"IGC" (space) message & send to 7575

کیرالا کے انتخابات اور مسلمان

چند سال قبل مجھے کچھ چنیدہ صحافیوں کے ساتھ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا۔ ملکی حالات پر غیر رسمی بات چیت اور اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت کی روح صرف بھارت کی انتہائی جنوبی ساحلی ریاست کیرالا میں ہی رواں دواں ہے، دیگر علاقوں میں اس کو استحصالی طبقات نے آلودہ کرکے رکھ دیا ہے، کہیں خاندانی راج ہے اورکہیں دولت مندوں اور صنعتکاروں کے زیر اثر اسمبلیاں بنتی بگڑتی ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ کیرالا واحد صوبہ ہے جہاںکے کانگریسی لیڈرکبھی ان کے پاس دہلی دوڑتے چلے نہیں آتے، بلکہ اپنے مسائل خود ہی سلجھا لیتے ہیں۔ وہاںکانگریس کی مرکزی کمان اپنا کوئی امیدوار نہیں تھوپ دیتی کیونکہ اس صوبے کے لیڈر یورپی ممالک کی طرز پر انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدوں تک پہنچتے ہیں اور وہ پارٹی ہائی کمان سے زیادہ عوام اور ورکروںکے سامنے جوابدہ رہتے ہیں۔
کیرالا صوبے میں اس وقت انتخابات ہور ہے ہیں اس لئے اس کالم میں اسی کا ذکرکرنا مناسب ہوگا جو اپنے قدرتی حسن‘ نیلگوں اور چمکدار آسمان‘ قدرتی جھیلوں، آبی گذرگاہوں اور آیور ویدک مساج کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ غالباً جنوبی ایشیا کا واحد خطہ ہے جہاں مساجد میں جوتے چوری نہیں ہوتے، آپ بے فکر ہوکرخشوع و خضوع کے ساتھ اللہ سے لو لگا سکتے ہیں۔ شاید انہی خوبیوںکی وجہ سے کسی نے اس خطے کو God's Own Country قرار دیا ہے۔ اگرچہ مورخین نے سندھ کو باب الاسلام کے درجہ سے نوازا مگر جنوبی ایشیا میں اسلام سب سے پہلے کیرالا ہی پہنچا تھا۔ 
بر صغیر کی اسی ریاست میں پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔ ایک تاریخی روایت کے مطابق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعدکرۂ ارض کے کسی حصے پر پہلی مسجد 632ء میں مالابارکے راجہ چیرامن پیرومل نے کوڈنگالور میں تعمیرکرائی تھی۔ اسی مسجدکا ماڈل حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی فرمانروا کو اپنے دورہ کے دوران تحفہ میں دیا۔ بھارت کی دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہاں شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان کوئی تفاوت نظر نہیں آتا۔ ریاست کا رقبہ تقریباً 39 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے یعنی یہ ملک کی سب سے گنجان ریاست ہے جہاں فی مربع کلو میٹر میں تقریبا 750 افراد رہتے ہیں۔ پوری آبادی کو نیم شہری کہا جاسکتا ہے۔ یہ علاقہ تین بڑے مذاہب کا گہوارہ ہونے کے باوجود مثالی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مشہورہے۔یہاں ہندو‘ مسلمان‘ عیسائی اور دیگر فرقے صدیوں سے باہم شیر و شکر ہوکر رہ رہے ہیں۔دیگر علاقوں کی طرح یہاں ہندوئوں اور مسلمانوں کی الگ الگ بستیاں نظر نہیں آتیں۔ تاریخی اعتبار سے کیرالا کے عرب دنیا سے رشتے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ سے پہلے کے قائم ہیں۔ مورخین اور خود مالا بارکے راجہ چیرامن پیرمل کے مورث 87 سالہ راجہ ویلیا تپورم کے بقول چیرامن پیرمل نے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور ان کا نام تاج الدین رکھا گیا تھا۔ ریاست میں یہ روایت شہرت عامہ کی حامل ہے کہ راجہ پیرمل کھانا کھانے کے بعد اپنے محل کی چھت پر ٹہل رہے تھے کہ انہوں نے شق القمرکا معجزہ دیکھا۔ چند ماہ بعد صحابی رسول ﷺ مالک بن دینارؓ کے ہمراہ عرب تاجروں کا ایک جہاز بھٹک کر یہاں کے ساحل پر پہنچا تو راجہ نے عرب مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کی، انہیں معجزے کا واقعہ سنایا اور آقائے نامدار حضرت محمدﷺ سے ملنے کی خواہش ظاہرکی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عرب تجارکے ہمراہ مکہ گئے لیکن واپسی میں بیمار پڑگئے اور عمان میں ان کا انتقال ہوگیا جہاں سلالہ کے مقام پر انہیں دفن کر دیا گیا۔ان کی قبر وہاں موجود ہے۔ راجہ نے حضرت مالک بن دینارؓ کی ڈنگالور میں مسجد تعمیرکرانے میں پوری مدد کی تھی۔ یہ مسجد چیرامن مالک مسجدکے نام سے مشہور ہے۔ ساتویں صدی کے اوائل میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ حضرت مالک بن دینارؓ نے اپنے بیٹے حبیب دینارکو یہاںکی ذمہ داری سونپ کر منگلورکا رخ کیا اور راستے میں مزید بارہ مساجد اسی ڈیزائن کی تعمیرکیں۔ ان کا انتقال یہیں ہوا اور وہ قصرگوڑ میں مدفون ہیں۔
مورخین کہتے ہیںکہ عربوںکے کیرالا پرگہرے اثرات ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اثر لباس ہے۔ عرب تاجروںکی آمد سے قبل یہاں مرد اور عورتیں کپڑے استعمال نہیں کیا کرتی تھیں، عربوں کے اثر یہاں لباس کا رواج شروع ہوا۔ ان کی مادری زبان ملیالی میں عربی زبان کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ عربی تہذیب کا اثر آج بھی نمایاں ہے، لاکھوں ملیالی باشندے بلا تفریق مذہب و ملت عربی سیکھتے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد خلیج کے ملکوں میں بر سر روزگار ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی میں ہندوئوںکا تناسب 56 فیصد مسلمانوںکا 25 فیصد اور عیسائیوںکا 19فیصد ہے۔ بھارت میں مسلم آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہ ریاست جموں وکشمیر اور آسام کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ ریاست کے متعدد مقامات پر آپ کو مندر سے متصل مسجد اور چرچ نظر آئیں گے۔ ریاست میں ابھی تک فرقہ وارانہ خطوط پر الگ الگ بستیاں بسانے کا کوئی رجحان نہیں ہے، یہاں تک کہ بالعموم نام کی بنیاد پر کسی کے مذہب کی شناخت بھی نہیں کی جاسکتی۔ سنیل نام کا نوجوان باعمل مسلمان اور سلیم کسی ہندوکا نام ہوسکتا ہے۔ 
حال ہی میں ہندو فرقہ پرستوں نے اس ریاست میں اپنے قدم جمانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیزکردی ہیں؛ تاہم ریاست کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک فرقہ پرست جماعت کا کوئی امیدوار صوبائی اسمبلی یا پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہیں ہوا۔ مگر بد قسمتی سے اب صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ ہندو فرقہ پرست عناصر اس بہانے سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیںکہ ریاست کا ساحل قومی سلامتی کے لحاظ سے محفوظ نہیں رہا۔ چونکہ یہاں مسلمان زیادہ آباد ہیں، لہٰذا ملیالی زبان کے مقامی اخبارات میں آئے دن یہ خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ پاکستان کے جاسوس جہاز اورکشتیاں ساحل پر لنگر انداز ہورہی ہیں۔ یہ خبریں بھی تراشی جاتی ہیں کہ مسلم اکثریتی ضلع ملاپورم میں پاکستانی خفیہ ایجنسی اپنے پائوں جما رہی ہے اور وہاںکے مسلمان، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔اس پروپیگنڈا کے منفی اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں۔
یاد رہے کہ کیرالا کے مسلمان شمالی بھارت کے مسلمانوںکے برخلاف آزادی کے بعد سے ہی اپنی سیاسی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی اس طاقت کا سرچشمہ انڈین یونین مسلم لیگ رہی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ کا احیاء یہیں سے ہوا جس کے روح و رواں مولوی محمد اسماعیل اور ابراہیم سلیمان سیٹھ تھے۔ مسلم لیگ کی کیرالا شاخ کو مسلمانوںکی واحد سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جسے علاقائی سطح پر الیکشن کمیشن نے ایک مسلمہ سیاسی جماعت کا درجہ دیا ہے۔ بھارت کی سابق من موہن سنگھ حکومت میں شامل وزیر مملکت برائے خارجہ ای احمد آزادی کے بعد پہلے مسلم لیگی لیڈر تھے جنہیں مرکزی حکومت میں شامل کیاگیا۔ اس کے ایک رہنما سی ایچ محمدکویا ریاست کے مختصر عرصے کے لیے وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ 141 رکنی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے عموما 16سے22 ارکان منتخب ہوتے رہے ہیں۔ جنوبی بھارت کے برعکس یہاں ابھی تک موروثی سیاست کا عمل دخل نہیں ہے۔ سیاست میں یہاں کانگریس کی قیادت والا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ یعنی یو ڈی ایف ہے جو فی الحال پاور میں ہے۔ اپوزیشن بائیں بازوکی پارٹیوں پر مشتمل لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) ہے۔ یہی دو اتحاد بار ی باری حکومت سنبھالتے ہیں۔ مسلم لیگ یو ڈی ایف کا ایک اہم حصہ ہے۔کانگریس کے بعد سب سے زیادہ نشستیں اسی کے حصے میں آتی ہیں۔ ریاست کے مسلمانوں میں اب کئی دوسری تنظیموں نے بھی اب اپنی جگہ بنالی ہے، ان میں جماعت اسلامی ہندکی حمایت یافتہ سالیڈیریٹی یوتھ فرنٹ‘ بابری مسجد کے انہدام کے مسئلہ پر مسلم لیگ سے الگ ہونے والی مرحوم ابراہیم سلیمان سیٹھ کی انڈین نیشنل لیگ اور محروم لیڈر عبدالنذیر مدنی کی پیپلزڈیمو کرٹک پارٹی قابل ذکر ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی ہندکی کیرالا شاخ نے بائیں بازو کے محاذ کی حمایت کی تھی۔ غالباً یہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پہلا موقع تھا کہ جماعت نے کمیونسٹوںکی حمایت کی۔ اس بار بھی مسلم لیگ کے بغیر دیگر مسلم تنظیمیں بائیں بازو کے محاذ کی حمایت کر رہے ہیں، جس کے حکومت میںآنے کے قوی امکانات ہیں۔ 
غالباً کیرالا واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوںکا اپنا طاقتور میڈیا بھی موجود ہے۔ ملیالی زبان میں شائع ہونے والا روزنامہ ''مادھیہ مم‘‘ کئی مقامات سے بیک وقت شائع ہوتا ہے اور یہ ریاست کے بڑے اخباروں میں شمار ہوتا ہے، خلیج کے کئی ممالک سے بھی اس کے ایڈیشن نکل رہے ہیں۔ اگرچہ ریاست کے مسلمانوں کی مادری زبان ملیالی ہے لیکن انہیں عربی کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی لگائو ہے، وہ ملک میں مسلمان برادران سے تہذیبی رشتہ بر قرار رکھنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ریاست کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے سماجی شعبوں میں اعلیٰ معیار قائم کیاہے۔ ریاست قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، یہ بھارت کی 90 فیصد ربر‘70 فیصد ناریل اور 60 فیصد لیمن فراہم کرتی ہے، اس کے باوجود صنعتی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہے۔ سماجی ترقی کے لحاظ سے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کیرالا ماڈل یا کیرالا رجحان کی اصطلاح عام استعمال کی جاتی ہے۔ سماجی شعبے میں اس ریاست نے کئی ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔کیرالا میں فی ہزارخواتین میں شرح پیدائش14ہے جو اب تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ بھارت کی فی ہزار خواتین یہ شرح 25 اورامریکہ کی 16 فیصد ہے۔ ریاست کی شرح خواندگی91 فیصد ہے جبکہ بھارت کی 65 فیصد ۔ اس کا صنفی تناسب بھی سب سے بہتر ہے، ایک ہزار مردوں پر 1058 عورتیں ہیں جبکہ بھارت میں یہ تناسب ایک ہزار پر 933 ہے۔عالمی صحت تنظیم نے کیرالا کو بچیوں سے محبت کرنے والا دنیا کا واحد خطہ قرار دیا ہے۔ ریاست کے مشہورکولم ساحل پر دستکاری مصنوعات فروخت کرنے والے ایک کشمیری تاجر نے بتایا کہ ریاست میں بڑے سخت لیبر قوانین ہیں۔ یہ غالباً دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ اخبارات کے قارئین ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں