سرحد پر فائرنگ کے تبادلوں، پنجاب کے گورداس پور اورجموں و کشمیر کے ادھم پور ضلع میں حالیہ جنگجویانہ حملوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فضا ایک بار پھر مکدر کر دی ہے۔لگتا ہے قومی سلامتی مشیروں کی مجوزہ ملاقات سے قبل کسی ایجنڈے کے تحت کشیدہ فضا تیارکی جا رہی ہے تاکہ بنیادی مسائل کے بجائے دونوں ممالک کے مذاکرات کاروں اور میڈیا کو فروعی مسائل میں الجھاکر رکھا جائے۔دہشت گردی یقیناً ایک ایسی بیماری ہے جس کو جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔ ممبئی جیسے حملوں کی روک تھام کے لئے تعاون کے ساتھ ساتھ مسائل کی جڑکو بھی مخاطب کرنا ضروری ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سکیورٹی کے سا تھ سیاسی سطح پر بھی مسائل کے حل خلوص نیت کے ساتھ تلاش کئے جائیں۔اس سلسلے میں اس صدی کی سب سے بڑی مثال برطانیہ ، شمالی آئر لینڈ میں سرگرم عسکری گروہ آئرش ری پبلکن آرمی اور ری پبلک آف آئر لینڈکے درمیان ہوئے سہ فریقی معاہدے کی ہے، جس نے سات صدیوں پر محیط برطانوی اور آئرش چپقلش کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔کشمیر کی طرح کبھی شمالی آئرلینڈ بھی بوٹوں کی دھمک سے گونج رہا تھا۔ آئرش آرمی نے لندن تک میں برطانوی شہریوںکا جینا دوبھرکر دیا تھا، مگر آج کل اس خطے میں اگر آپ ڈبلن سے بلفاسٹ سفرکر رہے ہوں تو راستے میں اگر آپ کو ''خوش آمدید شمالی آئر لینڈ‘‘ کا بورڈ نظر نہ آئے تو آپ کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کب سرحد عبورکی۔
حال ہی میں بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل جسبیر سنگھ بُھلّر نے پنجابی میں ایک یادداشت تحریر کی ہے جس کے کچھ اقتباسات ہندی میں شائع ہوئے ہیں۔ غالباً 1959ء میں جب وہ ایک جونیئر کیپٹن تھے، ان کی پوسٹنگ کشمیر کے کسی دور افتادہ علاقے میں ہوگئی۔ اب کنٹرول لائن پر بہت گھنی اور مضبوط کانٹے دار تار بچھی ہے لیکن چالیس پینتالیس سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ بہت جگہ یہ لائن کاغذوں میں تو تھی مگر زمین پر اس کا کوئی نام نشان نہیں تھا۔ایک دن انہیں حکم ملا کہ فوج کی ایک ٹیم کے ساتھ لمبے گشت پرجانا ہے۔1971ء کی جنگ ابھی دور تھی مگر شاید اس کی تیاری کے سلسلے میں جسبیر سنگھ کی یونٹ کو حکم ہوا تھا کہ گشت کے دوران دیکھیں کہ فوجی حفاظت کے لئے کیا انتظامات ضروری ہوسکتے ہیں۔ ان کے ساتھی کیپٹن ایمان کے ذمہ تھا کہ سرحد پر بسے لوگوں کی حرکات اور ان کے ارادوں کے بار ے ایک رپورٹ لکھیںکہ وہ سرحد پار والوں سے کس طرح کا رابطہ رکھتے ہیں اور اس کا سد باب کیسے ہوسکتا ہے۔کرنل صاحب کے بقول وہ کل 13 لوگ تھے۔ ٹیم کا لیڈر کیپٹن ایمان ان کا ہم رتبہ تھا، اس لئے ان میں دوستی تھی۔ ہر فوجی نے اپنا اپنا سامان پیٹھ پر باندھ لیا تھا۔ راستہ گھنے جنگلوں سے ہو کر جاتا تھا۔ تین دن کے بعد انہیں انسانی آبادی کی نشانیاں نظر آنے لگیں۔ان کے نقشے کے مطابق یہ بھارت کے زیر انتظام جموں اورکشمیر کا آخری گائوں تھا۔کچھ دیر بعد گائوں والے بھیڑیں چَرا کر واپس آئے۔ فوجیوں نے ایک شخص سے درخواست کرکے ان کا چولہا استعمال کیا۔اس گھر کے مالک پیر بخش سے ذرا کھل کر باتیں ہونے لگیں۔ہم نے بتایا کہ ہمارے نقشے کے مطابق یہ گائوںبھارت کا آخری گائوں ہے اور پوچھا کہ یہاں سے سرحد کتنی دور ہے؟پیر بخش نے جواب میں حیرت سے سوال کیا، سرحد کیا ہوتی ہے؟صوبیدار منگت رام نے وضاحت کی کہ صاحب کا مطلب ہے کہ دشمن کدھر ہیں، لیکن پیر بخش کو اب بھی کچھ پلے نہ پڑا ۔بولا، دْشمن ! کون دشمن؟ میں نے خلاصہ کیا،ادھر پہاڑ کی دوسری طرف کے گائوں والے۔اس نے سادگی میں کہا وہ دشمن تھوڑے ہیں، وہ تو ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ پیر بخش کی بیوی بولی ادھر تو ہماری بیٹی بیاہی ہے، ہم اکثر بھیڑیں لے کر اْدھر چلے جاتے ہیں اور اپنی بیٹی سے مل آتے ہیں۔کیپٹن ایمان نے بات کو صاف کرنے کے لئے کہا: آپ کو پتا ہے کہ وہ دوسرا ملک ہے؟ پیر بخش، جیسے اس کی غلطی کو درست کرتے ہوئے، بولا:''دوسرا ملک نہیں جی دوسرا گائوں کہو۔ ایک ہی راجے کے دو ملک کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘ یونٹ نے سونے کے لئے کوئی جگہ پوچھی تو پیر بخش انہیں ایک سکول میں لے گیا جس کا ایک ہی کمرہ تھا اوراس کی کھڑکی اور دروازے پر پلّا نہ تھا۔ جسبیر سنگھ خوش ہوئے چلو سکول ما سٹر سے ہی کچھ استفسار کرتے ہیں۔ انہوں نے پیر بخش سے پوچھا سکول ماسٹرکہاں رہتا ہے؟ وہ بولا، ماسٹرجی باہر سے آتاہے۔ان کادوسرا سوال تھا ،کیا وہ کل مل سکتا ہے تو پتا چلا کہ وہ تو سال میں دو یا تین بارآتا ہے اورکچھ دِن رک کربچوں کو پڑھا جاتا ہے۔
سرحد کے آخری سرے پر بسے اس گائوں میں تھوڑے ہی گھر تھے جو ایک دوسرے سے کافی دور تھے۔ زیادہ تر لوگ کھیتی کرتے اور بھیڑیں پالتے تھے۔اپنا مال چَرانے کے لئے وہ اکثر دور تک جاتے،گھروں کو باہر سے بند کر تے لیکن تالے نہیں لگاتے تھے کیونکہ وہاں کوئی چوری چکاری نہیں ہوتی تھی۔ لوگ کئی دنوں بعد گھر لوٹتے تو انہیں ہر چیز وہیں ملتی جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔ ہم تین دِن اْسی گائوں میں رہے۔ خالی گھروں میں گھومتے رہے لیکن وہاںکسی دشمن کا سراغ ملا نہ دشمنی کی کوئی بات سنی۔ اگلے دن صبح فوجیوں کو ایک جگہ چھوڑکر میں اورایمان گائوںکا چکر لگانے نکل پڑے۔تھوڑی دیر بعد صوبیدار منگت رام بھی ہمارے ساتھ آ ملا۔ ہم تینوں جا رہے تھے کہ ایک گھر کے باہر ایک بزرگ سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ ہم سے پہلے ہی اس نے کہا، کل پیربخش ملا تھا اور آپ کے بارے میں بتا رہا تھا۔ آپ ہندوستان سے آئے ہیں؟ ہم اس سوال سے پریشان ہو گئے کہ کہیں ہم سچ مچ پاکستان کے علاقے میں تو نہیں آگئے۔ خیر ہم نے ہاںکہہ دی تواسے کوئی فرق نہ پڑا۔
صوبید ار منگت رام فوجیوں میں واپس چلا گیا لیکن سنگھ اور ایمان بوڑھے سے گپ شپ کر نے وہیںرْک گئے۔''ہم سوچ رہے تھے کہ اس سے ہمیں خفیہ سراغ مل سکتے ہیں۔ وہ ہمیں گھر کے اندر لے گیا جس کے ایک کنارے میں رسوئی تھی۔ اس کی بیوی اور بہو کھانا بنا رہی تھیں۔ بوڑھے نے چارپائیاں لگا کر ان پر اپنی میلی دریاں بچھا دیں۔ ہم چارپائیوں پر آرام سے بیٹھ گئے۔ بوڑھے کو دنیا بھر کی جانکاری کی تمنا تھی۔ پوچھا، آج کل ہندوستان کا بادشاہ کون ہے؟اس کا یہ سوال پہلے کی طرح ہمیں چکر میںڈال گیا۔ میں نے کچھ دیر سوچ کر اس وقت کے صدر وی وی گری کا نام لیا۔ بڑے میاں نے کہا لیکن یہ نام تو میں نے پہلے کبھی نہیں سنا ، یہ ہندوستان کا راجا نہیں ہو سکتا۔ میں نے کہا نہیں بابا یہی راجہ ہے۔ کیپٹن ایمان نے بھی میری تائید کر کے اسے یقین دلایا کہ ہم سچ بول رہے ہیں۔ وہ الٹا پوچھ بیٹھا تو پھر جواہرلال نہرو کون ہے؟ ہم نے اس سے کہا چاچا نہرو تو وزیر اعظم تھا اور اس کو مرے کئی سال ہوگئے ہیں۔ بوڑھے کو ہماری باتیں جھوٹ لگ رہی تھیں۔ بوڑھے نے پھر پوچھا کہ آج کل مہاراجہ کہاں رہتا ہے؟اس سوال سے ہم نے سوچا بوڑھا تو ریاستوں کے زمانے میں ہی ابھی گھوم رہا ہے۔ اس کو شاید پتا نہیں کہ ریاستیں کب کی ختم ہو چکی ہیں ۔ہم نے از راہ تمسخر کہا کہ مہاراج تو شاید دلی میں
ہیں۔ اس نے قدرے تاسف سے کہاتو پھر مہاراجہ کا دربار توویران ہوگیا ہوگا، خزانے بھی خالی ہوںگے۔ بوڑھے میاںسے اتنے سوال جواب کے بعد ہمیں اور کچھ اور بولنے کی ضرورت ہی نہ تھی‘‘۔
واپس پلٹن میں پہنچ کر دونوں کیپٹن سوچ رہے تھے کہ رپورٹ میں کیا لکھیں کیونکہ اس گائوں کے لوگوں کا نہ تو کوئی ملک ہے اور نہ ہی وہ کسی سرحد کو جانتے ہیں۔ وہ بلا جھجک کنٹرول لائن کے آر پار آتے جاتے ہیں، وہاں ان کی رشتے داریاں اور دوستیاں ہیں۔ یہ لوگ توان پرندوں کی طرح تھے جو اْڑ کر کہیں بھی جا سکتے تھے۔ ان کے لئے کوئی لائن کی بندش تھی نہ کسی ملک کی لکیریں۔ جس دشمنی کی بو فوجی یونٹ سونگھنے آیا تھا اس کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں تھا۔کیپٹن ایمان ایک چٹان سے ٹیک لگائے اپنے بیگ سے کاپی نکال کر رپورٹ کا خاکہ تیارکر رہا تھا۔ سنگھ کے بقول انہوں نے ہنس کر ایک کورا کاغذ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: یہ رہی میری رپورٹ ۔ بہرحال کیپٹن ایمان کی رپورٹ سے افسروں کو کچھ شک شبے کی بُو سی آئی، ان کو لگا کہ ایمان نے جان بوجھ کر اپنے ہم مذہبوں کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔ لمبی گشت کی رپورٹ لکھتے وقت ایمان کے سامنے بڑی فکر اس کے مسلمان ہونے کی تھی۔کرنل صاحب کے بقول شاید اس و قت وہ ایمان کے درد کو محسوس نہیںکر سکے مگر وہ اس واقعے کو کبھی نہیں بھول سکے۔ ہم دور کے گائوں میں دشمنی کی بو تلاشنے گئے تھے مگر در اصل وہاں کے لوگ حقیقی انسان تھے، بھید بھائو سے پاک۔ان کو ہماری عنادی تہذیب نے ناپاک نہیں کیا تھا۔ وہ فرشتوں کی سرزمین تھی۔
کیا بھارت اور پاکستان کی سرحدیں ایسی نہیں بن سکتیں جو فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے امن اور استحکام کی گزرگاہیں ہوں۔ جب برطانیہ اور آئر لینڈسات سو سالہ دشمنی دفن کرسکتے ہیں تو ہم بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کو حل کی طرف گامزن کرکے کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟یہ سوال تا حال جواب کا منتظر ہے۔