا …معاف کیجیے میں اپنی دنیا چھوڑ کر مہذب دنیا کی طرف جانکلا تو اب واپس چلتے ہیں اپنے جمہوری کھیل تماشوں، موج میلوں کی طرف جہاں ہرطرف جھوٹ بیچنے کی کوشش ہورہی ہے ۔مثلاً موٹروے کے اصل محرکات سمجھنے ہوں تو ریمنڈڈبلیو بیکرکی مشہور زمانہ ’’CAPITALISM\'S ACHILLES HEEL‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔ رہ گیا ایٹم بم ،تو بنیاد رکھنے والا بھٹو، بنوانے والی طاقت عوام کے خون پسینے کی کمائی کا پیسہ ، بنانے والے بھٹو کے دریافت کردہ سائنس دان اور جہاں تک تعلق ہے دھماکے کا تو تب بھی بلکہ تب ہی حضرت ڈاکٹر مجید نظامی نے وارننگ دیدی تھی کہ ’’اگر آپ دھماکے نہیں کریں گے تو عوام آپ کا دھماکہ کردیں گے۔‘‘ ان حالات میں جو بھی ہوتا دھماکہ کرتا ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ جھوٹ، مکراور فریب کی مارکیٹنگ کا موسم ہے لیکن اس سارے کھیل تماشے میں اب تک سب سے سنسنی خیز خبر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی راکھ کے ڈھیر میں اب بھی ایسے شعلے اور چنگاریاں موجود ہیں جو کسی بھی وقت ’’بھانبڑ ‘‘ میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ سچ کہا تھا کسی سیانے نے کہ پیپلزپارٹی سیاسی جماعت نہیں، سیاسی فرقہ ہے جس کا دلچسپ مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کو ’’تیر‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ ہونے پر دونوں پیپلزپارٹیوں کے جیالے آپس میں اس بری طرح متصادم ہوگئے کہ کسی کی دم زخمی ہوگئی تو کسی کی چونچ! پاکستان کے حالیہ جمہوری شغل میلے پر دلچسپ ترین تبصرہ امریکی اخبار کا ہے کہ… ’’عمران خان اندھیرے کا تیر ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ یہی تیر چل گیا تو تیرگی کے خاتمہ کی امید ہے ورنہ اندھیرے کے سفیر تو میدان میں ہیں ہی۔ جو بھی ہوچائے کے کپ سے ہونٹوں تک کا’’فاصلہ‘‘کبھی نہ بھولیں اور اگراس الیکشن کا ’’فیصلہ ‘‘آگیا تو اس کے نتائج بھی ذہن میں رکھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں