بھارت میں انگریزوںکی تعمیرکردہ نئی دہلی کے کیپیٹل علاقہ میں انڈیا گیٹ اور صدارتی محل یعنی راشٹرپتی بھون کو ملانے والی سڑک ''راج پتھ‘‘ کے دونوں طرف وسیع و عریض اور ہوبہو ایک جیسی عمارتیںکھڑی ہیں، جن کو سائوتھ اور نارتھ بلاک کہتے ہیں۔ یہ بھارت کا پاور سینٹر ہے۔ سائوتھ بلاک میں وزیر اعظم، وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کے دفاتر ہیں جبکہ نارتھ بلاک وزارت داخلہ اور وزارت مالیات کے دفاتر کے لئے مخصوص ہے۔ ان دونوں بلاکوں میں آج کل پاکستان کے حوالے سے فائلیں کھنگالی جارہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈوزیئر تیارکئے جا رہے ہیں تاکہ اقوام متحدہ کے اجلاس اور اس کے بعد جاری کمیٹیوںکے اجلاسوں کے دوران مندوبین میں بانٹے جائیں۔ اس مشق کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کروانے کے لئے کیس تیارکیا جائے۔ اس سلسلے میں افغانستان اور بنگلہ دیش کی حکومتوں پر بھی سفارتی دبائو دیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیا ں عائد کروانے کی تگ و دو میں بھارت کی معاونت کریں۔ وزیر خارجہ سشما سوراج سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی تقریر میں بلوچستان کے معاملہ اٹھائیں گی تو انہوں نے اپنی مخصوص طرز میں کہا کہ ''ان کے پرس میں اور بھی بہت کچھ ہے، انتظارکیجیے اور دیکھیے کیا کیا ہوتا ہے‘‘۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں جس طرح بھارت اور پاکستان کے مندوبین کے درمیان نوک جھونک ہوئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا رواں اجلاس کافی عرصہ بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی جنگ کا میدان بننے والا ہے۔ انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں اگرچہ بھارتی مندوب نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکا معاملہ اٹھایا مگریہ عیاں تھا کہ 1994ء کے بعد پہلی بار کشمیر کے سلسلے میں بھارتی سفارت کار خاصے دبائو میں نظر آئے۔ جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس میں شرکت کے لئے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نیو یارک پہنچ چکے ہیں۔ ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی اس بار اس اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے مگر وزیر خارجہ سشما سوراج نے بتایا چونکہ پروٹوکول کے مطابق ان کا خطاب سربراہان مملکت کے بعد یعنی 26 ستمبر کوہوگا، وہ اس کا فائدہ اٹھا کر نواز شریف کو بھر پور جواب دیں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں جاری موجودہ عوامی احتجاج کی لہر نے بھارتی حکمرانوں کی سٹی گم کردی ہے، مگر عسکریت پسندوں کے حملوںکو جواز بنا کر وہ عالمی ہمدردی بٹورنے کر ہر ممکن کوشش کریں گے۔ 1994ء کے بعد اگر پہلی بار انسانی حقوق کے کمشنر زید الحسین نے زبان کھولی تو اس کا کریڈٹ صرف اور صرف عوامی احتجاج اور 82 نوجوانوں اوربزرگوں کے خون کو جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس طریقہ احتجاج کو ایک موقع دیا جائے اور سیاسی لیڈروں پر شک کرنے اور ان کو نظروں سے گرانے کے بجائے ان کے ہاتھ مظبوط کئے جائیں۔ اس سے قبل مارچ 1994ء میں جموں کشمیر میں حقوق انسانی کی ابتر صورت حال کے حوالے سے تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں ایک قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس میں کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کی زبردست سرزنش اور اس کے خلاف اقدامات کی بھی سفارش کی گئی تھی۔ منظوری کی صورت میں یہ قرارداد براہ راست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سپرد کردی جاتی، جہاں بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاںعائد کرنے کے قواعد مغربی ممالک نے تقریباً تیارکر رکھے تھے۔ مگر اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نرسمہا رائو نے بڑی چالاکی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کو آمادہ کرلیاکہ وہ او آئی سی میں مذکورہ قرارداد کی منظوری کے وقت غیر حاضر رہے۔ جہاندیدہ رائوکا خیال تھا کہ ایران کے غیر حاضر رہنے کی صورت میں یہ قرارداد خود بخود ناکام ہو جائے گی کیونکہ او آئی سی دوسرے کئی بین
الاقوامی اداروںکی طرح ووٹنگ کے بجائے اتفاق رائے سے فیصلے کرتی ہے۔ اس کے لئے انہوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ دنیش سنگھ اور تین دیگر مسافروںکو انتہائی خفیہ مشن پر تہران بھیجا تھا۔ دنیش سنگھ ان دنوں دہلی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے اور بڑی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ رائو نے ایرانی قیادت کو یقین دلایا تھا کہ اقوام متحدہ سے جان چھوٹتے ہی وہ مسئلہ کشمیرحل کرنے کے سلسلے میں پیش رفت کریںگے، جس پر تہران نے یقین کرلیا۔ بھارت نے ایران سے درخواست کی کہ وہ مغربی ممالک کی مداخلت روکنے میں اس کی مدد کرے اور ایران نے ایسا ہی کیا۔
صرف ایک ہفتہ قبل دہلی میں ایرانی سفیر نے کشمیر ی رہنمائوں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کی اپنی رہائش گاہ پر پُرتکلف دعوت کی تھی اور انہیں باورکرایا تھا کہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔ اب 22 سال بعد ایران نے بھارت کے ساتھ دوستی کے باوجود کشمیری عوام کے حق میں آواز اٹھا ئی ہے۔ ایران کو چاہیے کہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کو بروئے کار لا کر پس پردہ نئی دہلی کو اپنے 1994ء کے وعدوں کی یاد دہانی کرائے۔ اگر یہ وعدہ ایفا ہوتا ہے تو نہ صرف پاکستان مستحکم ہوگا بلکہ اس خطے میں امن اور خوشحالی کے ایک نئے دورکا آغاز ہوگا جس میں بھارت، پاکستان، افغانستان اور ایران اسٹیک ہولڈر ہوںگے۔
ادھر کشمیر میں سرینگر سے ممبر پارلیمنٹ اور حکمران پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک بانی رکن طارق حمید قرہ نے بد دل ہوکر لوک سبھا اور پارٹی کے بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں موصوف نے جو طویل بیان جاری کیا اس میں شامل کچھ نکات غورطلب ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پی ڈی پی کی بنیاد رکھتے وقت کشمیرکے حوالے سے سیاست کو خیالات کی جنگ قرار دیا گیا تھا، مگر گزشتہ سوا دو مہینوںکے دوران جو صورت حال سامنے آئی ہے وہ ''خیالات کی جنگ‘‘ کے بجائے قرہ کے بقول ''خیالات سے جنگ‘‘ کی صورت میں اْبھر کر سامنے آگئی ہے۔ ریاستی حکومت کے اندر یہ تاثر غلبہ پا چکا ہے کہ ریاستی حکومت کا ایجنڈا سرینگر اور جموں نہیں بلکہ کہیں اور سے طے ہو کر آتا ہے۔ ظاہر ہے یہ باتیں ایک ایسے شخص کی وساطت سے سامنے آ رہی ہے جو 15ستمبر تک حکومت کا حصہ رہا، لہٰذا یہ نہایت فکر انگریز ہیں۔ اگر ریاستی انتظامیہ کے مزاج میں یہ بات گھرکر جاتی ہے تو یقینی طور پر ان حکمرانوںکی حیثیت کٹھ پتلیوں سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے؟ اس تناظر میں اگر وہ یہ کہتے ہیںکہ پارٹی کی بنیادیں استوار کرتے وقت یہ بات مد نظر تھی کہ یہ جماعت مسائل کو حل کرنے میں ایک سہولت کار (Facilitator) کے طورکام کرے گی نہ کہ بحیثیت اعانت کار(Collaborator) کے تو یقینی طور پر یہ اس پارٹی اور اس کی قیادت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ گزشتہ سوا دو ماہ کے دوران کشمیر کے اندر پیداشدہ صورتحال کے دوران حکومت کی جانب سے دکھائے گئے ردعمل کو انہوں نے ''نازی‘‘طرز فکر سے تعبیر کیا۔ ان کے بقول اس بات میں اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ وادی میں جاری احتجاجی تحریک کے دو ماہ مکمل ہونے کے بعد بھارتی حکومت اس مسئلے کے سیاسی حل کے بجائے اسے بزور دبانے اور طاقت کے بے دریغ استعمال سے حالات کو معمول پر لانے کی روش پر قائم ہے۔ ہندو قوم پرست سنگھ پریوار کی پشت پناہی والی بھاجپا حکومت کے وزرا اور رہنمائوںکے حالیہ بیانات ظاہرکرتے ہیں کہ نئی دہلی کے پاس اس مسئلے کو سیاسی طور حل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیںہے اور نہ ہی اس کا اس طرح کاکوئی ارادہ دکھائی دے رہا ہے۔
گزشتہ دنوں سابق فوجی سربراہ اور موجودہ وزیر ِمملکت برائے امور ِ خارجہ وی کے سنگھ نے کشمیر میں پیلٹ کے استعمال کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ اسے حالات پر قابو پانے کا ایک موثر ہتھیار قرار دیتے ہوئے قابل ِقبول طریقہ قرار دیا۔ ایک ایسے وقت جب اس مہلک اور جان لیوا ہتھیار نے وادی کے طول و ارض میںتباہی برپا کر کے رکھ دی، ایک وزیرکا ایسا بیان حکومت ِکی کشمیر پالیسی کو سمجھنے اور اس کے اْلجھے تارکھولنے میں کیا مدد گار ثابت ہوسکتا ہے؟ یہی نہیں مرکزی بھاجپا قیادت کے کشمیر کے سیاسی معاملات میں غیر معمولی طور سرگرم رہنے والے جنرل سیکرٹری رام مادھو نے بھی کشمیر کے سیاسی حل کو مسترد کرتے ہوئے طاقت کے استعمال کی وکالت کی ہے۔ دو ماہ کی احتجاجی تحریک کے بعد ان بیانات کو کشمیرکے حالات سے چشم ِ پوشی اور عدم ادراک سے بھی تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حکومت ِکو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ کشمیر میں حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، لیکن اپنے رویے میں لچک اور سیاسی حل سے انحراف کی اپنی پالیسی پر سختی سے کاربند رہ کر وہ ایسے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہے جس سے حالات میں مثبت تبدیلی آنے کی بجائے منفی اثرات ثبت ہونے کا زیادہ خدشہ موجود ہے۔ یہ سوال بجا ہے کہ عسکری کارروائیاں کہیں کہیں بھارتی حکومت کے خاکوں میں انجانے میں رنگ بھرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ ایک اور المیہ ریاست میں بی جے پی کی اتحادی جماعت پی ڈی پی کا ہے جو نہ صرف اپنے ایجنڈے کو اقتدار پر قربان کر چکی ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس نے عوامی منڈیٹ کو بھی پس ِپشت ڈال کر آر ایس ایس کے آگے سپر انداز ہو گئی ہے۔کشمیر میں بھارت نواز سیاسی قیادتوںکا یہی المیہ ہردور میںکشمیرکے لئے شدید نقصان کا موجب بنتا رہا ہے۔ اب وقت ہے کہ پی ڈی پی کے دانشور صورت ِحال کا از سر ِ نو جائزہ لے کر اپنے ایجنڈے کو ملحوظ رکھیں نہ کہ بی جے پی کی پالیسی کے آلہ کار بنیں۔