"IGC" (space) message & send to 7575

بابری مسجد کی شہادت: ایک نئی تحقیق

پچھلے ہفتے بھارت میں مسلمانوں نے ایک بار پھر قدیم اور تاریخی بابری مسجدکی شہادت کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ ریاست اترپردیش کے اجودھیا شہر میں اس تاریخی مسجد کی شہادت کو اب 22برس مکمل ہوچکے ہیں۔بابری مسجدکے انہدام کے بعد وہاں پر ایک عارضی مندر تعمیرکردیا گیا ۔ بعض ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان رام اسی مقام پر پیدا ہوئے تھے اس لئے وہ وہاں ایک عظیم الشان مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ 6دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کے کئی حصو ں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں بڑی تعداد میں مسلمان مارے گئے۔چونکہ یہ واقعہ بھارت کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت بھی رکھتا ہے، اسی لئے معروف قانون دان اور مصنف اے جی نورانی نے اس موضوع پر اپنی تازہ ترین کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔مصنف کے بقول مسجد کی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھر پور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا۔چونکہ دنیا بھر میں بھارتی عدلیہ ایک سیکولر اور غیر جانبدار ادارہ کی حیثیت سے مشہور ہے، نورانی جیسے قد آور قانون دان کا ،اس کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے انصاف کرنے کی اس کی اعتباریت مشکوک ہو گئی ہے۔نہ صرف نچلی عدالتوں کے لیت و لعل سے بلکہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقہ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموار کی۔نورانی نے انکشاف کیا ہے کہ جسٹس چلیا مسجد کو بچانے اور آئین اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے والینٹیئروں) کی صحت سے متعلق فکر مند تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ 1998ء میں بی جے پی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان کو شاید انہی خدمات کے بدلے ایک اعلیٰ اختیاری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ عدلیہ کی اعتباریت کی رہی سہی کسر 30دسمبر 2010ء کو الہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے پوری کی، جب انہوں نے قانون اور شواہد کو طاق پر رکھ عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کربابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنایا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارہ کی بھی تجویز دی۔نورانی کے مطابق ایسے فیصلہ کی نظیر دنیا بھر کی عدلیہ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو شامل بحث تھے ہی نہیں۔یہ ایک سیدھا سادہ ملکیتی معاملہ تھا۔ 1949ء کو جب مسجد کے منبرپر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگاکر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی، مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے کورٹ میں فریاد کی تھی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے مگرجج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کئے بغیرکہا کہ Law of Limitation کا اطلاق ہندو دیو ی دیوتائوں پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان جگہوں پر جہاں ان دیوتائوں کی نشانیاں ہوں؛یعنی کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی بھی مورتی، چاہے وہ پتھر کا ٹکڑا ہویا کسی درخت کی شاخ یاپتہّ، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتاسکتا ہے۔چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی کیوں نہ مقیم ہو۔اس فیصلہ کی اعتباریت اور بھی مضحکہ خیز بن جاتی ہے، جب جج صاحبان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجد کا منبر واقع تھااور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق شری رام چندر رام 8لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میںاتنی پرانی آبادی کے کوئی آثار ابھی تک نہیں ملے ہیں۔
مصنف کے بقول عدالت نے لاہور کی مسجد شہید گنج کے فیصلہ کی بھی تقلید کرنے سے گریز کیا۔ 1962ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضہ کے بعد اس مسجد میں ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کو گورودوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تومسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ شروع کیا۔ 1940ء میں پریوی کونسل نے Law of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ نورانی نے اس کتاب میں ایک اور جید سابق چیف جسٹس جے ایس ورما کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے،جس نے ہندوتوا کو مذہبی علامت کے بجائے بھارتی کلچر کی علامت اور ایک نظریہ زندگی بتایا تھا۔مصنف کے مطابق مذکورہ جج نے ہندو انتہا پسندو ں کے گورو ویر ساورکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کے تحریروں پر تکیہ کرکے یہ فیصلہ سناکر ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کرایا۔
اس کتا ب میں معروف قانون دان نے سیکولر کانگریس پارٹی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق بھارتی وزیراعظم نرسمہا رائو مسجد کی شہادت میں بلا واسطہ ملوث تھے۔ نورانی کے مطابق کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے ویشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کیلئے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لاء میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور 
اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، کا رویہ بھی افسوسناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں ،جو پچھلے 20برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،نے بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجراء نہیں کرسکیں جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔
اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلہ میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا ہے، اور ان کے ذریعہ ہندو عباد ت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلہ کا جواز بنایا ہے۔یہ بات اگر صحیح ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بد ھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے۔ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کیلئے مندرو ں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی ، تو ان کو تہہ تیغ کیا۔ اگر تاریخ میں ہوئے واقعات کے موجودہ دور میں انتقام کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے، تواس کا اختتام کہیں نہیں ہوگا کیونکہ ہر قوم نے ماضی میں جب وہ غالب رہی ہو کوئی نہ کوئی ایسی حرکت توضرور کی ہے، جس سے کسی کو آزار پہنچا ہو، مگر اب آبائو اجداد کے گناہوں کے سزا اولادں کو تو نہیں دی جا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں