"IGC" (space) message & send to 7575

1947ء میںجموں میں مسلمانوں کا قتل عام ‘ ایک نئی تحقیق

1947ء میں جموں خطے میں ہوئے مسلم کش فسادات کے حوالے سے ایک نئی تحقیق منظر عام پر آئی ہے‘ جس کا سہرا کشمیر کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے ایک معروف بیوروکریٹ خالد بشیر کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے تقریباً تیس سالہ ملازمت کے دوران مختلف مقامات‘ لائبریریوں‘ تحقیقی اداروں وغیرہ کی خاک چھاننے کے بعداسے مرتب کیا ہے۔ انہوں نے جموں میں بہت سے دورافتادہ علاقوں اور تحصیلوں کا بھی دورہ کیا اور ان ہولناک فسادات میں زندہ بچ جانے والوں سے بالمشافہ بات چیت کرکے معلومات اکٹھی کیں۔
گوکہ 1947ء میں پنجاب ‘ دہلی ‘کلکتہ اور دیگر علاقوں میں ہوئے فسادات کی تفصیلات محفوظ ہیں لیکن جموں کے خونریز فسادات ‘ اور بقول خالد بشیر قتل عام ‘ پر شاید ہی کسی محقق کی نگاہ گئی ہو۔خالد بشیر کا کہنا ہے یہ قتل عام دیگر فسادات کے مقابلے اس لئے بھی الگ تھے کہ ان میں ڈوگرہ راج شاہی خود بھی شامل تھی۔اس وقت جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ اور ہندووں کی آٹھ لاکھ تھی۔ کشمیر میں 93 فیصد مسلمانوں کی آبادی تھی جب کہ جمو ں میں (جن میں پاکستان میں شامل میر پور‘ پونچھ‘ باغ وغیرہ علاقے شامل تھے) مسلمانوں کی آبادی 69فیصد تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم کش فسادات کی پلاننگ سرکاری سطح پر قبائلی حملوں سے بہت پہلے جولائی میں ہوئی تھی اور یہ سلسلہ اگست میں شروع ہوکر نومبر تک جاری رہا ۔ ان فسادات نے اودھم پور‘ ریاسی اور کٹھوعہ میں مسلمانوں کا تقریباََ صفایا کردیا۔دو لاکھ کے قریب مسلمان غائب ہوگئے‘ جن کا کبھی پتہ نہیں چل سکا۔
جموں کے ایک بزرگ صحافی وید بھسین کا حوالہ دیتے ہوئے خالد بشیرکہتے ہیں کہ ان فسادات میں تقریباَ َ ایک لاکھ لوگ مارے گئے،جب کہ لندن کے مقتدر روزنامہ ٹائمز نے 10اگست 1948ء کے شمارہ میں دو لاکھ مسلمانوں کے مارے جانے کی خبر شائع کی تھی۔ خالد بشیر کے مطابق پاکستان سے تقریباََ65 ہزار شرنارتھیوں کا جو سیلاب آیا تھا انہوں نے فسادات میں کلیدی رول ادا کیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس خارجی عنصر کے مقابلے داخلی عنصر زیادہ اہم تھا۔ اور اس میں ڈوگرہ آرمی کا رول بدترین رہا ۔ اس قتل عام کا واحد مقصد اس خطے سے مسلمانوں کا یکسر صفایا کردینا تھا تاکہ آبادی کے تناسب کو پوری طرح بدل کررکھ دیا جائے۔
خالد بشیر کے مطابق ایک منصوبہ کے تحت ہندوئوںاور سکھوں میں ہتھیار تقسیم کئے گئے جب کہ مسلمانوں سے لائسنسی ہتھیاروں کو تھانوں میں جمع کرالیا گیا۔ حتیٰ کہ مہاراجہ کی فوج میں شامل مسلم سپاہیوں سے بھی ہتھیار واپس لے لئے گئے۔ہندو ئوں اورسکھوں کے لئے جموں شہر میں ہتھیاروں کی تربیت کے لئے کیمپ لگائے گئے تھے اور اس خطے کے مقتدر اور قدآور لیڈر چودھری غلام عباس کو پہلے ہی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا،۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کی پیٹھ پر ہاتھ رکھنے اور ان کی ہمت بندھانے والا کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ دوسری طرف اکتوبر میں جب قبائلی حملوں کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کو سری نگر سے بھاگنا پڑا‘تو اس واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مہارانی تارا دیوی نے بھی اس فرقہ وارانہ آگ کو بھڑکانے میں کلیدی رول ادا کیا۔خالد بشیر کا کہنا ہے کہ گو مہاراجہ ہری سنگھ بذات خود مسلم کش فسادات میں ملوث نہیں تھے لیکن انہوںنے اپنی رانی تارا دیوی اور دیگر حواریوں کو جس طرح کھلی چھوٹ دی ،اس کی وجہ سے وہ بھی اس الزام سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
جموں کے ایک دیگر مقتدر شخص کرشن دیو سیٹھی کے مطابق مہاراجہ نے جموں میں آر ایس ایس کو ٹھکانہ دینے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کے لیڈروں کو جموں میں سرکاری مہمان کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ بلراج پوری کے مطابق آر ایس ایس کے بانی گروگولوالکر مہاراجہ کے ذاتی مہمان تھے۔ان کے مطابق مسلمانوں کے خلاف اعلیٰ سطح پر سازش تیار کی گئی اور یہ سب کچھ تقسیم وطن سے پہلے ہی ہوچکا تھا ،اس لئے ان فسادات پر کسی طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔
خالد بشیر کے مطابق جولائی 1947ء میں کچھ رجواڑوں کے سربراہوں کی ایک خفیہ میٹنگ سری نگر میں منعقد ہوئی جس میں آر ایس ایس کے اس وقت کے اہم لیڈروں نے بھی شرکت کی۔اس میٹنگ میں یہ منصوبہ بنایا گیا کہ جموں خطے سے مسلمانوں کا صفایا کرنے کی مہم کا آغاز پونچھ سے کیا جائے۔اس قتل عام میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص شبیر احمد سلاریا کے مطابق جب مہاراجہ اکتوبر میں سری نگرسے بھاگ رہے تھے تو راستے میں اس کے حوارین ہندووں کو مسلمانوں پر حملے کرنے کے لئے اکسار ہے تھے۔
وید بھسین کہتے ہیں جب انہوں نے ایک سٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر مہاراجہ ہری سنگھ کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن سے ملاقات کی تو مسٹر مہاجن نے انہیں کہا تھا کہ اس ریاست کو ہندو اکثریت میں بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کیونکہ ہندو تو یہاں اقلیت میں ہیں تو مہرچند مہاجن نے باہو قلعہ سے نیچے کھائی میں چند گوجروں کی بے گور و کفن لاشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا '' اس طرح‘‘۔ 
خالد بشیر کے مطابق 20اکتوبر کو کٹھوعہ اور اکھنور‘ 22 اکتوبر کو سامبا‘ 23اکتوبر کوماوگام‘5 اور 6نومبر جموں شہر اور 9نومبر کو سوچیت گڑھ میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا ،جہاں70ہزار مسلمان مارے گئے۔ اس قتل عام میں ڈوگرہ فوج پیش پیش تھی۔ان کی تحقیق کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آف انٹیلی جنس جی سی بالی نے ایک خفیہ نوٹ وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو بھیجا تھا کہ ''جموں میں ڈوگرہ اور راجپوت فوجی مسلمانوں کو مارنے میں پیش پیش ہیں اور مہاراجہ کی خاموشی انہیں تقویت دے رہی ہے‘‘۔ خالد بشیر کا مزید کہنا ہے کہ مسلم کش فسادات کا سلسلہ تقسیم سے پہلے ہی شروع ہوگیا تھا اور کشمیر میں قبائلیوں کے داخل ہونے سے قبل ہی مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا گیا تھا۔ اس لئے مورخین کا یہ کہنا کہ وادی میں قبائلیوں کے حملے کے ردعمل میں جموں میں فسادات ہوئے ‘ درست نہیں ہے‘ کیونکہ واقعات ان کی نفی کرتے ہیں۔خالد بشیر کا کہنا ہے کہ جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے ریاسی میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے میں اہم کردارادا کیا ۔ ان مسلم کش فسادات کے زندہ بچ جانے والے بعض متاثرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رشی کمار کوشل خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجہ کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ خود اس قتل عام کی نگرانی کررہے تھے۔
اس نئی کتاب میں قتل عام میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص محمود احمد خان کا بھی بیان درج ہے ۔ محمود احمد خان کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کے پانچ افراد جن میں ماں‘ باپ ‘ بھائی اور بہن شامل تھے‘ ریاسی میں مارے گئے تھے۔ ان کی دو بہنوں کو دریائے چناب میںپھینک دیا گیاتھا۔محمود‘ جن کی عمر اس وقت صرف سات برس تھی ‘ کوایک رحم دل ہندو فوجی نے کسی طرح بچالیا اور ایک برہمن بیربل کے حوالے کردیا ‘ جہاں ایک تقریب میں اسے ہندو بنایا گیا اور اس کا نام گلابو رکھا گیا۔ دو برس بعد اس کا ایک پڑوسی درگادت اسے بکریا ں چراتے دیکھ کراپنے گائوں لے آیا اور محمود کے زندہ بچ جانے والے چچا کے حوالے کردیا۔ 1980 ء میں محمود کو پتہ چلا کہ اس کی جن دو بہنوں کو دریا میں پھینک دیا گیا تھا‘ قدرت نے انہیں بچا لیا تھا اور وہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں رہ رہی تھیں۔
خالد بشیر کا کہنا ہے کہ ان مسلم کش فسادات میں مارے جانے والے بیشتر لوگوں کو پہلے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ انہیں محفوظ مقامات پر کیمپوں میں رکھا جائے گا لیکن انہیں راستے میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔چنانی میں قاضیوں کا ایک خاندان رہتا تھا ‘ جس نے اپنی عورتوں کی عصمت بلوائیوں سے بچانے کے لئے خوداپنے ہاتھوں سے ان سب کا گلا گھونٹ دیا ۔
تاہم ایسے حالات میں راجہ صحبت علی خان ان کے لئے فرشتہ سے کم ثابت نہیں ہوئے۔ راجہ صحبت علی خان جموں کے گھمٹ تھانہ کے انچارج تھے اور مجرم ان کے نام سے ہی کانپتے تھے۔ انہوں نے مصیبت زدہ مسلمانوں کو بچانے میں اپنی جان کی بازی لگادی اور فسادیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ ان کی شجاعت کے قصے آج بھی جموں کے مسلمانوں کی لوک کہانیوں کا حصہ ہیں۔ صحبت علی خان کی موت کے ساتھ ہی مسلمانوں کی رہی سہی ہمت بھی ختم ہوگئی۔
خالد بشیر کا کہنا ہے کہ ان فسادات کے دوران کم سے کم پانچ ہزار مسلم عورتوں کا اغوا کیا گیا ‘ ان میں سے بعض کو بعد میں آزاد بھی کرایا گیا۔1953ء میں شیخ عبداللہ کی
گرفتاری کے بعد جب بخشی غلام محمد کو ان کی جگہ نامزد کیاگیا تو انہوں نے ان خواتین کو آزادکرانے میں اہم رول ادا کیا۔ مصنف کے بقول انہوں نے خود جموں کے ہندو گائوں میں گھروں میں جاجاکر ستم رسیدہ مسلم لڑکیوں کا پتہ لگایا۔ خالد بشیر کا کہنا ہے کہ جموں کے مقتدر رہنما چودھری غلام عباس کی بیٹی کو بھی اغوا کرلیا گیا تھا ‘انہیں آزاد کرانے کے بعد چودھری غلام عباس کے پاس پاکستان بھیجا گیا۔
گوکہ جموں میں اس قتل عام میںمسلمانوں کی ہلاکت کی اصل تعدا د کا تعین ممکن نہیں ہے لیکن مسلمانوں کی آبادی میں جس طرح کمی آئی اس سے پوری بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے۔1941ء اور 1961ء کی مردم شماری کے تقابلی جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی صرف ایک تہائی رہ گئی۔ جموں ضلع میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ 60ہزار تھی جو صرف 51 ہزار رہ گئی۔ 1961ء کی مردم شماری میں 151 ایسے مسلم گائوں کا ذکر شامل ہے جن میں کوئی فرد نہیں رہ رہا تھا۔ ان گاوں کے تمام لوگ یا تو مارے گئے تھے یا پاکستان چلے گئے تھے۔
مصنف کے بقول27اکتوبر 1947 ء کو الحاق کے بعد شیخ عبداللہ کی حکومت نے بھی مسلمانوں کو پاکستان جانے سے روکنے یا ان کی جان و مال کی حفاظت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس مسلمانوں کو پاکستان بھیج دینا چاہتی تھی کیوںکہ ان لوگوں کی ہمدردیاں مسلم کانفرنس کے ساتھ تھیں۔ اس سلسلے میں شبیر احمد سلاریا اور کرشن دیوسیٹھی دونوں ہی مصنف کی رائے سے متفق ہیں۔ کرشن دیو سیٹھی کا کہنا ہے کہ میں اور آئین ساز اسمبلی کے رکن موتی رام بیگرا جب شیخ عبداللہ سے ملنے گئے اور ان سے درخواست کی کہ جموں سے مسلمانوں کی ہجرت کو روکا جائے ورنہ وہ اس خطے میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے تو شیخ صاحب نے ان کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ ''جموں کے مسلمانوں نے مجھے کب اپنا لیڈر مانا ہے۔‘‘
شیخ عبداللہ حالانکہ اس کے بعد تقریباً چھ سال تک سربراہ حکومت رہے لیکن بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود انہوں نے جموں قتل عام کی انکوائری کرانے پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ حتیٰ کہ جن افسران کو معطل کیا گیا تھا بعد میں ان کو بڑے عہدوں سے نوازا گیا ۔قتل عام میں ملوث آر ایس ایس کے ایک لیڈر چونی لال کوتوال اور امرناتھ شرما بخشی حکومت کے زمانے میں وزیر بھی بنائے گئے۔
تاریخ کے بدترین قتل عام میں سے ایک جموں کا مسلمانوں کا یہ قتل عام کم از کم اس بات کا متقاضی تو ہے ہی کہ اسے ڈاکیومنٹ کیا جائے ‘ جس طرح مغربی ملکوں میں ماضی کے قتل عام کو ڈاکیومنٹ کیا جارہا ہے اور میوزیم بناکر ان تاریک واقعات کو محفوظ کیا جارہا ہے تاکہ آنے والی نسل حقیقت سے واقف ہوسکے اور ایک پرامن دنیا کے قیام میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں