"IGC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی کو وزیراعظم بنانے کی تیاریاں

بھارت میں آئندہ وزیراعظم کے لیے دعویداری کی دوڑ حکمران کانگریس اور اپوزیشن دونوں کے لیے گلے کی ہڈی بنتی جا رہی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق کسی پارٹی کو واضح اکثریت ملنے کی توقع نہیں‘ اس لیے کانگریس شاید ہی راہول گاندھی کو اس منصب کی دوڑ میں شامل کرے۔ دوسری جانب مغربی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی اپنے دامن سے مسلمانوں کے خون کا داغ دھونے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں تاکہ اندرونِ ملک اتحادیوں کے علاوہ سفارتی حلقوں اور بیرونی دنیا میں انہیں وزیر اعظم کے طور پر قبولیت مل سکے۔ حال ہی میں گجرات کے مسلسل تیسری بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد مودی اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صف اول کے رہنمائوں میں شامل ہوگئے ہیں اور اب انہیں اٹل بہاری واجپائی اور لال کشن ایڈوانی کا سیاسی وارث تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ ان کے حامی آج کل غیر ملکی مبصرین‘ سفیروں اور سرمایہ کاروں کو گجرات مدعو کر کے صوبہ کی خوشحالی اور ترقی دکھا کر اس کا سہرا مودی کی انتظامی صلاحیت کے سر باندھ رہے ہیں‘ مگر ان کے مداحوں کو اس وقت سخت ہزیمت اٹھانا پڑی جب امریکہ کے شہر فلاڈلفیا میں واقع معروف اقتصادی تعلیمی ادارہ وارٹن بزنس سکول نے مودی کو بھیجا گیا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ سکول کی سالانہ اقتصادی کانفرنس سے خطاب کرنے والے تھے۔یہ فیصلہ ایسے وقت پر آیا جب مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانے کی خاطر ملکی ترقی کے لیے بڑی ڈھٹائی سے ’گجرات ماڈل‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔امریکی یونیورسٹی کے اس فیصلے نے ثابت کردیا کہ مودی مغربی ملکوں میں اب بھی انسانیت کے ایک مجرم ہیں‘ انہیں 2002ء کے نسل کش اور خو نریز فسادات کے لیے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ جنوبی ایشیا کے لیے امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ بلیک ویل نے ایک ہندوستانی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ مودی کی حد تک امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی یا نرمی نہیں آئی۔ ان کا یہ بیان یورپی یونین اور برطانیہ کے فیصلوں کے پس منظر میں آیا جنہوں نے ا پنے اقتصادی مفادات کی خاطر مودی کو ویزا نہ دینے کی پالیسی پر نظر ثانی کا اعلان کیا ہے۔ اس خبر نے بی جے پی کے مودی نواز لیڈروں کے اوسان خطا کردیئے اور انہوں نے اسے بھارت کے وقار سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی۔ پارٹی کی خاتون ترجمان نرملا ٹی وی مباحثہ میں مودی کے ناقدین پر برس پڑیں اور کہا کہ مودی نے ان فسادات پر ’افسوس‘ کا اظہار کیا ہے لیکن ان کے مخالفین اسے ماننے کو تیار نہیں۔ شیو سینا کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سریش پربھو کا ردعمل بھی معقولیت سے خالی رہا جنہیں اس کانفرنس سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ انہوں نے وارٹن سکول کے فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے کانفر نس سے خطاب نہ کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مودی ایک ریاست کے منتخب لیڈر ہیں اور وہاں کے عوام نے انہیں تین بار منتخب کیا ہے۔ ان کی یہ دلیل آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کیونکہ ہٹلر بھی جرمنی کا منتخب سربراہ تھا۔ کیا اس سے ہٹلرکے انسانیت کے خلاف جرائم کم ہوجائیں گے؟ دوسرے یہ کہ ہندوستان میں کس طرح کے انتخابات ہوتے ہیں‘ وہ سب کو معلوم ہے ۔ یہاں تک کہ پریس کونسل آف انڈیا کے چیئر مین اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو اس پر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں۔ ان کا اشارہ ملک کے انتخابی نظام کی طرف تھا جو برطانیہ سے مستعار لیا گیا جو گھڑ دوڑ کے مترادف ہے جس میں فتح کے لیے اپنے حریف سے محض ایک ووٹ زیادہ لینا کافی ہوتا ہے ۔ اس ناقص نظام کے باوجود مودی اپنی ریاست میں 45فیصد ووٹ بھی لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے بلکہ اس مرتبہ انہیں پہلے سے بھی دو فیصد کم ووٹ ملے۔ لہٰذا جب وہ اپنی ریاست کی اکثریتی آبادی کے رہنما نہیں ہیں تو پورے ملک کی دعویداری کیسے کرسکتے ہیں؟ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنا قد اونچا کر نے کی کوشش سے پوری دنیا کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ حقوق انسانی کے رہنما اور سماجی کارکن پروفیسر جے ایس بندوق والا کے بقول گجراتیوں کی اکثریت کی یہ سوچ ہے کہ چونکہ مودی نے مسلمانوں کو سبق سکھایا ہے اس لیے وہ ان کے لیے ( ہزار خرابیوں کے باوجود) قابل قبول ہے ۔ یہی سوچ قومی سطح پر بھی کارفرما نظر آتی ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ایک بڑے حلقے میں ہوتا ہے‘ ورنہ ایک شخص جو عالمی برادری میں عملاً اچھوت بنا ہوا ہے اسے ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کرنے کی خواہش نہ صرف خود کشی کے مترادف ہے بلکہ اس سے ملک کے وقار کو کتنا نقصان پہنچے گا‘ اس کا اندازہ اس ’اذیت پسند ‘ طبقہ کو نہیں ہے ۔ اپنی راست گوئی کے لیے مشہور کانگریسی رہنما اور سابق مرکزی وزیر منی شنکر ائیر نے مودی پر زبردست حملہ کرتے ہوئے اس کا موازنہ جرمنی کے آمر ہٹلر سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی منافرت اور فرقہ واریت پر مبنی سیاست ملک کی وحد ت و یکجہتی کے لیے خطر ہ ہے ۔مودی کو مسلمانوں کے ووٹ ملنے کے دعوے کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیر نے سوال کیا : اس میں کونسی غیر معمولی بات ہے ؟ یہودیوں نے بھی ہٹلر کو ووٹ دیا تھا اس کے باوجود اس نے انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی 2002ء کے خونریز فسادات کے جرم سے بچ نہیں سکتے جن میں ہزاروں بے گناہ افراد جن میں بچے اور عورتیں شامل تھیں، مارے گئے۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے کہ جن مغربی ملکوں میں بھارتی ہندو روزگار کی غرض سے آباد ہیں وہاں ان کی بڑی اکثریت آر ایس ایس اور بی جے پی کی حامی ہے۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ’اعلیٰ ذاتوں‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وارٹن بزنس سکول نے اس سے قبل ورون گاندھی کو بھی بلایا تھا جس سے ان کی سوچ کا پتہ چلتا ہے۔ ورون گاندھی نے مسلمانوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگزیز تقریر کی تھی۔ اس بار اسی ذہنیت کے ہندوستانی طلبا پر مشتمل منتظمہ کمیٹی نے جو مودی کی قائدانہ صلاحیت‘ ان کی ساکھ اور حکمرانی سے متا ثر تھی‘ انہیں دعوت دی۔ چونکہ مودی کو امریکی ویزا نہیں مل سکتا اس لیے چور دروازہ سے انہیں ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ خطاب کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کانفرنس میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مونٹک سنگھ آہلوالیہ کے علاوہ مرکزی وزیر مملکت بر ائے انفارمیشن‘ ٹیکنالوجی اینڈ کمیونیکیشن ملند دیورا، اداکارہ شبانہ اعظمی، ان کے شوہر جاوید اختر اور گجرات میں اڈنی گروپ آف کمپنیز کے سربراہ گوتم اڈنی کو مدعو کیا گیا ۔ وارٹن سکول کے فیصلہ پر امریکہ میں آر ایس ایس کے حامیوں کو بڑا غصہ آیا جنہوں نے اس کے جواب میں مودی کی ویڈیو کانفرنس سے خطاب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر مودی نے اپنے ’مخصوص سیکولرازم‘ کی یہ تعریف پیش کی کہ ان کے نزدیک سب سے پہلے ملک ( انڈیا فرسٹ ) ہوتا ہے۔ مودی سیکولرازم کی کچھ بھی تاویلیں پیش کریں لیکن وہ جب تک فسادات کے مظلومین کے ساتھ انصاف نہیں کر تے‘ اس وقت تک ان کا چہرہ داغدار رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں