"IGC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی کے خلاف کارروائی یا خانہ پُری

دو سال کی عرق ریزی اور مسلم اور سیکولر تنظیموں کے دبائو کے بعد بالآخر بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی نے مغربی ریاست مہاراشٹرکے مالیگائوں شہر کے مسلم اکثریتی علاقے میں 2006ء میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث چار ہندو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی۔اس سے قبل پولیس کی انسداد دہشت گردی یونٹ نے نو مقامی مسلمانوں کو ہی ملزم گردان کران سے اقبال جرم بھی کروا لیا تھا۔شب برأت کے موقع پر ہونے والے ان دھماکوں میں 37افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ چاہے سمجھوتہ ایکسپریس ہو یا حیدرآباد کی مکہ مسجد پر دہشت گردانہ حملہ، پولیس نے اپنی تفتیش کا دائرہ ہمیشہ مسلمانوں تک ہی محدود رکھا۔یہ تو بھلا ہو ممبئی پولیس کے ایک افسر ہیمنت کرکرے کا‘ جس نے تفتیش کا رُخ موڑ کر ہندو دہشت گردی کو طشت ازبام کردیا۔نومبر 2008ء میں ممبئی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں کرکرے بھی جاں بحق ہوئے، جس کے بعد ہندو تنظیموں کے خلاف تفتیش کا کام بھی سست پڑ گیا‘ لیکن جب کچھ عرصے سے دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ماخوذ مسلم نوجوان ثبوت کی عدم موجودگی اور ناقص تفتیش کے نتیجے میں عدالتوں سے رہا ہونا شروع ہوئے، تو مسلم تنظیموں اور بااثر سیکولر طبقہ کے دبائو کے بعد حکومت نے اصل ملزمان کو گرفت میں لانے کیلئے تفتیش کے دروازے دوبارہ کھولے‘ مگر افسوس کہ تب تک‘ جن بے قصور افراد کوملزم ٹھہرایا گیا تھا‘ اپنی زندگی کے سات سے لیکر چودہ سال تک جیلوں کی نذر کر چکے تھے۔ وسطی بھارت کے شہر اندور میں ایک مسلم نوجوان پچھلے سات سالوں سے جیل میں بند ہے۔ اس کے خلاف الزام ہے کہ وہ ممنوعہ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی) کا رکن ہے۔ حیرت کی انتہا ہے کہ اس سلسلے میں پولیس نے جو دلائل دیے ہیں‘ ان میں انسپکٹر شیواجی تامبرے کا ایک حلفیہ بیان ہے کہ اس نے مذکورہ شخص کے گھر پر چھاپہ کے دوران ایک دستاویز بر آمد کی جس کے اوپر اردو میں لال روشنائی سے ایک شعر درج ہے۔ جو ان کے بقول کشت و خون اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا موجب ہے۔ یہ شعر ہے ؎ موج ِخوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا انسپکٹر تامبرے شعر کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ شعر ہندوئوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔ ایک حیرت انگیز بیان حیدرآبادکے سعیدآباد تھانے کے انسپکٹر پی دیویندر کا ہے‘ جن کا اصرار ہے کہ سیمی اتنی خطرناک تنظیم ہے کہ کئی کالعدم تنظیمیں بھی اسی کے تحت کام کرتی ہیں۔ سیمی کے ایک اور مبینہ کارکن شبیر احمد مسیح اللہ (مالیگاوں) اورنفیس احمد انصاری (ممبئی) کے پاس سے نہ تو کوئی ہتھیار اور نہ ہی کوئی بم یا دھماکہ خیز مادہ برآمد ہوا تھا ۔ پولیس کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے جو قابل اعتراض مواد برآمد ہوا وہ سرورق کے بغیر اردو کا ایک رسالہ ہے۔آپ یہ جان کر شاید حیران رہ جائیں کہ یہ رسالہ سیمی کا ترجمان’’اسلامک موومنٹ‘‘ یا کسی دوسری انتہاپسند تنظیم کا رسالہ نہیں ہے بلکہ دہلی کی سرکاری ا ردو اکادمی کا ماہنامہ ’’امنگ‘‘ ہے‘ جسے اکادمی بچوں کے لیے شائع کرتی ہے۔ بہرحال ان معاملوں نے پولیس کے غیر جانبدار اور غیر متعصب ادارہ ہونے اور عدل و انصاف کے عمل کی انتہائی سست روی پر پھر ایک بار بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم جامعہ ٹیچرز سالیڈیرٹی ایسوسی ایشن نے گزشتہ سال 2008ء میں ہونے والے جے پور بم دھماکوں کے مقدمہ میں باعزت بری کئے گئے گیارہ مسلم نوجوانوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ۔ اس میں بتایا گیا کہ ستمبر 2001 ء میں مرکزی حکومت نے سیمی پر جب غیر قانونی سرگرمیوں کے قا نون کے تحت پابندی عائد کردی تو پولیس اور تفتیشی اداروں کو سیمی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو بغیر کسی عذر اور قانون کے جب چاہے گرفتار کرنے ، انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور انہیں دہشت گردی کے واقعات میں ماخوذ کرنے کا بہانہ مل گیا ہے ۔ وہ یہ کارروائیاں غیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کے قانون Unlawful Activities Prevention Act (UAPA 1967) کی شقوں 10,3 اور 13 کا سہارا لے کر کرتی ہیں۔ جامعہ کی اس ٹیم نے جب ایک بری نوجوان امان اللہ سے بات کی تو وہ ساڑھے تین سال کی قید کے دوران خود پر گزرے مصائب کی داستان سناتے وقت کئی مرتبہ رو پڑا۔ ٹیم کے مطابق وہ اندر سے با لکل ٹوٹ چکا ہے۔ ایک دوسرا نوجوان منور بھی پولیس کی اذیتوں کے باعث جزوی طور پر فالج کا شکار ہوچکا ہے اور اس کا ذہنی توازن بھی صحیح نہیں ہے ۔ یہ مظلوم نوجوان ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانے والوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان میں سے ایک آئی جی اے پونوسامی ہے جو سردست جئے پور جیل میں ایک فرضی انکائونٹر کے معاملہ میں بند ہے۔ دوسرا افسر ڈی آئی جی اے کے جین ہے وہ بھی اس انکائونٹر معاملہ میں مطلوب ہے۔ اسی طرح جیل سپرٹنڈنٹ پریتا بھارگوا بھی معطل ہے جس نے قتل کے مجرم کو عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیرول پر رہا کیا تھا۔ رپورٹ میں تمام خاطی افسران کی فہرست دی گئی‘ انکی ’حرکتوں‘ کا بھی جائزہ پیش کیا گیا اور سیمی پر پابندی پر بھی سخت نکتہ چینی کی گئی ہے ۔ میڈیا کے رول کو بھی سخت نشانہ بناتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نے حقائق کو جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی اور پولیس کے موقف کو من و عن پیش کرکے ان بے قصورنوجوانوںکا مستقبل خراب کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کانگریس کے زیرِ قیادت یونائٹیڈ پروگریسیو الائنس ( یو پی اے ) اس نعرہ کے ساتھ 2004ء میں برسر اقتدار آیا تھا کہ و ہ انسدادِ دہشت گردی قانون پوٹا کو ختم کر دے گا مگر کمال ہشیاری سے پوٹا قانون کی متعدد سنگین شقیں ِغیر قانونی سرگرمیوں کے تدارک کے قانون میں شامل کردی گئیں ۔ ایک سیکولر حکومت سے امید تھی کہ اس ترمیم شدہ قانون کا مسلمانوں اور کمزور طبقات کے خلاف بیجا اور غلط استعمال نہیں ہوگا لیکن یہ امید جاتی رہی ۔سیاسی تبدیلی کے باوجود ’بیجا گرفتاریوں‘ کا سلسلہ نہیں تھما ۔ آل انڈیا ملّی کونسل کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر منظور عالم کے مطابق’ اس قانون کے ذریعہ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں اورمسلم غلبہ والے علاقوں کو نشانہ بنا نے کا سلسلہ شروع ہوا ۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلم نوجوانوںکو منصوبہ بندی کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند‘ زیر سماعت مقدمات والے یا جنکے مقدمے ابھی شروع نہیں ہوئے ہیں ، قیدیوں کی تعداد میں مسلم قیدیوں کا تناسب 5.22 فی صد تھا۔ سزا یافتہ قیدیوں میں 5.18 فی صد مسلمان ہیں اور بغیر مقدمہ چلائے قیدیوں میں ان کی تعداد 3.30 فی صد ہے جبکہ دیگر قیدیوں میں یہ تعداد 9.49 فی صد ہے۔ ہندوستانی جیلوں میں مسلمانوں کی اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ موجودگی کی وجہ ان کی ابتر سماجی اور اقتصادی حالت کے علاوہ ریاست کے تمام محکموں میں موجود مسلم مخالف تعصب بھی ہے۔ دہلی کی تہاڑ جیل میں پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کا تناسب 34 فیصد تھا جبکہ قومی راجدھانی میں وہ آبادی کا گیارہ فیصد ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں