جموں و کشمیر کے کشتواڑ قصبہ میںعید کے دن ہوئے فرقہ وارانہ فسادات نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ ریاست کے جموں ڈویژن میں رہنے والے مسلمان پوری طرح فرقہ پرستوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ عید کی نماز ادا کرنے آئے دیہاتیوں پر پتھر برسائے گئے ‘ عید گاہ میں ہتھیار بند ویلج ڈیفنس کمیٹی (VDC) نے پرامن نمازیوں پر فائرنگ کی ‘ جس سے کئی افراد زخمی اور ہلاک ہوگئے۔ بلوائیوں نے وزیر مملکت برائے داخلہ سجاد احمد کچلو کے گیسٹ ہائوس کوبھی تہس نہس کرکے آگ کے حوالے کردیا۔ لیکن الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ایک بار پھربھارتی میڈیا اوراپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان شرپسندوں کے بجائے بے قصور مظلومین کو ہی نشانہ بنایااور انہیں خطاوار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں 1948ء میں ہوئی جنگ بندی کے بعد ریاست جموں وکشمیر کے نقشے کو تین خطوں یعنی جموں ڈویژن‘ وادی کشمیر اور لداخ میں بانٹا گیا‘جب کہ دیگر خطے گلگت۔بلتستان‘ مظفرآباد ‘ میر پور اور وادی نیلم پاکستان کے زیر انتظام چلے گئے۔بھارت اور پاکستان کے انتہائی جانکار حلقوںاوردانشوروں میں بھی یہ مفروضہ قائم ہے کہ یہ تینوں خطے مذہبی آبادی کے اعتبار سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔اکثر مصنفین اور دانش ور حضرات جموںڈویژن کو ہندو او رلداخ خطے کو بودھ اکثریتی خطہ مانتے ہیں اور اسی تناظر میںمسئلہ کشمیر کا حل بھی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ لداخ خطے میں52فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے اور پچھلے کئی لوک سبھا انتخابات میں یہاں سے مسلم امیدوار ہی کامیاب ہوتا آرہا ہے۔ان دنوں حسن خان بھارتی پارلیمنٹ میں لداخ کی نمائندگی کررہے ہیں۔یہ خطہ دو اضلاع لیہہ اور کرگل پر مشتمل ہے۔ کرگل ضلع کی آبادی بودھ اکثریتی لیہہ سے کہیں زیادہ ہے۔اس لئے جو لوگ لداخ کوبراہ راست نئی دہلی کے زیر انتظام ایک علیحدہ علاقہ بنانے کی وکالت کرتے ہیںوہ کرگل خطے کے اکثریتی عوام کے حقوق پر یقیناََ شب خون مارنے کی سازش کررہے ہیں۔ اسی طرح جموں ڈویژن بھی تین الگ خطوں پر مشتمل ہے…وادی چناب(رام بن‘ کشتواڑ اور ڈوڈہ اضلاع اور اودھم پور کا بیشتر حصہ)‘ پیر پنچال(پونچھ اور راجوری اضلاع) اورڈوگرہ دیش (جموں‘ سانبہ اور کٹھوعہ) شامل ہیں۔اس ڈویژن کے دو خطے یعنی چناب ویلی اور پیر پنچال مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ آبادی کے یہ اعداد و شمار ان دانشوروں کے منہ پر یقیناََ ایک طمانچہ ہے جو ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے یادریائے چناب کوسرحد بناکر مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے فارمولے پیش کرتے ہیں۔ پچھلے ساٹھ سالوں سے نئی دہلی میں حکمرانوں او ربعض ایجنسیوں کی یہ پوری کوشش رہی ہے کہ جموں و لداخ کے مسلم اکثریتی علاقوں کو وادی کشمیر سے حتی الامکان دور رکھا جائے۔حالانکہ وادی چناب اور پیر پنچال کے خطے سماجی ‘مذہبی ‘ لسانی ‘ ثقافتی اور تاریخی طورپر وادی کشمیر سے انتہائی قربت رکھتے ہیں ۔سلاطین کشمیر اور بعد میں مغلوں کے زمانے میں بھی یہ دونوں علاقے سری نگر کی قلمرو میںہی ہواکرتے تھے‘لیکن ایک منصوبہ بند سازش کے تحت انہیں اقتصاد ی طور پر ڈوگرہ دیش کے دست نگر رکھا گیا۔اگر آپ ریاست جموں و کشمیر کا نقشہ دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ وادی کشمیر کے ضلع بارہ مولہ اور پلوامہ کی سرحدیں جموں ڈویژن کے پونچھ ضلع سے ملحق ہیں۔مگر حقیقت میں ان دونوں علاقوں کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی دوری سینکڑوں میل(500 کلومیٹر سے بھی زیادہ) ہوجاتی ہے۔ اس دوری کو بڑھانے میں حکمرانوں کا کرداربھی کچھ کم نہیں رہا۔ 1990ء میں عسکریت پسندی کے نمودار ہونے کے بعد جب بھارتی فوج نے سرحدوں کی کمان سنبھالی تو لائن آف کنٹرول پر واقع کئی دیہات کوجبراََ خالی کراکے وہاں کے لوگوں کولائن آف کنٹرول کے دوسری طرف دھکیل دیاگیا۔مردم شماری میںان دیہات کو اب بھی بغیر آبادی والے دیہات بتایا جاتاہے۔یہ لوگ کسمپرسی کی حالت میں پاکستانی کشمیر میں مظفرآباد اور دیگر مقامات پر پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف عسکریت پسندوں کو واپس لانے اور ان کی آبادکاری کیلئے وزارت داخلہ نے کئی اسکیموںکا اعلان کیا ہے لیکن 40ہزار نفوس پر مشتمل ان انتہائی پسماندہ خانماں برباد لوگوںکی واپسی کی طرف کوئی توجہ نہیں ‘جن کو 1990ء میں اورپھر کرگل جنگ کے دوران سرحد پار دھکیل دیا گیا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں ڈویژن میں ایک اندازے کے مطابق اکتوبر 1947ء اور جنوری 1948ء کے درمیان تقریباََ 20ہزار مسلمان فرقہ وارانہ فسادات میں مارے گئے ۔یہ انتہائی بدترین فسادات تھے اور ان کا ریکارڈ میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ان فسادات میں کئی لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور ہزاروںکو سرحد کے دوسری طرف دھکیل دیا گیا۔شیخ محمد عبداللہ نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں ان افراد کی واپسی اوردوبارہ آبادکار ی کے لئے1982ء میں ریاستی اسمبلی سے ایک قانون بھی منظور کرایا تھا‘ لیکن فرقہ وارانہ ذہنیت کی نذرہوکر 30سال گذرنے کے باوجود یہ قانون اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عید کے روز کشتواڑ میں فسادات بھی اسی منظم سازش کا حصہ تھے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ یہاںسے گھر بار چھوڑ کر وادی کشمیر کی طرف ہجرت کے لئے مجبور ہوجائے۔سابق این ڈی اے حکومت کے زمانے میں اس وقت کے مرکزی وزیر مملکت برائے دفاع چمن لال گپتا نے ہندو علاقوں میںچن چن کر بی جے پی او رشیو سینا کے ورکروں کو ویلج ڈیفنس کمیٹی میں بھرتی کراکے ایک طرح سے پرائیویٹ آرمی تیار کردی۔ان لوگوں کو باضابطہ فوجی تربیت دی گئی اور انہیں حکومت کی طرف سے مشاہرہ بھی ملتا ہے۔یہ آرمی مسلم محلوں اور بستیوں میںہتھیاروں کے بل پراور حفاظتی دستوں کی شہ پر دہشت مچاتی رہتی ہے ۔ کبھی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے نام پر اور کبھی کسی اور بہانے لوگوں سے جبراََ پیسہ اینٹھنے کا کام کرتی رہتی ہے۔ اس علاقے کے ایک سینئر صحافی حق نواز نہرو کے بقول وی ڈی سی نے عوام اور بالخصوص مسلم اکثریتی طبقے کا جینا محال کردیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان علاقوں میں عسکریت پسندوں نے ہندوئوں سے زیادہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والوں اور مخبری کی پاداش میںبیشتر مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا۔ اس کے باوجود صرف ہندوئوں کو ہی ہتھیاروں سے لیس کیا گیا ہے۔ مسلمان خواہ اس کا تعلق نیشنل کانفرنس سے رہا ہویا کانگریس سے ،انہیں معمولی ہتھیار رکھنے کے لئے بھی لائسنس نہیں دیے جاتے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور مرکزی وزیر صحت غلام نبی آزادکشتواڑ کے ہی ایک دور افتادہ علاقے مڑوا سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ بھی این ڈی اے زمانے کے وزیر دفاع چمن لال گپتا کی پالیسی کو تبدیل کرانے میںبے بس دکھائی دیتے ہیں۔ جموں میں فرقہ پرست عناصر اس بات سے بھی خفا ہیں کہ 2003ء میں وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کے اقتدار کے بعدان علاقوں کو زمینی راستوںسے منسلک کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔اس سلسلے میں پونچھ اور شوپیاں کے درمیان مغل روڈ عنقریب مکمل ہونے والی ہے اور اس پر گاڑیوں کی آمدروفت بھی شرو ع ہوچکی ہے۔ اسی طرح ڈوڈہ اور کشتواڑ کو سمتھن اور ڈکسم راستوں کے ذریعہ وادی کشمیر سے جوڑنے کی کوشش آخری مراحل میں ہے۔جموں ڈویژن کے آخری قصبے بانہال کو ریلوے سروس کے ذریعہ سری نگر سے حال ہی میں جوڑا جاچکا ہے ۔ اس طرح سے یہ علاقے اقتصادی طور پر بھی اب سری نگر کے قریب آگئے ہیں جن کی چبھن جموں کے ہندو تاجروں کو ہورہی ہے۔ حال ہی میں اسی علاقے کے گول قصبے میں توہین قرآن اور بعد میں چار افراد کی ہلاکت کا جو واقعہ پیش آیا اس کی گونج پیر پنچال سے لے کر کرگل تک سنائی دی۔ کشتواڑ واقعہ کے فوراََ بعد بی جے پی کی اعلیٰ کمان جس طرح حرکت میں آگئی اور پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ اورسینئر لیڈر سشما سوراج نے ہندوفرقے کے حق میںجس طرح زوروشور سے آواز بلند کی اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاںکے مسلمانوں کو خوف وہراس میں مبتلا رکھنے کی منصوبہ بند کوشش کی جارہی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بھارت میں کسی بھی ملی لیڈر یا اقلیتی امور کی وزارت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان دبے کچلے اور مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں۔ لداخ کے زنسکارکا واقعہ ہو جہاں کی بودھ اکثریت نے مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کررکھا ہے یا وادی چنا ب میں گول یا کشتواڑ کا واقعہ ‘ ملی تنظیموں کی خاموشی ایک لمحہ فکریہ ہے۔