"IGC" (space) message & send to 7575

اترا کھنڈ تباہی اور کشمیر کی امرناتھ یاترا

شمالی بھارت کے صوبے اُترا کھنڈ میں طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہی جنوبی ایشیاکے پورے ہمالیائی اور قراقرم پہاڑی سلسلے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ماہرین متفق ہیں کہ یہ خوفناک تباہی ماحولیات کے اعتبار سے اس نازک ترین خطے میں فطرت کے ساتھ انسان کی چھیڑچھاڑ کا نتیجہ ہے۔پہاڑی سلسلوں کے بیچ چھوٹی چھوٹی وادیوں پر مشتمل اس علاقہ میں ہندئووں کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ ،کیدارناتھ، گنگوتری اور یمنوتری ہیں ۔ان مقامات کی مذہبی یاترا کو صوبہ کی سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑ کر ان وادیوں میں ہزاروں کی تعداد میں کنکریٹ کے جنگل تعمیر کیے گئے ،جن کی وجہ سے ان علاقوں کا ماحولیاتی توازن ہی بگڑ گیا۔ کشمیر کے جنوب میں امرناتھ یاترا کا علاقہ بھی کچھ برسوں سے ایسی ہی تباہی کا منتظر ہے۔ ایک دہائی قبل اس میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے لیکن اب لاکھوں کی تعداد میں لوگ یاترا پر آتے ہیں اور سال بہ سال اْن کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہاہے۔حالانکہ 1996ء میں اتراکھنڈ کی طرح کے ہی ایک حادثہ میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے اس علاقہ میں 200 سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی ۔ اس حادثے کی انکوائری کے لیے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ‘ ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ‘ ایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بزعم خود ہندئووں کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر حکومت کی کوششو ں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب 2005ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنرریٹائرڈ جنرل ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافہ کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندئووں کو امرناتھ کی یاترا کے لیے راغب کرنا شروع کردیا۔ اتراکھنڈ کے چار دھام کے طرح امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں، تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میں لاکھوں یاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لیے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی پچھلے سال اس علاقہ میں یاتریوں کیلئے ایک ٹریک بنانے کا حکم دیا۔ یہی عدالت دیگر کیسوں میں ماحولیات کو بچانے کیلئے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔ سابق گورنر سنہا تو ہر تقریب میں برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس علاقہ میں ہندئووں کیلئے مخصوص ’شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور اسی لیے انہوں نے جنگل زمین کا ایک وسیع قطع امرناتھ شرائن بورڈ کے سپرد کیا تھا۔ ان کے اس فیصلہ نے 2008 میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی تھی۔ امرناتھ مندر بورڈ کے خلاف وادی کے عوام میں جو غصہ کی لہر دوڑ گئی، اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا، کیونکہ 1860ء سے ہی ،جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا ‘ مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردارادا کرتے رہے ہیں ،لیکن گورنر سنہا صاحب نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلما ن چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالانکہ پچھلے تقریباََ ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندئووں کے اس انتہائی مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور شری امرناتھ شرائن بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ارون کمار نے خچر والوںاور چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر روزی کمانے والوںسے ان کا یہ حق بھی چھین لیا اور جس زمین کے وہ مالک تھے ان سے ’’جزیہ‘‘ وصول کرنا شروع کردیا۔انتہا تو یہ ہوئی کہ باہر کے ’’ لنگروالوں‘‘ کو بلایا گیا ۔اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1995 ء میں جب امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں حرکت الانصار نامی مسلمان تنظیم کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے 12دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پرخاصا برا اثر پڑ رہا ہے۔2005 ء میں مشہور ماہرِ ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرینِ ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیاکہ اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ماحولیات او رگلیشیئر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا،لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے بھارتی حکومت آج زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ حکومت بھارت نے حالانکہ ملک کی بیشترندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیئرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں لیکن وادیِ کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سندھ گلیشیئر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نظر نہیں آتی ہے۔ نتیش سین گپتا کمیٹی نے 1996 ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی، اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔پچھلے سال تقریباََساڑھے چھ لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی جب کہ اس سال سات لاکھ سے زائد یاتریوں کے آنے کی امید ہے اور آئندہ سال یہ تعداد دس لاکھ تک پہونچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف 3000 یاتریوں کو ٹھہرانے کی اجازت ہونی چاہیے ،مگر آج حالت یہ ہے کی پہلگام جیسی چھوٹی جگہ ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے،پر 20 سے 50ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں، جب کہ دنیا کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں ،بھارتی حکومت کو بھی چاہیے کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غور کرے ۔ نیز اس کے دورانیے کا تجزیہ کرکے اس پر بھی نظرثانی کی جائے۔ خاص کر اسے سیاست و معیشت کے ساتھ جوڑ کر حکومت اورسماج میں موجود حریص قوتوں کو استحصال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اْترا کھنڈ سانحہ سبھی حکومتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اوراگروہ اس سے پیدا شدہ خدشات کے حوالے سے اب بھی نہ جاگے تو کل کوئی بھی بڑا سانحہ پیش آسکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں