"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت : مردم شماری‘ فرقہ پرستوں کا نیا ہتھیار

پورے پانچ سال بعد بھارتی حکومت نے 2011ء میں کی مردم شماری کی بنیاد پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی آبادی کے اعدادوشمار جاری کئے ہیں۔ یہ بات تقریباً طے تھی، کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اس رپورٹ کو ایسے وقت جاری کرے گی، جب اس سے کسی سیاسی فائدہ ملنے کی امید ہواور یہ گنجائش فی الحال اکتوبر اور نومبر میں ملک کے دوسرے بڑے صوبہ بہار میںہونے والے صوبائی انتخابات نے پوری کردی جہاں وزیر اعظم کا سیاسی وقار دائو پر لگا ہوا ہے۔اس رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی، فرقہ پرستوں نے مسلم آبادی کے اضافے پر واویلا مچانا شروع کردیا ہے کہ ہندو بہت جلد اس ملک میں اقلیت میں آ جائیں گے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مردم شماری کے مطابق بھارت کی ایک ارب اکیس کروڑ کی مجموعی آبادی میں ہندوئوںکی تعداد96کروڑ 60 لاکھ ہے، جبکہ مسلمان17کروڑ22 لاکھ، عیسائی دوکروڑ 70 لاکھ اور سکھ ایک کروڑ 9 لاکھ ہیں۔ اب اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی شامل کیا جائے، تب بھی مسلمان ہندوئوں کی 96کروڑ کی تعداد سے کوسوں دور ہیں۔یہ بات صحیح ہے کہ ہندو آبادی کا تناسب2001ء میں80.5فیصدتھا، جو دس سال بعد 79.83 فی صد ہے۔ مسلمانوں کا تناسب13.4 فی صد سے بڑھ کر 14.23 فی صدہو گیا ہے۔ہندو آبادی میں دس سالوں میں 14کروڑ نفوس کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ مسلم آبادی میں اسی مدت کے دوران4کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔نہات ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت نے مذہبی شماریات تو جاری کئے، مگر ذات پات پر مبنی اعداد و شمار خفیہ رکھے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کی ایک وجہ ہندو اعلیٰ ذاتوں کی آبادی کی شرح میں مزید کمی آنا ہے‘جو پچھلے اعداد وشمار کی بنا پر کل آبادی کا محض 15فی صد ہیں۔
مردم شماری کے اعداد شمارکو لے کر میڈیا نے یہاںمسلمانوں کی آبادی بڑھ جانے کو شہ سرخی بنایا۔ ہندو انتہا پسند اراکین پارلیمان یوگی آدتیہ ناتھ، ساکھشی مہاراج اور دیگر تنظیمیں شیو سینا، وشوا ہندو پریشد، میدان میں نکل پڑیں ۔ کئی تنظیموں نے تو ہندوئوں کوزیادہ
بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کیلئے انعامات تک کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی شرح افزائش میں پانچ فیصد کمی آئی ہے۔ان لیڈران نے تویہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کیلئے دوسری شادی کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ مگر یہ دلیل عقل سے عاری ہے،اس لئے کہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ایک ہزار مسلم مردوں پر 951خواتین ہیں۔ اس لئے اگر ایک مرد کا ایک خاتون سے نکاح ہورہا ہے، تویہی بہت ہے۔غور سے دیکھا جائے تو ہندوئوں کی آبادی میں بھی کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس میں بیرون ملک میں جاکر آباد ہونے والے قریبا دو کروڑ ہندووں کی تعداد کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس عرصہ میں ایک کروڑ 80لاکھ سے زائد لڑکیاں رحم مادرمیں یا پیدا ہونے کے بعد مار دی گئیں جن کا ذکر خود مردم شماری کی ابتدائی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں ہندو دھرم کے خلاف ملک میں مختلف تحریکیں چل رہی ہیں‘ ان سے وابستگان اب مردم شماری کے مذہب کے خانہ میں خود کو ہندو نہیں لکھواتے ۔ مردم شماری رپورٹ کے مطابق 2001 ء سے 2011 ء کے درمیان ہندو ئوں کی شر ح پیدائش 16.76 فی صد رہی جبکہ مسلمانوں کی 24.6 فی صد ۔ اس سے پیشتر دہائی میں دونوں ہی فرقوں کی شرح افزائش زیادہ رہی جو بالترتیب 19.92 فی صد اور 29.52 فی صد ہے ۔ تاہم ماہرین کی رائے ہے کہ شرحوں میں یہ فرق بہت جلد ختم ہوجائے گا۔ ممبئی کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز سے وابستہ پروفیسر اروکیا سامی کہتے ہیں کہ تعلیم کا فروغ اور بڑھتی ہوئی خاندانی ضروریات و خواہشات کا اثر شرح پیدائش پر پڑتا ہے اور یہ رجحان تمام مذہبی فرقوں میں مشترک ہے۔ اس سلسلہ میں وہ کیرالہ کی مثال پیش کرتے ہیں جہاں مسلمانوں میں شرح پیدائش نہ صرف ریاست کے ہندوئوں کے بلکہ شمالی ہند کے تمام مذہبی فرقوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ صنفی تناسب کے معاملہ میں اسلام کی تعلیمات کی برکت سے مسلمانوں میں دیگر فرقوں کے مقابلے میں خواتین کی حالت قدرے بہترہے۔ اس کا عکس آبادیاتی رپورٹ میں بھی نظر آتا ہے۔ مسلمانوں میں صنفی تناسب بھی گزشتہ عشرہ کے مقابلے میں مزید بہتر ہوا ہے۔ مسلمانوں میں فی ہزار مرد کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 936 سے بڑھ کر951 ہوگئی ہے۔ جبکہ ہندوئوں میں یہ تناسب فی ہزار پر 931 سے بڑھ کر 939 ہوا ہے۔
چونکہ ہندو توا کی علمبردار اور فرقہ پرست قوتیں محض مفروضوں کی بنیاد پر پروپیگنڈا مہم چلاتی ہیں ۔ پس ، انہوں نے واویلا مچانا شروع کردیا کہ ہندو دھرم خطرے میں ہے اور یہ کہ مسلمان آبادی جلد ہی غالب آجائے گی‘ وغیرہ وغیرہ۔ وشوا ہندو پریشد کی سادھوی پراچی نے‘ جو پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھتی ہے، چند ماہ پہلے یہ اشتعال انگیز بیان دیا تھاکہ مسلمان ''40 بچے ‘‘ روزانہ پیدا کرتے ہیں اور ہر ایک کاکام بھارت کو دارالاسلام میں تبدیل کرنا ہے ‘‘۔ پسماندہ طبقات کے افراد کو استعمال کرنا فرقہ پرستوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔مسلمانوں کی آبادی غالب آجانے کا مفروضہ فرقہ پرستوں کا پرانا اور آزمودہ حربہ ہے ۔ بطور مثال گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کے لئے قائم کئے گئے ریلیف کیمپوں کو نریندر مودی نے جب وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے ،'بچے پیدا کرنے والی فیکٹریوں‘ "baby-producing factories". سے تعبیر کیا تھا۔ وہ اسمبلی انتخابات کی مہم میں ' ہم
پانچ اور ہمارے پچیس‘ کا نعرہ بھی بلند کیا کرتے تھے ۔ مگر یہ ہندو تنظیمیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کہ ہندو ئوں کی شرح پیدائش میں جو کمی آئی ہے، اس کی بنیادی وجہ دختر کشی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نسل عورت سے بڑھتی ہے، نہ کہ مرد سے۔بھارت کی متمول ریاست ہریانہ میں دختر کشی کی وجہ سے گائوں کے گائوں خواتین سے خالی ہیں۔حالت اتنی ابتر ہے کہ دیگر ریاستوں بہار اور بنگال سے دلہنیں خرید کر لائی جاتی ہیں اور کئی جگہوں پر تو بچے پیدا ہونے کے بعد طلاق دے کر افراد خانہ یا گائوں کے کسی دیگر فرد کے ساتھ شادی کرائی جاتی ہے۔ یہ خریدی ہوئی دلہن اپنی عزت نفس بیچ کر بچے پیدا کرنے کی مشین کے طور پر ہی زندہ رہتی ہے۔بھارت میں رحم مادر میں لڑکی کو مار دینے کا مذموم فعل وبائی شکل اختیا ر کر گیا ہے۔ خود مردم شماری 2011 ء کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 18ملین یعنی ایک کروڑ 80لاکھ لڑکیوں کو 15 سال کی عمر سے پہلے ماردیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسف نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ 60برسوں میں بھارت میں 50ملین یعنی پانچ کروڑ بچیوں کو پیدا ہونے سے قبل قتل کردیا گیا۔ ایک اور اہم قابل غور نکتہ یہ ہے کہ دلتوں اور قبائلیوں کے متعدد افراد علانیہ طور پر کہتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔ ان میں سے متعدد افرادنے اپنی مذہبی شناخت ہند و نہیں بتائی ہوگی۔ اسی طرح شمالی کرناٹک اور اس کے اطراف میں واقع لنگائیت آبادی خود کو ہندوئوں سے الگ مذہبی فرقہ قرار دیتی ہے ۔ چند دن قبل دارالحکومت دہلی میں پریس کانفرنس میں لنگائیت فرقہ کے مذہبی رہنما سری بسوا جئے امرتونجئے نے کہا تھا کہ ان کے فرقہ کا برہمن یا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کا فرقہ عرصہ سے مطالبہ کررہا ہے کہ اُنہیں ہندو دھرم سے ایک علیحدہ دھرم تسلیم کیا جائے‘ جیسا کہ
انگریز حکومت نے آزادی سے پہلے کیا تھا ۔ سری بسوا سوامی کا دعوی ہے کہ لنگائیت دھرم کے ماننے والوں کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ ہے۔اسی طرح مہاراشٹر میں شیو دھرم کے‘ جسے وہ شیواجی مہارج سے منسوب کرتے ہیں، ماننے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہور ہا ہے جو خود کو ہندو دھرم کا حصہ نہیں مانتے۔یہی مطالبہ اب کچھ عرصے سے پاکستان سے منتقل ہوئے سندھی بھی کرتے ہیں۔ سندھی سماج کے ایک لیڈر شری کانت بھاٹیہ کا کہنا ہے، کہ ان کا ہندو دھرم یا برہمن ازم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے، کہ سندھی ، بھگوان رام نہ ہی بھگوان شیو کے پیروکار ہیں۔ ان کے پیر و مرشد جوہے لال ہیں،جو اعلیٰ ہندو ذاتوں کی برتری کے مخالفین میں سے ہیں۔ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی گھر واپسی مہم کے ردعمل میں کئی سماجی تنظیموں نے جوابی مہم شروع کی ہے۔ دلتوں اور قبائلیوں کے کئی طبقات ایسے ہیں جو خودکو ہندو کہلانا پسند نہیں کرتے ۔ سرکاری مراعات جیسی سرکاری ملازمتوں ، تعلیم اور سیاسی میدان میں ریزرویشن کے لالچ کے ذریعہ ا نہیںہندو دھرم میں باندھ کر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ آنجہانی کانشی رام اور دلت سرکاری ملازمین کی ملک گیر تنظیم کے صدر وامن میشرام تو برملا کہتے ہیں دلت ہندو نہیں ہیں اور وہ تو اس بات کی بھی تبلیغ کرتے ہیںکہ ملک کو ہندوستان کے نام سے نہ پکارا جائے ۔قبائلیوں نے اپنا پرسنل لاء بھی تیار کرلیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم علیحدہ فرقہ ہیںجن کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں مگر انہیں مذہب کے خانہ میں ہندو زمرہ میں ڈالا جاتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے، کہ بھارت میں شمال مشرقی صوبہ آسام میں مسلمانوں کاتناسب سب سے زیادہ یعنی 34.22 فیصد ہے جہاں پچھلے دہے میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔اس کے بعد اتراکھنڈ اور کیرالہ کا مقام ہے۔ جموں و کشمیر میں جہاں1.25کروڑ آبادی درج کی گئی ہے،مسلم آبادی85.67لاکھ (68.36فی صد) ، اور ہندو35لاکھ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں