بھارت کے زیرانتظام جموں و کشمیر کے دور افتادہ علاقہ لداخ میں چینی فوج کی مبینہ دراندازی سے پیداشدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت کئی متبادل تجاویز پر غور کر رہی ہے۔حکومتی حلقے اور اپوزیشن اس معاملے کو سفارتی کاوشوں سے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ یہ ردعمل اس روش کے بالکل برعکس ہے جو بھارتی سیاستدان اور فوجی حکام ایسے معاملات میں پاکستان، بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ اپناتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف آگ اگلنے والی ہندو قوم پرست مشینری اس معاملے پر دم سادھے ہوئے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چینی فوج کی چالیس جوانوں کی ایک ٹکڑی نے بھارتی کنٹرول والے علاقہ میں انیس کلومیٹر اندردیپ سانگ وادی میں پڑائو ڈالا ہوا ہے۔ چینی حکام نے دراندازی کا الزام مسترد کردیا ہے کیونکہ گزشتہ چالیس سال سے جاری مذاکرات کے باوجوددونوں ملک ابھی تک سرحدوں کا تعین نہیں کر سکے۔ وقتاً فوقتاً دونوں ملکوں کی فوجیں پٹرولنگ کے دوران ایک دوسرے کے کنٹرول والے علاقوں میں گُھس جاتی ہیں‘ مگر حالیہ واقعہ کی نوعیت اس لیے منفرد ہے کہ چینی فوجیوں کے کیمپ لگانے کا انداز بتاتا ہے کہ انہیں واپسی کی جلدی نہیں ہے۔ بھارت اس خطے کے علاقہ دولت بیگ میں واقع ایک عارضی ہوائی پٹی کو فضائیہ کے لیے مستقل مستقر بنانے کا ارادہ رکھتاہے اور اس مقصد کے لیے مال و اسباب کی منتقلی کا کام بھی شروع ہو گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ چین کی دراندازی کا مقصدبھارت کو اس علاقے میں کوئی مستقل اڈہ بنانے کے ارادے سے باز رکھنا ہے۔چندماہ قبل بھارتی کابینہ کی سلامتی سے متعلق امورکی کمیٹی نے چین کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پانچ سو ارب روپے کی منظوری دی جس کے تحت اس خطے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ایک نئی فوجی اسٹرائک کور کا قیام شامل ہے۔ گزشتہ سال بھارت‘ شمالی صوبہ ہماچل پردیش کو لداخ سے ایک ٹنل کے ذریع جوڑنے کے لیے ایک خطیر رقم بھی مختص کر چکا ہے۔ ان اقدامات کے بعد چین کا رد عمل لازمی تھا۔ بھارت کے ایک معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی کے بقول بھارت‘ چین سرحدی تنازع ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں مگر بھارتی سفارت کاری نے گزشتہ تین دہائیوں سے فریب اور دھوکہ دہی کے ذریعے اُسے بڑی کامیابی سے دنیا کے سامنے پیش کررکھا ہے۔ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خود کیا تھا۔ لیکن اب دستاویزی ثبوتوں اور تاریخی حقائق سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ یہ تنازع دنیا کے سامنے تاریخ کو توڑ مروڑکرپیش کیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں جو حقائق سامنے آئے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بھارتی رہنمائوں اور سفارت کاروں نے 1959ء میں تاریخی حقائق کو میڈیا اورتحقیقی اداروں سے دور رکھا ‘ جس کے انتہائی نقصان دہ اور دوررس مضمرات رونما ہوئے۔ حد یہ ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسند رہنما بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے چین‘ پاکستان سرحدی معاہدے پر انگلیاں اٹھاتے رہے۔جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے تو ایک بار پاکستان پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ اس نے کشمیر کے اُس حصے کو چین کو تحفے میں د ے دیا ہے جو چین کے قبضے میں ہے۔بھارت کے سیاسی لیڈراکثر اس الزام کو دہراتے رہتے ہیں اور یہاں کا میڈیا ان بیانات کو آسمانی فرمان سمجھ کرقبول کرلیتا ہے۔ 14 اگست1947ء کو قائم ریاست جموں و کشمیر کا رقبہ 82258 مربع میل تھا۔ البتہ 1961ء کی مردم شماری میں ریاست کے رقبہ کو بڑھا کر 86024 مربع میل دکھایا گیا۔غالباََ بھارت نے حقیقی سرحدی لائن کے متعلق چین کے ساتھ اپنے کسی ممکنہ تنازع کے پیش نظر ایسا کیا ہوگا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر کے رقبہ میں 5000مربع میل کا اضافہ 1960ء میں پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ کراچی میں تاریخی سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کرکے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے وطن لوٹنے کے فوراََ بعد کیا۔ ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ مری کے مرغزاروں میں ایک غیررسمی بات چیت کے دوران وزیر اعظم نہرو نے معلوم کیا کہ کیا پاکستان چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے سلسلے میں کسی طرح کی بات چیت کررہا ہے۔ جب ایوب خان نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے اس کے نقشے کوایک نظر دیکھنے کی درخواست کی۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ یہ ایک بالکل ہی غیررسمی ملاقات تھی۔ ایوب خان نقشے کی ایک نقل بھیجنے کے لیے راضی ہوگئے لیکن پنڈت نہرو نے دہلی لوٹتے ہی اس پر سفارتی ہنگامہ مچا دیا۔ انہوں نے ایک سفارتی نوٹس جاری کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ آفیشیل چینل کے ذریعے مذکورہ نقشہ بھارت کے حوالے کرے ۔ نہرونے اسے پاکستان اور چین کی تیار کردہ سازش تک قرار دے دیا۔ قدرت اللہ شہاب کی تقریباََ انہیںباتوں کی تصدیق کرتے ہوئے مشہور دانشور اور آئینی امور کے ماہر اے جی نورانی نے اپنی تازہ ترین کتابIndia-China Boundry Problem-1846-1947: History and Diplomacy میں لکھا ہے کہ وزارت خارجہ نے کس طرح پرانے نقشوں کو جلا دیا اور یک طرفہ طور پر ایک نیا موقف اپنایا۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو کی طرف سے سترہ پیراگراف پر مشتمل ایک میمورنڈم جاری کیا گیا جس میں تمام پرانے نقشوں کو واپس لینے کی واضح ہدایت دی گئی تھی۔ دستاویزی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جو نئے نقشے تیار کئے گئے ان میں شمالی اورشمال مشرقی سرحدوں کوکسی لائن کے حوالے کے بغیر دکھایا گیا۔ پنڈت نہرو نے ان نقشوں کوبیرونی ملکوں میں تمام سفارت خانوں کو بھیجنے کا بھی حکم دیا اور مشورہ دیا کہ انہیں عوامی طور پر شائع کیا جائے اور اسکولوں اور کالجوں میں استعمال کیا جائے۔ انہوں نے حکام کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ان سرحدوں کو ٹھوس اور حتمی سمجھا جائے اورکسی کو ان پر بحث کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ: ’’کچھ معمولی نکات پر بات چیت ہوسکتی ہے لیکن ہم اسے اپنی طرف سے نہیں اٹھائیں گے۔ یہ ضروری ہے کہ پورے سرحدی علاقوں پر چیک پوسٹ کا سسٹم پھیلا دیا جائے خاص طور پرا ن علاقوں میں جنہیں متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے‘‘۔وزیر اعظم نہرو کے اس ہدایت نامہ نے سرحد کے متعلق بات چیت کے دروازے ہی بند کردیے۔ مغربی(کشمیر) اور وسطی سیکٹر(اترپردیش) میں ’غیر واضح سرحد‘ کا جو نشان 1948ء اور 1950ء کے سرکاری نقشے میں تھا اسے 1954ء کے نئے نقشے میں ختم کردیا گیا۔مزید برآں حکومت ہند نے یہ تاثر بھی پیش کیا ‘ جسے کشمیری لیڈروں نے بھی بڑی حد تسلیم کرلیا ‘کہ پاکستان نے کچھ علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے۔ تاہم دستاویزی ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔دراصل 3مارچ1963ء کو پاک‘ چین معاہدہ کے تحت چین نے ا پنا 750مربع میل کا علاقہ پاکستان کے حوالے کیا تھا۔یونیورسٹی آف کلکتہ اینڈ نارتھ بردوان کے ڈاکٹر بی این گوسوامی کا بھی یہی خیال ہے کہ ’’محدود ہی سہی لیکن عوام کا ایک قابل ذکر طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ مناسب اور درست تھا ‘‘۔ بیرون ملک کے غیر جانبدار مبصرین اوراس موضوع کے ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ بھارت کے اس دعوے میں کوئی زیادہ زور نہیں ہے کہ پاکستان نے اپنا علاقہ چین کے حوالے کردیا ہے۔ مسٹر نورانی ایک منقسم کابینہ‘ غیر ذمہ دار اپوزیشن ‘لاعلم پریس اور غیر مستحکم پارلیمنٹ کو سرحد کے مسئلہ کو پیچیدہ بنانے کے لیے ذمہ دار گردانتے ہیں۔وہ مزید انکشاف کرتے ہیں کہ وزارت خارجہ میں شعبہ تاریخ کے ڈائریکٹر کے زکریا نے 1953ء میں جو جامع اور معروضی مطالعہ پیش کیا تھااس پر اب تک رازداری کا پردہ پڑا ہوا ہے۔مسٹر نورانی کہتے ہیں کہ تاریخی حقائق اور سرحدی تنازع سے متعلق بھارتی پالیسی میں کوئی میل دکھائی نہیں دیتااور سفارت کاری نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنادیا۔چینی وزیر اعظم چو این لائی بھی 1960ء میں نئی دہلی کے دورہ کے دوران مسئلے کے کسی حل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے جب کہ چینی رہنما ڈینگ زیائو پینگ بھی چین کے دورے پر گئے اس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی سے سرحدی تنازع کو حل کرنے کی بات کہی تھی۔‘‘مسٹر نورانی کا خیال ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان گہرے ہوتے اختلافات کے سفارتی نقصانات لامحدود ہیں بالخصوص ایسی صورت حال میں جب کہ بھارت کے اپنے پڑوسیوں اور خاص طور پر پاکستا ن کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔