دو ماہ قبل بھارت کے دارالحکومت دہلی میں صرف ایک سال پرانی عام آدمی پارٹی (عآپ) نے صوبائی انتخابات میں جس طرح کامیابی کے جھنڈے گاڑے، اس نے نہ صرف بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں سماجی اور سیاسی بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔عوام نے نوزائید ہ عآ پ کو صرف سیاسی متبادل کیلئے ہی نہیں، بلکہ متبادل سیاسی نظام کے پیشوائوںکے طور پر ان کو ووٹ دیئے۔آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخابی نظام کے نتیجے میں جمہوری لبادہ میں ملبوس ا ُمرا ء کا جو طبقہ وجودمیں آیا ہے، اس کو چیلنج کرنے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کیلئے عآپ نے امیدیں جگائیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے چند انتخابات کو چھوڑ کر، جب صفحۂ سیاست پر صرف کانگریس ہی ہوتی تھی، بھارت کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار کسی پارٹی کو 50فی صد سے زائد ووٹ ملے۔ 1984ء میں لوک سبھا میں زبردست اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کانگریس صرف 42فی صد ہی پاپولر ووٹ بٹور سکی تھی۔
مگر پچھلے دنوں جس طرح عآپ کی نیشنل کونسل کی میٹنگ میں دھینگا مشتی، ہاتھا پائی، مارپیٹ دیکھنے میں آئی اور پارٹی کے سینئراراکین کی بے عزتی کرکے ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ، اس سے عوام سکتے میں ہیں۔جن لیڈروں کو برخاست کیا گیا، ملک میں نہایت ہی مقتدر اعتدال پسندشبیہہ کے علاوہ وہ کرپشن ، شخصی حکمرانی، مطلق العنانی اور موجودہ سیاسی نظام کی خامیوں کے خلاف ایک موثر آواز سمجھے جاتے ہیں۔ امید کی جارہی تھی کہ یہ پا رٹی دیگر جماعتوں کے برعکس شخصیت پرستی کے حصار سے باہر نکل کر لیڈروں کا ہر قدم پر احتساب کرکے ان کو ہر وقت کسوٹی پر پرکھے گی،مگرجس طرح عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور وزیر اعلیٰ اروند کجری وال اور ان کے حواریوں نے پارٹی کے اندر ریفارمز اور احتساب کا نظم قائم کرنے کے مطالبہ کے حوالے سے ان مقتدر لیڈروں کی سرعام بے عزتی کی، اس سے اس پارٹی کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ پرشانت بھوشن اور یوگندر یادو کا قصور صرف یہ تھاکہ دہلی انتخابات کے موقع پر ایسے 12امیدواروں کے خلاف انہوں نے تحفظات درج کئے تھے، کیونکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات درج تھے۔ اس کے علاوہ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے کجر ی وال کو مشورہ دینے کی جسارت کی تھی کہ ایک عہدہ اور ایک شخص کے اصول کے مطابق، وہ اب پارٹی کی کنوینرشپ سے مستعفی ہوجائیں۔
یہ بات توطے تھی، کہ عآپ کو ملک میں ایک سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جمہوری لبادہ میں جو نظام وجود میں آیا ہے، اس کے درپردہ افراد نے جس طرح ملک کو لوٹا کھسوٹا ہے، آخر وہ کس طرح عآپ کے نظریہ کو قبول کرسکتے تھے۔وی وی آئی پی کلچر اور خاندانی راج جنوبی ایشیا میں سیاست کی علامت بن چکے ہیں۔ ماضی کے اس طرح کے تجربات بھی بتاتے ہیں کہ جب بھی اس سسٹم کو چیلنج کرنے کیلئے کوئی کمر کس کے میدان میں آجاتا ہے، تواس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، اگر وہ کامیاب بھی ہوجاتا ہے، تو سسٹم اس کے اردگرد ایسا جال بنتا ہے، کہ کچھ عرصے میں ہی اس کو کوآپ، یعنی شریک کار بنالیتاہے۔ اس انقلابی فکر کے فرد کو اقتدار کی ایسی چاٹ لگائی جاتی ہے کہ وہ اسی سسٹم کا حصہ بن کر انہی کرپٹ اور امراء کے قبیل کا فرد بن کر اپنا مقصد بھول جاتا ہے۔کچھ یہی حال شاید اروند کجری وال کے ساتھ ہورہا ہے۔
چند سال قبل روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایک سابق افسر نے انکشاف کیاکہ ان کی ایجنسی نے دماغ کو کنٹرول کرنے کی ایک ایسی تکنیک تیار کی ہے، جس سے سیاسی لیڈروں کے دماغوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جنرل بورس رتنکوف نے ایک روسی اخبار روزیسکانیا گیزٹ کو بتایا کہ 80ء کی دہائی میں سابق سوویت یونین کے زمانے میں 50تحقیقی اداروں میں انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے کی تکنیکوں پر ریسرچ کی جارہی تھی۔ ا ن کا کہنا تھا کہ دماغ کو کنٹرول کرنا اب سائنسی فکشن کے مصنفوں کے تخیل کی پرواز نہیں، بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جب امریکی صدر بارک اوباما برسر اقتدار آگئے، تو فلسطین کے حتمی حل کے حوالے سے ان سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔مجھے یاد ہے، کہ بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ 2010ء کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کے دورہ کے دوران میں نے دیکھا کہ مغربی ایشیا کے اخبارات مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں خاصے پر امید تھے اور روز اس سلسلے میں خبروں اور تجزیوں سے اخبارات کے صفحات بھرے ہوتے تھے۔دورہ کے آخری دن، میں نے تل ابیب میں اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کی خاتون نائب سربراہ سے جب اس سلسلے میں استفسار کیا، تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دنیا جلد ہی اوباما سے مایوس ہوجائے گی۔''اوباما جلد ہی سیاست کے ر ازوں اور اس کی پیچیدگیوں سے آشنا ہو جائیں گے۔ انتظار کیجئے۔ اوباما امریکہ کی روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہیں کر پائیں گے۔‘‘ بھارت کے بھی چند سابق حساس اداروں کے افسران کا کہنا ہے ، کہ دماغ پر اثر انداز کرنے کی تکنیک اب صرف بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی اجارہ داری نہیں رہ گئی ہے،بلکہ اس طرح کی تکنیک اب تیسری دنیا بشمول بھارت میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی خلیوں پر اثر انداز ہونے کی تحقیق کا سہرا اصل میں دوسری عا لمی جنگ کے دوران جرمن خفیہ ایجنسیوں کے سر جاتا ہے۔ مگر بعد میں اس کو سی آئی آے اور کے جی بی نے انتہائی بلندی تک پہنچا دیا۔سرد جنگ کے دوران دونوں ایجنسیوں نے اس تکنیک کو انتہائی خفیہ رکھا۔ صرف خاص افراد کو ہی اس تک رسائی حاصل تھی۔جنرل رتنکوف کے مطابق روسی صدر بورس یلسن 1992ء میں جب جاپان جانے والے تھے، تو کے جی بی کے اس شعبہ نے ان کے دماغ کا جائزہ لے کر یہ پتہ لگایا کہ روسی صدر دورہ کے دوران متنازعہ جزیرہ کیورل جاپان کے حوالے کرنے پر آمادہ ہیں، تاکہ جاپان کے ساتھ سرحدی قضیہ ہمیشہ کیلئے ختم کیا جاسکے۔مگر کے جی بی کے تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے سرحدی تنازعوں کا ایک پٹارہ کھل جاتا، اور دیگر ممالک بھی اسی طرز پر روس سے مراعات کا مطالبہ کرتے۔ خاص طور پر چین بھی اسی علاقے میں کئی جزائر کی حوالگی کا مطالبہ کرتا۔ یلسن کو ایک لفظ کہے بغیر ، رتنکوف کے شعبہ نے ان کے دماغ کی ایسی پروگرامنگ کی کہ نہ صرف انہوں نے اپنافیصلہ بدل ڈالا، بلکہ دورۂ جاپان بھی منسوخ کردیا۔ روسی جنرل کے مطابق مغربی یورپ اور امریکہ کے کئی سینئرافسران نے سرد جنگ کے دوران ، سوویت یونین کو غیر دانستہ کئی اہم معلومات فراہم کیں۔ یہ معلومات ان کے دماغ کو کنٹرول کرکے حاصل کی گئیں۔حال ہی میں سی آئی آے کے ایک De-classified ڈاکومنٹ کے مطابق دسمبر 1947ء میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع جیمس فوسٹیل نے ایجنسی کو سوویت یونین کے خلاف ایک اہم خفیہ جنگ چھیڑنے کیلئے ایک خطیر رقم مہیا کروائی۔ اس جنگ کا خاص مقصد نفسیاتی آپریشن کے ذریعے دشمن کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس سلسلے میں کورڈ وورڈ بلیو برڈ نام سے ایک تحقیقی کام 1950ء میں ایک ایجنسی کے نائب سربراہ ایلین ڈولس کی براہ راست نگرانی میں شروع ہوا۔ ایک اہم کام جو بلیو برڈ کے سپرد کیا گیا، وہ یہ تھا کہ کیا ریموٹ کے ذریعے کو سوں دور کسی شخص کے دماغ کو اس حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے، کہ وہ جاسوسی یا تخریبی کام انجام دے سکے۔ سی آئی آے کے ایک سابق ریسرچر کارل روز بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک تجربہ دو خواتین پر کیا گیا۔ ا ن سے ان کے علم کے بغیر ایک جگہ ایک بم نصب کروایا گیا۔1974ء میں سٹینفورڈ ریسرچ ادارہ نے ایسا کمپیوٹر سسٹم ایجاد کیا تھا، جس سے نہ صرف دماغی خلیوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، بلکہ ایک فاصلے سے دل کی کارکردگی کو بھی متاثر کیا جاسکتا ہے۔
اس کالم کا مقصد عآپ یا اس جیسی انقلابی جماعتوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنا نہیں، مگر فرسودہ نظام کے ذریعے ان کو 'کوآپ‘ اور شریک کار بنانے سے خبردارکرنے کا ہے۔ اقتدار ملتے ہی جس طرح کی اٹھا پٹک عآپ میں ہوئی ہے اس سے اس خدشہ کو تقویت پہنچتی ہے، کہ درپردہ کجری وال کو اصول و اخلاقیات سے بری کرواکے ان کو روایتی سیاستدانوں کے قبیل میں شامل کروا نے کی سعی کی جارہی ہے۔ الیکشن اور اور اس کے بعد کے کجری وال میں بہت فرق آگیا ہے۔ ان کے اس بدلتے تیور سے سب حیران و پریشان ہیں۔ ان کی تقریروں میں اب تکبر صاف جھلکتا ہے۔ نیشنل کونسل کی تقریر میں انہوں نے ممبران کے سامنے اپنے احسانات جتائے، اپنی بھوک ہڑتال یاد دلائی۔ انہوں نے واقعی پارٹی کواس مقام تک پہنچانے میں محنت کی، مگر پارٹی کاسرمایہ اس کا نظریہ ہوتا ہے۔ پرشانت بھوشن اور یوگندر یادو اس نظریہ کا امین تھے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ دائیں بازو کے کچھ انتہا پسند گروپوں نے کئی برس قبل بھوشن کے چیمبر پر حملہ کرکے ان کو سخت زد و کوب کیا تھا، کیونکہ انہوں کے کشمیر میں انسانی حقوق اور کشمیری عوام کے سیا سی حق رائے شماری کی وکالت کی تھی۔ اسمبلی میں واضح اور قطعی اکثریت کے بل پر کجری وال کی حکومت اپنے پانچ سال تو پوری کرے گی، مگر اب عآپ روح سے خالی ہوگئی ہے۔ جو لوگ سمجھ رہے تھے، کہ بھارتی سیاست میں ایک انقلاب آئے گا اور ایک متبادل سیاسی نظام کی راہ ہموار ہوگی، کجری وال کے تیور سے وہ ششدر اور مایوس ہیں۔ اور کسی اور مسیحا کا اب انتظار کرنے پر مجبور ہیں ، جو نہ صرف ارض خدا کے کعبے سے بت اٹھوائے گا، بلکہ حکمران کی ساحری کا بھی کوئی توڑ کرنے میں کامیاب ہوگا۔