مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں پچھلے ہفتے حکومت نے پہلی بار تسلیم کیا، کہ 1990ء کی دہا ئی میںعسکری جدوجہد شروع ہونے کے ساتھ ہی کشمیری پنڈتوںیعنی ہندوئوں کے علاوہ اکثریتی طبقہ یعنی مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد بھی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی ۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق دہلی اور جموں میں اس وقت 51,000 کشمیری پنڈت اور 3000مسلم خاندان مہاجر ت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مہاجرین کی ایک تیسری قسم ہے، جو دوردراز علاقوں ، خصوصاً لائن آف کنٹرول کے پاس رہنے والوں کی تھی، جنہیں کنٹرول لائن کے دوسری طرف یعنی آزاد کشمیر کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ حکومت کے مطابق اس قبیل کے مہاجروں کے تعداد 1292خاندانوں پر مشتمل ہے۔ مگر حکومت آزاد کشمیر کے اعداد و شمار کے مطابق 90ء کے اوائل میں 5986خاندان منتقل ہوگئے تھے، ان کی تعداد اب 8000 سے تجاوز کرچکی ہے۔ اور یہ مختلف ریفیوجی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ان میں 75فیصد پہاڑی، 20فیصد گوجراور 5فیصد کشمیر النسل ہیں۔ان کی اس اجتماعی نقل مکانی کے پیچھے کن قوتوں کا ہاتھ تھا؟ یا ان کے اس فرار کے پیچھے کوئی طاقت ورسازش کار فرما تھی۔تاہم اس بحث سے قطع نظر اس مہاجرت کے شکار شہریوں پر جو افتاد پڑی اسے خالصتاً انسانی نکتہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن پنڈتوں کے برعکس ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کشمیر کی کسی بھی سیاسی جماعت چاہے بھارت نواز ہو یا آزادی یا حق خود ارادیت کی خواہاں، کسی کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ہوئی ہے، کہ ان بے خانماں افراد کی باز آبادکاری یا اُنہیں اپنے گھروں کو واپس لانے کی سعی کریں یا کم سے کم آواز ہی بلند کریں۔نہ ہی یہ ایشو بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈا میں شامل ہے۔
پنڈت کمیونٹی پر حکومت جموںوکشمیر اور حکومت دہلی کی طرف سے خاصی عنایتیں کی گئی ہیں، ریلیف ، تعلیم ، ملازمتیں اور دوسری سرکاری امداد وغیرہ میں سرکارنے جس طرح ان کی دل کھول کر مدد کی ، اس کا عُشرعشیر بھی مسلمان مہاجرین کو نہیں دیا گیا جو اسی طرح کے حالات کے شکار بنادیئے گئے تھے۔ستم ظریفی ہے، جہاںحکومت نے عسکریت پسندوں کی باز آبادکاری کے لئے پالیسی کا بھی اعلان کیا ہے وہیں دوسری طرف قسمت کے مارے اس سویلین آبادی کی
آبادکاری کا کو ئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ۔ جنہیںشورش شروع ہوتے ہی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کر کے فوج نے لائن آف کنٹرول کے اس پار دھکیل دیا تھا۔ یہ آبادی اس وقت کسمپرسی کا شکار ہے۔2001ء اور 2011 ء کی مردم شماری کی رپورٹوں میں بارہ مولا، کپواڑہ،پونچھ اور راجوری کے کم و بیش 20دیہاتوں کو غیر آباد بستیوں کے طور پر درج کیا گیا ہے۔چند سال قبل لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے، مجھے چند ایسے گاوٰں دیکھنے کو ملے، جنہیں ان علاقوں میں تعینات فوجی بھی‘‘ آسیب زدہ گاوٰں ‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔لمبی قد آدم گھاس کے درمیان شکستہ مکانات اور غیر آباد کھیت مکینوں کی واپسی کی راہ تک رہے ہیں۔ایک ہو کا عالم طاری ہے۔کپواڑہ کے ایک دوردراز علاقہ کے ایک 70سالہ بزرگ غلام سرور نے مجھے بتایا، کہ 1992ء میں ان کے گائوں ملک بستی میں بھارتی فوج نے ڈیرا ڈالا، اور انہیں 12گھنٹے کے اندر اندر گھروں کو خالی کرنے کیلئے کہا گیا۔ سرور کی ٹانگ میں فریکچر تھا، اس لئے وہ گائوں والوں کا ساتھ نہیں دے سکا۔ عزیز و اقارب نے بھی اُسے تسلی دی، کہ حالات نارمل ہوتے ہی، وہ واپس آئیں گے۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے 30 سال سے وہ روز لائن آف کنٹرول کی طرف آس لگائے ان کی واپسی کے انتظار میں جی رہا ہے۔ان علاقوں میں تین بار مکینوں کو بے دخل کیا گیا۔ 1990ء کے علاوہ 1999 ء میں جنگ کرگل اور2001 ء میں بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد آپریشن پراکرم کے دوران لائن آف کنٹرول کو سیل کرنے کے بہانے بستیوں کو خالی کرایا گیا۔ اسی طرح لیپا سیکٹر سے پہلے آخری آباد گائوں میں ایک سکول ٹیچر نے بتایا، کہ ان دیہات پر آئے دن قہر ٹوٹ پڑتا ہے، جو سرینگر اور وادی کشمیر کے دیگر مکین محسوس نہیں کرپاتے۔ عسکریت پسندو ں کو گائڈ کرنے کے الزام میں کئی بار اسے اور اس کے بھائی کو عتاب کا نشانہ بننا پڑا۔ اس کے بھائی نے اپنے خاندان سمیت 2002 ء میں آخر کار تنگ آکر ہجرت کی۔سرینگر سے 180کلومیٹر دور کیرن علاقہ کے ہی 12گائوں دوسری طرف منتقل ہوگئے ۔ کپواڑہ کے بورپائین گائوں کے 17خاندان اپنے گھروں میں ہی مقیم رہے۔ مگر انہیں بھی جلد ہی اندرونی علاقوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔ فوج ان دوردراز سرحدی علاقوں میںشہری آبادی کو سیکورٹی رسک سمجھتی ہے۔ چونکہ غربت، مفلسی اور جہالت کے مارے ان افراد کی آواز سرینگر تک بھی نہیں پہنچتی ، اس لئے ان کا کوئی پرسان حال بھی نہیں ہوتا۔
مسلمان مہاجرین کی ایک اور قسم ان لوگوں کی بھی ہے جو سرکاری بندوق برداروں ، ولیج ڈیفنس کمیٹی یا فورسز کے کسی اہلکار کے خوف سے دیہی علاقوں سے بھاگ کر سرینگر اور دیگر شہروں میں پناہ گزین ہوئے۔ سرکار کے چھترچھایہ میں اسلحہ سے لیس سرکاری بندوق برداروں کو جنہیں عام طور پر ''اخوانی‘‘ کہاجاتا تھا ‘ فوج اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں نے اپنے اہداف کے حصول کیلئے استعمال کیا ۔
انہیں خون کی ہولی کھیلنے ، عصمتوں کو پامال کرنے ، لوگوں کو ترک مکانی پر مجبور کرانے ، جائیدادوں کو تلف کرنے اور ان کی نیلامی کرنے ، جبراً پیسہ بٹورنے اور ''حکم عدولی‘‘ کی صورت میں بھیانک نتائج کا سزاوار ٹھہرانے اور ان جیسے دوسرے جرائم کا ارتکاب کرانے کی کھلم کھلا چھوٹ دے رکھی تھی ۔ اس بے لگام متوازی فوج کا نہ کوئی دین تھا ، نہ مذہب اور نہ ہی یہ کسی قانون اور ضابطے کی پابند تھی۔ بندوق کے نشے نے ان مسلح جتھوں کو انسانی سطح سے گراکر حیوانیت کی سطح پر لاکر رکھ دیا تھا۔ بھارت نواز جماعت نیشنل کانفرنس کے سوناواری علاقہ کے ضلعی صدرفاروق احمد اپنے خاندان کی دو لرزہ خیز ہلاکتوں کے بارے میں کہتے ہیں ''خاندان پر اس وقت پہلی بجلی گری جب
5مارچ1995ء کو اخوانیوں نے ان کے گھرپرچھاپہ مارا اور اپنی جان بچانے کی خاطر ولر جھیل کی طرف بھاگ رہے ریاض احمد کو گولیاں مارکرہلاک کیا گیا اور لاش جھیل میں پھینک دی...بندوق برداروں نے فقط چند ہفتوں بعد ریاض کے بھائی محمد اشرف ڈارجو 4بچوں کے باپ تھے ،25اپریل 1995ء کوہلاک کرڈالا... محمد اشرف ایک دعوت میں شرکت کے لئے واتل پورہ گئے تھے اور سرکاری بندوق برداروہاں جاکر اسے اپنے ساتھ لینے کے لئے گئے تو اشرف نے مکان کی دوسر ی منزل سے چھلانگ لگائی لیکن اخوانیوں نے آدھے کلومیٹر تک ان کاتعاقب کیا اور ان کی ران میں گولیاں ماردیں...ان کی ماںعزیزی حواس باختہ ہوکر اپنے بیٹے کے پاس دوڑی چلی آئی جوسڑک پر خون میں لت پت پڑے تھے ۔ وہ اپنے تڑپتے ہوئے بیٹے کو پانی پلانا چاہتی تھی لیکن اس وقت کے اخوانیوں کے ایک سرغنہ نے ایسا کرنے سے روکتے ہوئے کہا ''ہماری حکم عدولی کرنے والوں کو اسی طرح ماراجائے گاتاکہ یہ لوگ قبرمیں فرشتوں سے کہیں کہ دْنیا میں مرتے وقت پانی بھی نصیب نہیں ہوا ‘‘۔یہ واقعہ ا یک بھارت نواز لیڈر کو پیش آیا ، باقی لوگوں کی اوقات ہی کیا۔ سفاکیت او ربربریت کے ان واقعات سے ارض کشمیرکا سینہ بھرا پڑا ہے۔ سرکار نے محض اخوانیوں کو ہی نہیں پالا پوسا بلکہ ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کو تشکیل دے کراس نے جموں میں بندوق راج کو پروان چڑھایا اور ان کمیٹیوں سے وابستہ مسلح دستوں نے ایک خاص فرقے کو ہی نشانے پر رکھا۔جس سے دیہی علاقوں میں اس ہمہ جہتی ظلم کی وجہ سے اندرونی مہاجرت کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ان مہاجرین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ مہاجرین کے بارے میں اپنائی گئی اس امتیازی پالیسی کو کس طرح حق بجانب ٹھہرایا جاسکتاہے؟ ایک ہی ریاست میں ایک ہی ریاست کے شہریوں کے تئیں اس متضاد روّیے کے کیا معنی ہیں؟ کشمیری پنڈتوں کو میڈیا ،سیاست دانو ں اور حکمرانوں نے کشمیر میں برپا تحریکِ کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے کیلئے استعمال کیا۔ اس
حوالے سے کشمیری پنڈت بھارت کے ایک Strategic Assetتھے ، جسے اس نے جس طرح چاہا استعمال کیا۔حکومتی تعصب اور ریاستی امتیازکی اس سے بڑی مثال ملنی مشکل ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کشمیری پنڈتوں کی چند تنظیمیں بھارتی حکومت کی شہ پر کھلے عام اب ہوم لینڈ کا مطالبہ کر رہی ہیں‘ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے کشمیری پنڈتوں کو یہودی طرز پر یہاں الگ بسا کر کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ اب دو ٹوک لفظوں میں کہا جا رہا ہے کہ ہوم لینڈ کے لئے عدلیہ، انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ سب کچھ علیٰحدہ ہوگا۔ انوپم کھیر جیسے فلم اسٹار بھی کہتے ہیں کہ 3فیصد آبادی 97فیصد آبادی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اس لئے پنڈتوں کے لئے الگ سے ''سمارٹ سٹی‘‘ بنا یا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نہ صرف سکھوں یا ڈوگرہ حکومت میں بلکہ مغل اور افغان دورِ حکومت میں بھی کشمیری پنڈت اپنی تعلیمی قابلیت اور عصری تقاضے سمجھنے کے سبب باعزت اوربا اختیار ہونے کا درجہ رکھتے تھے، لیکن جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس بھرم میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دلی کی آشیرواد سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کردیں گے۔ اس مسئلے کو لے کرارباب سیاست ایک ایسا گھنائونا کھیل‘ کھیل رہے ہیں جو نہ ہی پنڈت برادری کے حق میں ہے اور نہ ہی کشمیر کی اکثریت مطلق کیلئے بہتر‘ اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اْدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اگر بھارت ، پاکستان اور کشمیری قیادت ، مسئلہ کے حتمی حل کے سلسلے میں متفق ہو جائیں اور خطے سے فوجی بوٹوں کے پرنٹ کم کئے جائیں تو صرف اسی صورت میں مفاہمت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقینا دونوں فرقے ماضی کی طرح ایک بار پھر گلے مل کر ساتھ رہنے لگیں گے۔