"SBA" (space) message & send to 7575

یہ تیری عنایات ہیں اے جبرِ مسلسل…

یہ دن تھا آٹھ فروری 1978ء کا۔ کچھ روز پہلے ضیا مارشل لاء ملک کے چار شہروں میں ٹکٹکی لگا کر‘ ٹی وی کیمروں کے سامنے نیم برہنہ لوگوں کی پشت پر کوڑے لگا چکا تھا۔ اس کے باوجود جبرِ مسلسل کے اس دور کے آغاز میں آٹھ فروری کو بھارتی وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی کی ہمارے شہرِ اقتدار آمد ہوئی۔ سات فروری کو انڈین فارن منسٹر شری واجپائی نے کشمیر کے بارے میں انتہائی اشتعال انگیز بیان جاری کیا جس کے نتیجے میں واجپائی کے خلاف ہزاروں طلبہ نے بھرپور احتجاجی مارچ کیا۔ اس پُرامن احتجاج کو لیڈ کرنے والوں میں مَیں بھی شامل تھا۔ مارشل لاء انتظامیہ نے اپنے کچھ کارِ خاص کے ذریعے چند سفید پوشوں کو جلوس کے ایک کونے میں شامل کروا کر سٹوڈنٹس یونینز کے خلاف کریک ڈاؤن کا بہانہ بنانے کیلئے توڑ پھوڑ کروائی۔ پھر جمہوریت کی اس پہلی نرسری کو ایک کینگرو کورٹ کے ذریعے فیصلہ لے کر بند کر دیا گیا۔ یوں نہ صرف مڈل کلاس میں سے قومی سیاست میں آنے والوں کے راستے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو گئے بلکہ اسی مارشلائی جبروت کے نتیجے میں قبضہ مافیا‘ پراپرٹی ڈیلروں اور منی لانڈرنگ کرنے والے مختلف رنگ اور حلیے کے تاجران نے رائے عامہ کا سامنا کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے ضیا الحق کے ریفرنڈم کے ذریعے ملک کے پانچ پارلیمانوں پر قبضہ جما لیا۔ یہ وہی ریفرنڈم ہے جس کے مستقل بینی فشریز کو پہچاننے کیلئے شاعرِ عوام حبیب جالب ؔ نے ریفرنڈم کے عنوان سے یہ لافانی دُور بین تخلیق کیا۔
شہر میں ہُوکا عالم تھا؍ جن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ؍ باہر شور بہت کم تھا
کچھ با ریش سے چہرے تھے؍ اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے؍ سچائی کا چہلم تھا
ضیا کے ماورائے آئین نظامِ حکومت کے نتیجے میں قائداعظم کا پاکستان عالمی پہچان سے محروم ہو گیا۔ وطنِ عزیز ساڑھے گیارہ سال تک سرزمینِ بے آئین رہا لیکن عوامی مزاحمت کسی ہتھکنڈے سے بھی روکی نہ جا سکی۔ گزرے ہوئے ساڑھے تین سال کے عرصے میں برسرِ اقتدار لائے جانے والے اسی ضیائی دور کے تربیت یافتہ سیاست کار ہیں بلکہ کچھ قلم کے فنکار بھی۔ انہوں نے براہِ راست جو تربیت ضیا کی نگرانی میں حاصل کی اسے ایک بار پھر 25کروڑ لوگوں پر آزمایا جا رہا ہے۔ لیکن قدرت کا شاہکار دیکھیے! اس کڑی آزمائش نے لمبے عرصے بعد ملک میں پھر سے مزاحمتی ادب اور نئے شعرا پیدا کر دیے‘ جن میں سب سے زیادہ پشتو زبان میں انقلابی شاعری اور مزاحمتی میوزک تخلیق ہوا۔ پشتو کے بعد پنجابی‘ سرائیکی اور اُردو میں باکمال نئے شاعروں نے صحیح معنوں میں نئی نسل کیلئے کمال کرکے رکھ دیا۔ یہ نئے مزاحمتی لٹریچر آج نئی نئی ٹیکنالوجیز اور نئی آئی ٹی دریافتوں کی وجہ سے ہوا کے دوش پر ہر گھر میں جا پہنچے ہیں۔ پشتو زبان میں وایا‘ مُرشد‘ تینوں چُکّے مولا غازی‘ نتھ دا کوکا‘ مُڑ وے خاناں تیڈھی لوڑ پے گئی‘ جب بات کوئی بن نہ سکی ہیر پھیر سے‘ چند ایسی مثالیں ہیں جنہیں بے شمار سائٹس پر علیحدہ علیحدہ‘ ملین کے حساب سے عام و خاص لوگوں نے دیکھا۔ اپنی دِل پسند شاعری کو شیئر کیا اور مزاحمتی ادب سے اپنے ارادوں میں مضبوط اور ساتھ محظوظ بھی ہو رہے ہیں۔ لطف اٹھانے کا بہت سا مضمون فارم 47رجیم کے کرتا دھرتا ہر روز عوام کی سہولت کیلئے عام کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پہ سپیکر قومی اسمبلی کہتے پھڑے گئے کہ امریکی نمائندگان نے حالیہ دورے میں عمران خان کا ذکر ہی نہیں کیا۔ بدھ کے روز مڈ نائٹ ایک بج کر 15منٹ پر Rep. Jack Bergmanنے اپنے ٹویٹر(ایکس) اکاؤنٹ پر اس بیانیے کی دھجیاں بکھیر ڈالیں۔ موصوف مسٹر برگ مین لکھتے ہیں:
After my Pakistan visit, engaging with leaders & communities there & in the US, I reaffirm my call for imran khan's release.۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم ہو سکا کہ Rep jack Bergmanنے امریکی سفارتخانے کے ذریعے کن لفظوں میں کونسا ڈوزیئر اسلام آباد سے امریکہ بھجوایا ہے‘ لیکن برگمین نے سوشل میڈیا پیغام کے ذریعے جو پبلک پوزیشن لی ہے اُسکا سادہ ترجمہ یہ ہے: میرے دورۂ پاکستان کے بعد وہاں اور امریکہ میں لیڈروں اور کمیونٹیز کیساتھ انگیج کرنے کے بعد میں اپنی کال پھر دہرانا چاہتا ہوں جو یہ ہے‘ عمران خان کو رہا کیا جائے۔ اس سے آگے برگمین لکھتے ہیں پاک امریکہ مضبوط پارٹنر شپ صرف مشترکہ اخلاقیات پر مضبوط ہو سکتی ہے‘ جو جمہوریت‘ انسانی حقوق اور معاشی ترقی پر مبنی ہیں۔ برگمین نے ٹویٹ کے آخر میں فری عمران خان کا ہیش ٹیگ بھی شامل کر دیا۔
دوسری جانب ہمارے بقلم خود حکمران خاندان کے ہرکارے نجانے کس انجانے خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ ان دنوں وہ ہر روز اقتدار کی بخششیں کرنے والوں کو وفاداری کی یقین دہانی کرانا نہیں بھول رہے۔ دوسری جانب موجودہ نظام کے ہاتھوں عام آدمی شدید فریب دہی اور اذیت کا شکار ہے۔ بات لٹریچر کی ہو رہی تھی اس لیے شیخ سعدی شیرازی کا یہ جملہ بیچ میں آگیا: ''روئے زمین پر اکثریت میں ایسے لوگ ہیں جو دکھ‘ تکلیف‘ اذیت‘ فریب اور دھوکا تو انسانوں کو دیتے ہیں مگر معافی اللہ سے مانگتے ہیں‘‘۔ ہمارے فکاحیہ شاعر انور مسعود صاحب سے منسوب یہ رمضان پیغام بھی موجودہ طرزِ حکمرانی کی حسب حال سرجری پر مبنی ہے: ''رمضان میں جو کچھ بنتا ہے لوگ مزے سے کھاتے ہیں۔ پاکستان بھی رمضان میں بنا تھا‘‘۔ اب تو وہ بھی ادبِ سرکار کہلاتا ہے جسے سن کر ساری دنیاؤں کے ممالک بِدک جائیں۔ جو اِن الفاظ میں ہے کہ ہماری سرکاریات کی اخلاقیات کی عرقیات کہتی ہے ''وہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں‘‘۔ کسانوں کے ساتھ تسلسل سے دوسرے سال جو کچھ ہو رہا ہے اس پہ دو جملے سوشل میڈیائی ادبیات کے کمالات کہے جا سکتے ہیں۔ پہلا جملہ ہے! پاکستانی عوام آٹے کی قطاروں میں جبکہ پاکستانی حکمران قیمتی گاڑیوں کی قطاروں میں پائے جاتے ہیں۔ دوسرا جملہ کسان دشمن ذہنیت کو کھیت میں لٹا کر سرجری کرنے جیسا ہے۔ پاکستان گندم پیدا کرنے والا دنیا کا ساتواں اور لائنوں میں عوام کو کھڑا کرکے آٹا تقسیم کرنے والا پہلا بڑا ملک بن گیا ۔
عہد جبرِ مسلسل نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں انکشاف کیا: پنجاب میں پانچ ہزار سے زائد سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کی فردِ جرم لگی ہے جبکہ رپورٹ شدہ نمبرز اس سے زیادہ ہیں۔ یہ سارے دہشت گرد خالی ہاتھ تھے جنہوں نے زبان چلا کر دفعہ 144 کی توہین کر رکھی ہے۔ مجھے نہیں یاد کبھی پاکستان میں اصل و حشت گروں اور مسلح دہشت گردوں کی اتنی بڑی تعداد پابہ زنجیر ہوئی ہو۔ ڈاکٹر علی ساحر کہتے ہیں:
سرور ہے حیات میں نہ رنج سے فراغتیں
متاعِ جاں کے بھیس میں ہوئی نصیب وحشتیں
یہ کون سی زمین ہے! یہ کون سا مقام ہے؟
نہ کرب کا وجود ہے نہ درد کی کراہتیں
سیاہ فاموں کے روشن دماغ سکالر پاسٹر مارٹن نیمولر نے کہا تھا: نا انصافی اور غاصبانہ نظام کے رُوبرو خاموشی اور ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنا‘ کچھ لوگوں کیلئے نہیں قوموں کیلئے تباہ کُن ثابت ہوتا ہے۔ ہماری نئی نسل اور اس کے عوامی مورچے میں کھڑے شاعروں اور فنکاروں کا شکریہ۔ جو زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں:
یہ تیری عنایات ہیں اے جبرِ مسلسل
اس نسل کو جو خوف سے بے خوف کیا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں