"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت میں صوبائی انتخابات: مودی کا پہلا امتحان

بھارت میں الیکشن کمشن نے پانچ اہم صوبائی انتخابات کا اعلان کرکے سیاست میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ راجستھان ، قومی دارالحکومت دہلی، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور شمال مشرقی صوبہ میزورام میں 11 نومبر اور4دسمبر کے درمیان ہونے والے مرحلہ وار انتخابات کوتجزیہ نگار منی جنرل الیکشن یا آئندہ سال کے عام انتخابات سے قبل ایک طرح کا سیمی فائنل قرار دے رہے ہیں۔ چونکہ میزورام کو چھوڑ کر باقی ریاستوں میں مقابلہ براہِ راست دو قومی جماعتوں ،حکمران کانگریس اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان ہے، اس لیے یہ انتخابات ان کے رہنمائوں کی مقبولیت کے لیے نہ صرف امتحان ثابت ہوں گے بلکہ 6ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات کے لیے لائحہ عمل بھی طے کریں گے۔ یہ انتخابات خصوصاًبی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار اور گجرات صوبہ کے وزیراعلیٰ نریندر مودی اور کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کی قیادت کا بھی کم و بیش فیصلہ کریں گے۔ اس اہمیت کے پیش نظر دونوں رہنما عام انتخابات سے قبل اپنے شخصی تاثر کو برقرار اور کارکنوں کو پر عزم رکھنے کیلئے صوبائی انتخابات میں کامیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے ان صوبوں میں مودی کے دوروں کے لیے خصوصی پروگرام طے کیے ہیں۔ وہ آئندہ دوماہ کے وقفے کے دوران سو انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے والے ہیں۔ کرپشن اور حکومت کی نااہلی سے تنگ آئی ہوئی مڈل کلاس، کارپوریٹ اور نوجوان طبقہ کو انہوں نے کسی حد تک لبھانے میں کامیابی حاصل کی ہے، لیکن انہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں اور دوسرے سیکولرطبقہ کا ووٹ ان کے خوابوں کو چکناچور کر سکتا ہے۔ بھارت کی 543رکنی لوک سبھا میں تقریبا120نشستوں پر مسلمان ووٹ خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے ضروری ہے یا تو ’ہندوایکتا ‘کا نعرہ دے کر ہندوئوں کو یک جا کر کے مسلمانوں کے خلاف عمومی ماحول بنایا جائے یا مسلمانوں کے ایک طبقے کو لالچ دے کر ان کے ووٹوں کو تقسیم کرا کے ان کی افادیت کم کی جائے۔نریندر مودی فی الحال دونوں طریقوں پر عمل کر رہے ہیں۔ اس لیے آج کل ایک طرف وہ اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرنے کے جتن کررہے ہیں اور دوسری جانب کٹر ہندوقوم پرستوں کوبھی لبھاتے ہوئے دو کشتیوں کی سواری کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی مخالفت کے باوجود مودی نے پارٹی کارکنوں کو متحرک کیا ہے۔ انہوں نے بی جے پی کے لیے تقریباً وہی کام کیا جو 1998ء میں سونیا گاندھی نے پارٹی کی قیادت ہاتھ میں لے کر کانگریس کے لئے کیا۔ مودی نے نہ صرف پارٹی میں قیادت کا خلا پر کیا بلکہ پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچایا ۔ انتہا پسندہندوئوں کے نزدیک مودی ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو گجرات میں سبق سکھایااور یہی طبقہ مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بنانے کی مہم میں پیش پیش ہے،ورنہ پارٹی کے سینئر رہنما لال کشن چند ایڈوانی کی دلیل تھی کہ اگر مودی کو متوقع وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا گیا تو یہ پارٹی کے لئے سیاسی طور پر تباہ کن ہوگا۔ پارٹی کو گجرات کے مسلم کش فسادات میں مودی کے کردار کے دفاع پر توانائی صرف کرنی پڑے گی ۔ ایڈوانی نے اپنے معتمد خاص سدھنیدرکلکرنی کے توسط سے مودی کو نشانہ بنایا۔کلکرنی نے سب سے پہلے سوشل سائٹ ٹوئٹر پر مودی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا : ’’سماج کو تقسیم کرنے والے لیڈر نے خود اپنی پارٹی کو تقسیم کردیا ، وہ کس طرح مرکز میں ایک موثر اور ہموار حکومت چلا سکتا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ‘‘ انہوں نے متعدد ٹی وی چینلوں پر واضح طور پر کہا کہ ایڈوانی پارٹی میں واجپائی کے بعد سب سے ’ ’ قد آور ‘‘ رہنما ہیں ا ور وہ نہیں چاہتے کہ مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بنایا جائے۔ خیال رہے ،کلکرنی 2009ء میں پارٹی کی انتخابی کمیٹی کے رکن تھے اور وہ واجپائی کے میڈیا مشیر تھے اور ان کے لیے تقریر بھی لکھاکرتے تھے ۔ تاہم پرزور مخالفت کے باوجود ایڈوانی ایک ایسے شخص سے مات کھاگئے جسے انہوںنے چانکیہ سیاست کے رموز سکھائے تھے اور انتہائی نازک وقتوں میں اس کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ا یس نے اچانک اپنے مسلمہ اصولوں کے بر خلاف شخصیت پرستی کی بنیاد پر مودی کو اعلیٰ عہدے کیلئے نامزد کرنے کا گرین سگنل کیونکر دے دیا ؟ وہ بھی ایک ایسے شخص کو جو پسماندہ طبقہ ( تیلی ذات) سے تعلق رکھتا ہے؛حالانکہ بی جے پی میں اعلیٰ ذات کے ہندو کا غلبہ ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے پشت پر متعد د عوامل کار فرما ہیں ۔ من موہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے حکومت کی خرابیوں اور بدعنوانیوں کے علاوہ ملک میں عوام کا کانگریس کے خلاف رجحان ہے ۔ چند ماہ قبل جنوبی صوبہ کرناٹک میں بی جے پی کی ذلت آمیز شکست اور کانگریس کی دوبارہ اقتدار میں واپسی ، کارپوریٹ لابی کے زیر اثر میڈیا کی مودی کے حق میں زبردست پروپیگنڈا مہم، بی جے پی کے رہنمائوں میں جاری رسہ کشی ، پارٹی کے نوجوان کارکنوں میں مودی کی مقبولیت ، مودی کا جارحانہ رویہ اور چرب زبانی اور کانگریس کی زمام کار عملًا راہول گاندھی کے سپرد کرنا اہم عناصر ہیں ۔ آر ایس ایس کی یہ حکمت عملی ہے کہ مودی کی متنازع شخصیت کے پیش نظر2014ء میں ہونے والے عام انتخابات کو مودی بنام راہول بنادیا جائے۔ مودی کی سیاسی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے ۔ بچپن غربت میں گزرا، انہوں ایک پسماندہ خاندان میں 17 ستمبر1950ء کو آنکھ کھولی اور طالب علمی کے زمانے سے ہی آر ایس ایس کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ اس کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جو ان کے دوست اور سکول کے ساتھی بشیر خان پٹھان سناتے ہیں ۔ ان کے مطابق سکول میں جب وہ دونوں پڑھتے تھے تو آر ایس ایس میں شامل ہونے کا اشتہار نکلا تھاجس میں دو ڈریس (لباس ) دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ چونکہ دونوں غریب گھروں سے تعلق اور کپڑے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اس لیے ان دونوں نے اس کے لیے درخواست دے دی۔ چند دن بعد مودی کا انتخاب ہوا جس پر مودی نے آر ایس ایس میں یہ کہہ کر شامل ہونے سے انکار کردیا کہ ان کے دوست کا انتخاب نہیںہوا ۔ لیکن غربت کے مارے پٹھان نے مودی سے کہا کہ وہ آر ایس ایس میں شامل ہوجائیں ،اس سے دونوںکوایک ایک لباس پہننے کو مل جائے گا۔اس اتفاقی شمولیت کے بعد مودی نے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔ مودی چھوٹی عمر میں ایک آئل کمپنی میں تیل کے پیپے اٹھایا کرتے تھے۔ ہر پیپے پر انہیں پانچ پیسے بطور اجرت ملتے ۔ وہ چھ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہیں ۔ آر ایس ایس کا کل وقتی پرچارک (مبلغ) بننے سے پہلے وہ گجرات ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے عملے کی کینٹین میں کام کرتے تھے۔ریلوے اسٹیشن پر وہ اپنے والد کی چائے کی دکان پر ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔ ناگپور میں آر ایس ایس کی تربیت حاصل کرنے کے بعد گجرات میں سٹوڈنٹس کی شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے سربراہ بنائے گئے ۔ 1987 ء میں انہیں آر ایس ایس نے سیاسی ونگ بی جے پی میں بھیجاجہاں وہ بعد میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنے اور انہوں نے90ء کی دہائی میں ایڈوانی کی سومناتھ اور ایودھیا رتھ یاترا کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیاجس کا اختتام بابری مسجد کی شہادت پر ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی ان صوبائی انتخابات میں کس طرح بی جے پی کی کشتی پار لگائیں گے کیونکہ چار میں سے دو صوبوں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے اور وہا ں یقینا انہیں حکومت مخالف جذبات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف دہلی میں ایک تیسری قوت کی شکل میں ’’عام آدمی ‘‘پارٹی میدان میں اتری ہے۔ اس پارٹی کی کمان انہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے پچھلے سال ملک گیر سطح پر کرپشن کے خلاف مہم چلا کر نوجوانوں کو روایتی سیاستدانوں کے خلاف صف آرا کیاتھا۔اگرچہ اس مہم کے سرخیل انا ہزارے اس پارٹی میں شامل نہیں ہیں پھر بھی یہ پارٹی ان کے قریبی افراد پر مشتمل ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دہلی میں یہ پارٹی نوجوانوں اور مڈل کلاس کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلے گی جو یقینا بی جے پی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں