"IGC" (space) message & send to 7575

مودی ، کشمیر اور پاکستان

بھارتی انتخابات میں جہاں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی اپنی سخت گیر شبیہ کو نرم ظاہر کرکے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں، وہیں ان کے حواری ووٹروں کو مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر بانٹنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے۔اس کی تازہ مثال، پارٹی کے بہار صوبہ کے ایک لیڈرگری راج سنگھ کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ''مودی کے مخالفین کی جائے پناہ پاکستان میں ہیــ‘‘۔ اندرون خانہ ذرائع کے مطابق مودی نے پارٹی رہنمائوں کو مشورہ دیا تھا کہ انتخابی منشور میں صرف ترقی و تعمیر سے متعلق امور پر ہی توجہ مرکوز رکھی جائے اورمتنازع امور جیسے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے کو پس پشت رکھا جائے ۔ آئین کی اس شق کے تحت متنازع ریاست جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ان امور کو بعد میں منشور کے آخری صفحہ پر جگہ دی گئی، تاکہ روایتی ہندو ووٹر ناراض نہ ہوجائے۔ 
فی الحال مودی نے بھی اپنی تقاریر میں ان امور کا تذکرہ نہیں کیا ہے،جس سے یہ امید بندھ گئی ہے کہ شاید اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوکر وہ بھی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ذریعے شروع کی گئی امن مساعی کا دوبارہ آغاز کریں گے، جسے موجودہ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے مہمیز عطا کی تھی۔ کشمیر کی آزادی کی حامی قیادت کا ایک حصہ بھی مودی سے آس لگائے ہے کہ اگر ان کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد برسراقتدار آگیا تو وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔19مارچ کوحریت کانفرنس کے اعتدال پسند گروپ کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے اپنے ایک بیان میں امید ظاہر کی تھی کہ بھارت کا نیا وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے نقش قدم پر چل کر مسئلہ کشمیر پر توجہ دے گا۔ انہوں نے کانگرس کی قیادت والے متحدہ 
ترقی پسند اتحاد کی '' کشمیر مخالف‘‘ پالیسیوں پر زبردست تنقید کی۔ انہوں نے بی جے پی کی قیادت پر زور دیا کہ اگر وہ منتخب ہوگئی تو اُسے واجپائی کی کشمیر پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ 20مارچ کو بی جے پی کی ترجمان نرملا سیتارمن نے اْن بیانات کے ٹکڑے اور ریکارڈ کردہ بیانات کے حصے پیش کئے ،جو کشمیر میں مزاحمتی کیمپوں کے رہنمائوں نے دیئے تھے اور بتایاکہ مودی ،واجپائی کے اْن ایام کوواپس لائیں گے ،جب جموںوکشمیر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ گفتگو ہوا کرتی تھی تاکہ ریاست میں امن وامان ہو اور ترقی کے فوائد وہاں پہنچ سکیں۔بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے حریت کانفرنس(ع) کے چیئرمین کے بیان کی توثیق کی اور کہا کہ اگر نریندر مودی برسراقتدار آئے تو وہ کشمیر کے بارے میں واجپائی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے؛ تاہم حریت کانفرنس(ع) کے چیئرمین نے جو بحث شروع کی ہے اس سے یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کی کشمیرپالیسی، جس کا بڑ ا چرچا تھا اور بالفرض یہ اگر تھی بھی توکیااس میں جموںوکشمیر کے حتمی حل کی بات کہی گئی تھی یا نہیں۔وزیر اعظم من موہن سنگھ کے سابق میڈیا مشیر سنجے بارو نے اپنی ایک حالیہ کتاب The Accidental Prime Minister میں اس امن مساعی کا خلاصہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کا ایک بڑا صنعتی گھرانہ ریلائنس انڈسٹریز ان امن کوششوں کی پشت پر تھا۔ کیونکہ پاکستانی سرحد سے منسلک جام نگر میں ان کی ریفائنری براہ راست پاکستانی فوج کی توپوں کی زد میں تھی۔اس لیے انہوں نے واجپائی کو آمادہ کیا کہ وہ ان کے ایک قریبی عہدیدار آر کے مشرا 
کو امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے متعین کریں۔مشرا اور صدر مشرف کے مشیر طارق عزیز کے درمیان کئی خفیہ ملاقاتیں ہوئی۔ مشرا کی موت کے بعد من موہن سنگھ نے ٹریک ٹو چینل کیلئے سابق سفارتکار ستندر لامبا کو منتخب کیا۔ بارو کے مظابق ان ملاقاتوں میں جن نکات پر ہم آہنگی پیدا ہوئی تھی وہ مندرجہ ذیل تھے:
(1)پہلے قدم کے طور پر لائن آف کنٹرول کو آمدورفت اور تجارت کیلئے کھولنا اور بتدریج کشمیریوں کو ایک دوسرے کے علاقوں میں جانے کی کھلی آزادی دینا۔ (2) دوسرے مرحلہ پر دونوں اطراف میں حق خود اختیاری تفویض کرکے منتخبہ حکومتوں کا قیام اور اگر ضروری ہوا تو بین الاقوامی اداروں کی زیر نگرانی ایسی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔(3)تیسرا عمل کچھ پیچیدہ تھا۔ مگر بارو کے بقول دونوں ملکوں نے اس کو روبہ عمل لانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اس کے مطابق دونوں اطراف میں مشترکہ میکانزم کا قیام، جہاں آر پار کشمیر کے لیڈران بیٹھ کر خطے کی تعمیر و ترقی کیلئے مشترکہ پالیسیاں اور حکمت عملی وضع کریں گے۔اس میکانزم کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ خارجہ اور دفاعی پالیسی کے بغیر دیگر تمام امور پر پالیسیاں ترتیب دے۔اگر یہ تینوں مرحلے بخیر و خوبی انجام کو پہنچتے، تو سب سے آخر میں چوتھے مرحلہ میں دونوں علاقوں سے فوجوں کی بتدریج واپسی کا عمل شروع ہونا تھا۔مگر بارو کا کہنا ہے کہ من موہن سنگھ کیلئے یہ کانٹوں بھرا راستہ تھا۔ وہ اپنے فوجی سربراہان کو سیاچن سے فوج کے انخلاء پر کبھی قائل نہیں کرسکے۔یہ لوگ بند دروازوں اور وزیراعظم کی موجودگی میں ان کی لائن سے اتفاق کرتے تھے مگرباہر میڈیا میں اس کے خلاف بیان داغتے تھے۔
در حقیقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے شدید خواہش کا اظہارتھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم ہوتا کہ یہ دونوں ملک اپنے تنازعات دوستانہ طور پر حل کریں۔اس تبدیلی پر بحث کرتے ہوئے نونیتابہیرا نے اپنی کتاب ''Demystifying Kashmir ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بھارت امریکہ کے محتاط رول پر راضی تھا جس کا ذکر واجپائی نے کیا تھاتاکہ تنازع کشمیر کے حل کی راہ ہموار کی جائے۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے ثالثی اب بھی ناپسندیدہ تھی‘۔ کشمیر کے ایک معروف کالم نویس اور مصنف جی ایم زاہد لکھتے ہیں کہ پاکستان کو مصالحتی ڈگر پر ڈالنے کیلئے امریکہ دو مقاصد کیلئے کام کر رہا تھا :اول یہ کہ بھارت کے ساتھ نیوکلیائی معاہدات طے ہوں اور دوسرے یہ کہ پاکستان کے ساتھ کلیدی تعلقات قائم رہیں ،تاکہ اس طرح جنوبی ایشیا میں اس کا اثر و نفوذ قائم رہے۔ متحدہ ترقی پسنداتحاد کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے منقسم کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان راستے کھول دینے کے علاوہ سرینگر مظفر آباد شاہراہ کو کھول دیا۔کشمیر کے دوحصوں کے درمیان بس سروس شروع کی گئی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیاگیا۔ اس بات سے مفر نہیں کہ امریکہ نے جنوبی ایشیا کے لیے Strategic Visionکا انکشاف کیاتو اس کا جھکائو بھارت کی طرف تھا اس نے تعلقات کو قدغنوں سے آزاد کیا؛ تاہم پاکستان کو ایک بڑے غیر ناٹو اتحادی کا درجہ دیئے جانے کے بعد بش انتظامیہ ،نئی دہلی کو اسلام آباد کے ساتھ ،اپنے تمام تنازعات جن میں جموںوکشمیر بھی شامل تھا ،حل کرنے کی ترغیب دیتی رہی ۔
کشمیر سے متعلق اعتماد سازی کے اقدامات اور دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات اورچار نکاتی پروگرام ،وا شنگٹن کی ترغیب کا ہی نتیجہ تھا۔ دونوں ملک ایک ایسے طریقہ کار پر پہنچ چکے تھے جو دونوں کیلئے نتیجہ خیز ہوتا۔مگر یہ مشرف کیخلاف وکلاکے ایجی ٹیشن اور دیگر واقعات کی وجہ سے ناکام ہوا۔بعد میں کشمیر کے بارے میں واجپائی کے دور حکومت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی یامتحدہ ترقی پسند اتحاد کی حکومت کے ابتدائی دور میں بھی ایساکچھ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ متحدہ ترقی پسند اتحاد نے اپنی حکومت کی دوسری مدت کے دوران سرد مہری کا ثبوت دیا کیونکہ واشنگٹن نے ان کو کوئی ترغیب نہیں دی تھی۔ اس امر کے باوجود کہ اوباما انتظامیہ نے کھلے عام یہ کہا تھا افغانستان میں امن کا دروازہ کشمیر سے ہو کر جاتا ہے،مگر اس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے میں کوئی پہل نہیں کی اور مسئلے کے حل کیلئے کوئی ترغیب نہیں دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں