"IGC" (space) message & send to 7575

امریکہ میں بھارتی سفارت کار کی گرفتاری

نیویارک میں ڈپٹی قونصل جنرل دیویانی کھوبڑا کی گرفتاری اور حوالات میں اس کے ساتھ سلوک نے امریکہ اور جنوبی ایشیا میں اس کے نئے حلیف بھارت کے مابین سفارتی کشیدگی پیدا کردی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں حکومت، اپوزیشن، میڈیا یعنی تقریباً سبھی ادارے امریکہ کے خلاف کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ چین اور پاکستان کو ٹھکانے لگانے کیلئے امریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی وکالت کرنے والے بھی اس خاتون سفارت کار کے ساتھ کئے گئے سلوک پر تلملارہے ہیں۔
پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کا قضیہ ہو یاڈرون حملوں میں بے گناہوں کی ہلاکت، بھارتی وزارت خارجہ نے امریکی اقدامات کو ہمیشہ درست قرار دیا یا ان پر خاموشی اختیار کرکے ان پر ایک طرح سے اپنی مہر تصدیق ثبت کی۔اس سے قبل بھارتی شخصیات کے ساتھ امریکی ہوائی اڈوںپرکئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔سابق صدر اے پی جے عبدالکلام، سابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیس، سابق سفارت کار میراشنکر اور موجودہ مرکزی وزیر پرفل پٹیل کے ساتھ امریکی حکام گستاخیاں کرچکے ہیں۔مگر یہ معاملات زیادہ طول نہیں پکڑپائے اور بھارتی وزارت خارجہ نے یہ سب گستاخیاںکڑوی گولی کی طرح نگل لیں۔
مگر بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے گو کہ امریکہ نے بھارتی خاتون سفارت کار دیویانی کھوبراگڑے کے ساتھ حوالات میں ناروا 
سلوک کیا، مگر اس سفارت کار نے تو امریکی لیبر قوانین کی دھجیاں اڑادی تھیں۔ اور اپنی بھارتی خادمہ سنگیتا رچرڈزکو معاہدے میں طے کی گئی رقم سے کم تنخواہ دینے کی مرتکب ہوئی تھی۔امریکہ میں ویزا کے عریضے کی شرائط سے انحراف کرنا سنگین جرم ہے اور ان کے اپنے اراکین پارلیمان کو ایسے الزامات کے تحت 10 سال تک سزا بھگتنی پڑی ہے۔مگر چونکہ بھارتی سفارت کار کی گرفتاری ایسے وقت عمل میں آئی جب خارجہ سیکرٹری سجاتا سنگھ ایک کامیاب امریکی دورہ کے بعددہلی واپس آرہی تھی، اور اس کی واشنگٹن میں موجودگی کے دوران ہی دہلی میں امریکی سفارت خانہ نے سنگیتا کے شوہرفلپ رچرڈ اور اسکے بچوں کو بہ عجلت ویزا فراہم کرکے ان کو امریکہ پہنچادیا تاکہ سفارت کار کی گرفتاری کے نتیجے میں بھارتی حکومت ان کو عتاب کا نشانہ نہ بنائے۔ قرائین سے لگتا ہے کہ اس پورے آپریشن میں صرف نیویارک پولیس ہی نہیں بلکہ پوری امریکی انتظامیہ ملوث تھی۔ کیونکہ ویزا دینا اور سنگیتا کے اہل خانہ کے امریکہ پہنچنے کے بعد ہی دیویانی کے خلاف کارروائی کرنا ایک باقاعدہ آپریشن کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ آخر معمولی خادمہ کی خاطر امریکہ نے جنوبی ایشیا میں اپنے نئے حلیف کے ساتھ تعلقات دائو پر کیوں لگائے ہیں؟امریکی کمپنیاں کئی 
برسوں سے بھارتی مارکیٹ پر نگاہیں جمائے ہوئے ہیں۔ اس لیے لگتا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ حکومتی حلقوں میں یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ یہ خادمہ امریکی خفیہ محکمہ کے زیراثر تھی اور جب اس کا راز فاش ہوا تو وہ پراسرار طور پر روپوش ہوگئی۔ 
اس سے قطع نظر یہ واقعہ امریکی دادا گیری کے بجائے انسانی حقوق اور لیبر قوانین کی خلاف ورزی کامظہر ہے۔ سنگیتا رچرڈ نومبر 2011ء میں امریکہ گئی تھی اور23 جون 2012ء کو سفارتکار کے گھر سے غائب ہوگئی۔ اس نے چند دن قبل جزوقتی کام کرنے کی اجازت مانگی تھی، جو اسے نہیں دی گئی۔ اس کے وکیل کا دعوی ہے کہ اسے روزانہ صبح سے لے کر رات دیر تک کام کرنا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ ہفتہ میں ایک دن بھی چھٹی نہیں دی جاتی تھی۔ ویزا شرائط کے مطابق خاتون سفارت کار کو ،خادمہ کو امریکی قانون کے مطابق فی گھنٹہ9ڈالر ادا کرنے تھے۔ مگر وہ اسے صرف 3 ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ دیتی تھی۔ دیویانی نے جب خادمہ کی گمشدگی کی اطلاع نیویارک پولیس کو دی تو انہوں نے کیس درج کرنے سے انکار کیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ چونکہ سنگیتا بالغ ہے اس لئے خاندان کا کوئی فرد ہی کیس درج کراسکتا ہے۔ یکم جولائی کو ایک خاتون وکیل نے بھارتی سفارت کار کو فون پر بتایا کہ خادمہ ان کی موکل ہے اوراگر وہ کوئی تصفیہ چاہتی ہے تووہ سنگیتا کا ویزا تبدیل کرانے میں مدد کرے اور اسے نوکری سے برخاست کرکے اس کا بقیہ معاوضہ ادا کرے۔ مگر بھارتی خاتون سفارت کار نے مصالحت سے صاف انکار کردیا۔ حد تو یہ کہ دیویانی نے وزارت خارجہ کے مشورے پر پاسپورٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں دہلی کی ایک عدالت میں خادمہ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ اسی دوران وزارت خارجہ نے اس کا پاسپورٹ رد کردیا اور خادمہ کے خلاف چوری کا ایک اور مقدمہ درج کرایا، اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے سنگیتا اور اس کے شوہر کو پابند کردیا کہ وہ دیویانی کے خلاف بھارت یا باہر کسی بھی عدالت میں کوئی دعوی دائر نہیں کرسکتے۔پھر 9 نومبر کو جنوبی دہلی کی ایک عدالت نے سنگیتا کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا۔ جو 6 دسمبر کو امریکی سفارت خانہ کو وصول کرایا گیا۔ 
اس پورے معاملے میں قانونی پہلو انتہائی پیچیدہ ہے۔ کیا امریکہ ،دہلی کی عدالت کی ہدایت کا پابند ہے اوروہ بھی کسی ایسے جرم کیلئے جو امریکی سرزمین پر سرزد ہوا ہو۔بھارت کا اصرار ہے کہ ویانا کنونشن کی رو سے سفارتکار اس قسم کے الزامات سے مستثنیٰ ہے اور اس کے خلاف کیس واپس لیا جائے اورباعزت بھارت واپسی کی راہ ہموار کی جائے۔ مگر امریکی حکومت کا موقف ہے کہ دیویانی جن الزامات میں گھری ہوئی ہے، وہ سفارتی سطح کا نہیں بلکہ خانگی معاملہ ہے۔بھارتی وزارت خارجہ کو اس پورے معاملے کا ممکنہ حل اب اس شکل میں نظر آیا کہ دیویانی کا تبادلہ اقوام متحدہ میں بھارتی مشن میں کردیاگیا ،جہاں اس سے سفارتی امیونٹی حاصل ہوگی۔ گوکہ اس سے اس کے مقدمہ کی صحت پر کو ئی اثر نہیں پڑے مگر سفارتی امیونٹی کی صورت میں وہ عدالت میں حاضری اور بعد میں سزا ہونے کی صورت میں جیل جانے سے بچ سکتی ہے۔ 
بہر حال اس واقعہ نے بھارت امریکہ تعلقات کی چولیں ہلادی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعلقات شاخِ نازک پر قائم ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے ایسے کئی واقعات امریکہ کے بھارتی مشن میں رونما ہوچکے ہیں۔ایک سفارت کار کو اپنی خادمہ کو کئی ملین ڈالر تصفیہ کے طور پر دینے پڑے۔ ان واقعات کا شاخسانہ یہ ہے کہ آج کل بھارتی سفارت کاروں کی ازحد کوشش رہتی ہے کہ امریکہ کے بجائے کہیں اور ان کی پوسٹنگ ہو۔ چند سال قبل تک امریکی پوسٹنگ سفارت کاروں کے لیے اعزاز کا درجہ رکھتی تھی اور اس کے لیے ان کا حکومت کا منظورنظر ہونا لازمی تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں