اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تعصب اور ناپسندیدگی نے مجھے اتنا اندھا کبھی نہیں کیا کہ کوّا سفید دکھائی دینے لگے اور ہاینا ہرن نظرآنے لگے۔تھوڑی جارحیت اور شدت مزاج کا حصہ ضرور ہے، حسّاس ہونے کے سبب ظلم، زیادتی اور ناانصافی کو بھی اوسط آدمی سے ذرا زیادہ محسوس کرتا ہوں جس کی معمولی سی مثال یہ کہ فلم یا ڈرامے میں بھی زیادتی ظلم ہوتے دیکھوں تو برداشت نہیں ہوتا اور بلڈ پریشر ہاتھ سے نکلا جاتا ہے لیکن بنیادی بات وہی کہ شدت جذبات میں اندھے پن کی نوبت کبھی نہیں آئی جس کے لیے اپنے خالق کا سدا شکر گزار ہوں۔ جواں عمر ی میں زندگی کا ایک فیز ایسا بھی تھا جب میں قلمی ’’جیالا گیری‘‘ میں مبتلا ہوا کہ اس زمانہ میں اک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ بے اختیار بھٹو کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا۔ ماڈرن، روشن خیال، سیکولر… بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد یہ وابستگی شدید تر ہوگئی۔ ضیاالحق کے زمانہ میں نوبت جیلوں، جرمانوں اور شوکاز نوٹسز تک جا پہنچی۔ ’’گھر پھونک تماشہ دیکھ‘‘ کا سا عالم تھا جب محبی و محترمی مجیب الرحمن شامی صاحب نے مخالف کیمپ کا سرخیل ہونے کے باوجود مجھے ریسکیو کرنے کی کوشش کی۔ پھر میں تنگ آ کر 1980ء میں ملک چھوڑ گیا۔ 82ء میں پہلا ذاتی گھر بنانے کے بعد کچھ استحکام نصیب ہوا تو پھر ایک ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ کے نام سے نکال مارا کہ چور چوری سے جاتا ہے، ہیرا پھیری سے نہیں۔ اس بار یہ ’’جہاد‘‘ آسان تھا کہ ’’سامانِ جنگ‘‘ کی کمی نہ تھی اور میں بغیر اشتہاروں کے اپنے بل بوتے پر رسالہ نکال سکتا تھا۔ تیس چالیس ہزار ماہانہ کا نقصان افورڈ کر سکتا تھا سو کرتا رہا۔ پھر 86ء میں محترمہ پاکستان آگئیں اور یہی وہ دن تھے جب بی بی نے گیارہ جون 1987ء کو پرل کانٹینینٹل راولپنڈی میں پارلیمانی اپوزیشن گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ‘‘ONLY HASSAN NISAR TRULY UNDERSTANDS ZIA SYSTEM AND ITS UNBELIEVABLE PARADOXES WHEN HE SAYS, شہرِ آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی اُلٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا‘‘ محترمہ کی اس تاریخی تقریر میں میرے شعر کے حوالہ سے ضیا سسٹم کی خاصی تفصیل موجود ہے۔ جو خاصی شرمناک ہی نہیں مضحکہ خیز بھی تھی کہ بطور صدر جنرل ضیا وزیراعظم جونیجو کا باس تھا اور بطور آرمی چیف یہی ’’باس‘‘ وزیراعظم جونیجو کا ماتحت بھی تھا… بہرحال قصہ مختصر کہ مختصر ہی بھلا، میں بتدریج پیپلزپارٹی اور بھٹوز کو آئوٹ گرو کرتا چلا گیا اور فیصلہ کیا کہ صرف ’’پرو پاکستان‘‘ اور ’’پرو پیپل‘‘ ہو کر ہی سوچنا اور لکھنا ہے۔ تب تک نوازشریف بھی’’ فوجی انجیکشنز‘‘ لگوا لگوا کر اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور سرپرستی میں ’’اینٹی بھٹو‘‘ کا لیڈر بن چکا تھا اور ملک میں ’’چھوٹی برائی‘‘ Vs ’’بڑی برائی‘‘ کی بحث چھڑ چکی تھی۔ جب میں نے ’’بی بی بابو‘‘ دونوں کو ہی ایک جیسی خطرناک اور بڑی برائیاں لکھنا شروع کیا اور بنیادی دلیل یہ تھی کہ بی بی جاگیرداروں کی نمائندہ اور بابو صنعت کاروں کا نمائندہ ہے، ان میں سے کوئی بھی عوام کا حقیقی نمائندہ نہیں…… بہرحال وقت اور بی بی دونوں گزر گئے۔ آج پارٹی جہاں کھڑی ہے سب کے سامنے ہے لیکن یاد رہے کہ ہاتھی مر کے بھی سوا لاکھ کا لیکن مجھے اس پارٹی کی مظلومیت پہ رحم آرہا ہے۔ پی پی پی خوش نصیبی و بدنصیبی کی انتہا ہے۔ پورا بھٹو خاندان سیاست پر قربان ہوگیا اورآج پارٹی کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔ آصف زرداری اتنا ہی غیر ثابت شدہ کرپٹ ہے جتنے اس کے حریف اور کمال یہ کہ جس ’’شیطانی ذہن‘‘ نے شریف برادران کی گود میں بیٹھ کر زرداری پر ٹین پرسنٹ کا لیبل لگایا، آج زرداری صاحب کا چہیتا ہے اور اتنی اخلاقی جرأت سے بھی عاری کہ کوئی بھی مضمون لکھ کر اپنے جرم کا اعتراف ہی کرلے لیکن میرا مسئلہ اور موضوع اور ہے۔ سچ یہ ہے کہ ملک کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا کرنے اور پاور پراجیکٹس کو روکنے والی ن لیگ ہے اور وہی اسے کیش کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اعداد و شمار، تاریخوں کے ساتھ اخباری سرخیاں دے کر فل پیج اشتہاروں کے ذریعہ پیپلزپارٹی ثابت کرچکی کہ ملک کو تاریکیوں کے حوالہ کرنے کی ذمہ داری نوازشریف پر عائد ہوتی ہے۔ 1995-96ء پی پی پی دور میں بے نظیر بھٹو مرحومہ نے 24000 میگا واٹ بجلی کے جن منصوبوں کا آغاز کیا، اسے 1997ء میں نواز حکومت نے سبوتاژ کیا۔ وجہ؟ صرف بے نظیر سے نفرت اور انتقام۔ شہ سرخی ملاحظہ ہو۔ ’’بجلی کے معاہدے کرنے والوں کے خلاف غداری کے مقدمے درج کرائیںگے۔‘‘ نوازشریف 13-10-98 الامان الحفیظ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے اور بجلی میں سرپلس کرنے کے منصوبے بنانے والی پارٹی کو ’’غداری‘‘ اور ’’سکیورٹی رسک‘‘ کے زہریلے پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا اور یہ ’’احمق‘‘ پارٹی … پروپیگنڈے کی الف بے سے نابلد پارٹی کبھی ڈھنگ سے اپنا دفاع نہ کرسکی اور اب جب ’’بارات‘‘ سر پر کھڑی ہے یہ ’’دلہن‘‘ کے کانوں میں چھید کررہے ہیں تاکہ اسے بالیاں پہنا سکیں۔ مظلوم پیپلزپارٹی، جس کی مظلومت پر پورا تھیسس لکھا جا سکتا ہے، میں نے تو صرف ایک ہلکی سی جھلکی ہی دکھائی ہے کہ عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ 1998ء کی ایک اور سرخی۔ ’’حبکو‘‘ سے بینظیر دور کا ترمیمی معاہدہ منسوخ۔ غیر ملکی کمپنیوں سے بجلی کے تمام معاہدے منسوخ کرنے کا فیصلہ‘‘