"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر : اسیری ذہنیت اور لائن آف کنٹرول کے قصے

چند برس قبل کشمیر کے دورے پر آئے یورپی یونین کے ایک رکن جان والز کوشانن نے اس خطہ کو دنیا کی خوبصورت ترین جیل قرار دیاتھا۔ شایدفوجی جمائو اور حالات کی وجہ سے ان کو یہ خطہ قید خانہ لگا ہوگا۔ مگر اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ 20ویں صدی نے بیرون دنیا کے ساتھ کشمیر کے روابط مکمل طور پر سلب کر لئے۔ سوویت یونین کے وجود سے تاجکستان، کشمیریوں کی دستبرد سے دور ہوگیا۔کشمیریوں تک اسلام پہنچانے والی شخصیت میر سید علی ہمدانی کا مزار تاجکستان کے کلوب صوبہ میں ہے۔ بعد میں کاشغر تک رسائی بند ہوگئی۔ 1947ء نے تو ایسا قہر ڈھایا، کہ لائن آف کنٹرول یا حد متارکہ نے تو نہ صرف زمین پر بلکہ کشمیریوں کے سینوں پر ایک خونیں لکیر کھینچی۔ گو کہ پچھلی چار صدیوں سے اس خطے کے باسی مجبور و مقہور رہے ہیں، مگر وسطی اور جنوبی ایشیا کی رہگزر پر ہونے کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ روابط کی وجہ سے طمانیت کا احساس تھا۔ لائن آف کنٹرول نے سبھی روابط منقطع کر دئے۔ شمالی کشمیر اور پیرپنچال کے وسیع و عریض خطے تو سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں منقسم خاندان حسرت و یاس سے آج بھی دوسری طرف دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ اس گھیرابندی اور فوجی جمائو نے ایک طرح کی خوف کی نفسیات کے ساتھ ساتھ(prison mindset) یا اسیری ذہنیت کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ ذہنیت ہمیشہ منفی ہوتی ہے اور حکمران کے ساتھ اس کا رشتہ وہی ہوتا ہے، جو قیدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے۔ جیل کا منتظم کتنا ہی ملائم اور قیدیوں کا خیال رکھنے والا کیوں نہ ہو، رشتہ تناوء سے پُر ہی رہتا ہے۔بھارت اور پاکستان کے حکمران ابھی تک کشمیریوں کی نفسیات کے اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ 
خیر بھارت اور پاکستان کے درمیان جب بھی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اس کا خمیازہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام بالخصوص سرحدی آبادیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ، بھارت کی طرف سے سرجیکل سٹرائیکس کے دعوے کے بعدکشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کنٹرول لائن کے علاقے تو سرینگر میں مقیم صحافیوں اور سول سوسائٹی کے دسترس سے بھی دور رہتے ہیں، اس لیے ان علاقوں میں عوام پر کیا بیتی ہے، بہت کم ہی باہر کی دنیا کی علم میں آتا ہے۔ دو سال قبل میں نے وادی کشمیر کے انتہائی دور افتادہ اور ناقابل رسائی علاقوں کا دورہ کیا تھا، جو اس وقت پاکستان اوربھارت کے درمیان تازہ کشیدگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں انگنت واقعات اور کہانیاں گردش کرتی ہیں، جو ایک صحافی اور مصنف کے لئے قارون کے خزانہ سے کم نہیں ہیں ۔ضلع کپواڑا کے لنگیٹ تحصیل کے انتہائی آخری سرے پر واقع لیپا وادی کی توت مار گلی میں مقامی باشندوں اور فوجی افسران نے راقم کو بتایا کہ اب تک اس علاقہ میں کسی صحافی کا گزر نہیں ہوا۔ اس وادی میں ایک عجوبہ فوجی ہسپتال بھی ہے ۔ یہ ہسپتال پہاڑوں کو چیر کر سطح ز مین کے نیچے تعمیر کیا گیا ہے جس کا باہر سے کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا کہ یہ اتنا بڑا اور شاندار ہسپتال ہوگا۔ یہ ہسپتال تمام جدید ترین سہولیات سے مزیّن ہے۔ تاہم اس ا سپتال کی سب سے دلچسپ اور حیران کن خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اندرونی دیوار پر ایک تختی آویزاں ہے جس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے کہ اس ہسپتال کا افتتاح کیپٹن پرویز مشرف نے کیا ۔ یہ کیپٹن مشرف اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں۔خیال رہے 1971ء کی جنگ میں یہ علاقہ بھارت کے قبضہ میں آگیا۔ اس کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ کیپٹن مشرف یہاں پر زخمی ہوئے تھے ۔ اور یہاں آباد دو گائوں نوکوٹ اور چھنی گائوںکے باشندے بھی لائن آف کنٹرول کے اس پار ہجرت کرگئے۔کافی عرصہ تک یہ علاقہ کسی کے تصرف میں نہیں تھا ۔ بھارتی فوج کو بھی اس بات کا علم نہیںتھا کہ پاکستانی فوج یہ علاقہ خالی کرچکی ہے ۔ اچانک ایک دن ایک گلہ بان اپنی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں نیچے اترا اور جب وہ وہاں سے واپس جانے لگا تو اوپر پہاڑوں پر فوجیوں نے اسے پکڑلیا کہ تم ''پاکستانی‘‘ علاقہ سے آرہے ہو۔ اس نے جب ماجرا سنایا تو فوج نے اسے چھوڑ دیا اور اس علاقہ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔یہاں ایک مزار اور مسجد موجود ہے ۔ اور ایک گلہ بان عبدالرحمن کمہار کو اس کا متولی اور سجادہ نشین بنا ر کھاہے۔ یہاں کے جنگلات میں کئی نادر اور قیمتی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں ان میں 'تریپتری‘ نامی قیمتی بوٹی ہے ۔علاقہ میں بے شمار دلچسپ کہانیاں گشت کرتی ہیں ان کے راوی قلی بھی ہیں اور فوجی بھی ۔ ایک مشہور قصہ ہر کسی سے سننے میں ملتا ہے کہ ایک کتیا پاکستان کے لئے جاسوسی کا فریضہ انجام دیا کرتی تھی ۔یہ کتیا روزانہ تار کے نیچے سے دبک کر ہندوستانی علاقہ میں آٔیا کرتی تھی اسے بھارتی فوجی کھانا دیاکرتے تھے لیکن رات میں وہ چوکی سے کچھ کاغذات چرا کر لے جایا کرتی تھی ۔ یہ عقدہ جب کھلا تو اس کتیا کو وہی سزا دی گئی جو ایک جاسوس کو دی جاتی ہے یعنی سزائے موت۔ اس طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک پاکستانی کمانڈو یہاں قلی کے طور پر کام کر رہا تھا ایک رات موقع پاتے ہی اس نے سپاہیوں کو قتل کردیا اور سرحد کے اس پار چلاگیا ۔ اس کے بعد سے یہاں تمام قلیوں کو رات کے سات بجے بعد بند کیا جاتا ہے یہاں تک رفع حاجت کے لئے بھی باہر نکلنے نہیں دیا جاتا اور انہیں اپنے لمبے لمبے فوجی جوتوں میں ہی بول و براز کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ اس کا انکشاف خود درگاہ کے مجاور اور سجادہ نشین عبد الرحمن کمہار نے کیا، جنہیںخود اس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
لائن آف کنٹرول کی ایک اور سچی کہانی مجھے بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل جسبیر سنگھ بْھلّنرنے سنائی، جو ا نہوں نے پنجابی میں تحریر بھی کی ہے ۔ غالباً 60ء کی دہائی میں جب وہ ایک جونیئر کیپٹن تھے، ان کی پوسٹنگ کشمیر کے کسی دور افتادہ علاقے میں ہوگئی۔ بہت جگہ یہ لائن کاغذوں میں تو تھی مگر زمین پر اس کا کوئی نام نشان نہیں تھا۔ایک دن انہیں حکم ملا کہ فوج کی ایک ٹیم کے ساتھ لمبے گشت پرجانا ہے۔ان کو حکم ہوا تھا کہ گشت کے دوران دیکھیں کہ فوجی حفاظت کے لئے کیا انتظامات ضروری ہوسکتے ہیں۔ ان کے ساتھی کیپٹن ایمان کے ذمہ تھا کہ سرحد پر بسے لوگوں کی حرکات اور ان کے ارادوں کے بار ے ایک رپورٹ لکھیںکہ وہ سرحد پار والوں سے کس طرح کا رابطہ رکھتے ہیں اور اس کا سد باب کیسے ہوسکتا ہے۔کرنل صاحب کے بقول وہ کل 13 لوگ تھے۔ ٹیم کا لیڈر کیپٹن ایمان ان کا ہم رتبہ تھا، اس لئے ان میں دوستی تھی۔ راستہ گھنے جنگلوں سے ہو کر جاتا تھا۔ تین دن کے بعد انہیں انسانی آبادی کی نشانیاں نظر آنے لگیں۔ان کے نقشے کے مطابق یہ بھارت کے زیر انتظام جموں اورکشمیر کا آخری گائوں تھا۔کچھ دیر بعد گائوں والے بھیڑیں چَرا کر واپس آئے۔جسبیر نے ایک گھر کے مالک پیر بخش سے پوچھا کہ یہاں سے سرحد کتنی دور ہے؟پیر بخش نے جواب میں حیرت سے سوال کیا، سرحد کیا ہوتی ہے؟صوبیدار منگت رام نے وضاحت کی کہ صاحب کا مطلب ہے کہ دشمن کدھر ہیں، لیکن پیر بخش کو اب بھی کچھ پلے نہ پڑا۔بولا، دشمن ! کون دشمن؟ کیپٹن نے خلاصہ کیا،ادھر پہاڑ کی دوسری طرف کے گائوں والے۔اس نے سادگی میں کہا وہ دشمن تھوڑے ہیں، وہ تو ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ پیر بخش کی بیوی بولی ادھر تو ہماری بیٹی بیاہی ہے، ہم اکثر بھیڑیں لے کر ادھر چلے جاتے ہیں اور اپنی بیٹی سے مل آتے ہیں۔کیپٹن ایمان نے بات کو صاف کرنے کے لئے کہا: آپ کو پتا ہے کہ وہ دوسرا ملک ہے؟ پیر بخش، جیسے اس کی غلطی کو درست کرتے ہوئے، بولا:''دوسرا ملک نہیں جی دوسرا گائوں کہو۔ ایک ہی راجے کے دو ملک کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘۔ گائوں کے ایک اور 
بزرگ نے ان سے پوچھا کہ آج کل ہندوستان کا بادشاہ کون ہے؟اور آج کل مہاراجہ کہاں رہتا ہے؟یعنی وہ بوڑھا تو ریاستوں کے زمانے میں ہی ابھی گھوم رہا تھا۔واپس پلٹن میں پہنچ کر دونوں کیپٹن سوچ رہے تھے کہ رپورٹ میں کیا لکھیں کیونکہ اس گائوں کے لوگوں کا نہ تو کوئی ملک ہے اور نہ ہی وہ کسی سرحد کو جانتے ہیں۔ وہ بلا جھجک کنٹرول لائن کے آر پار آتے جاتے ہیں، وہاں ان کی رشتے داریاں اور دوستیاں ہیں۔ یہ لوگ توان پرندوں کی طرح تھے جو اڑ کر کہیں بھی جا سکتے تھے۔ ان کے لئے کوئی لائن کی بندش تھی نہ کسی ملک کی لکیریں۔ جس دشمنی کی بو فوجی یونٹ سونگھنے آیا تھا اس کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں تھا۔کیپٹن ایمان ایک چٹان سے ٹیک لگائے اپنے بیگ سے کاپی نکال کر رپورٹ کا خاکہ تیارکر رہا تھا۔ سنگھ کے بقول انہوں نے ہنس کر ایک کورا کاغذ ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا: یہ رہی میری رپورٹ۔ بہرحال کیپٹن ایمان کی رپورٹ سے افسروں کو کچھ شک شبے کی بْو سی آئی، ان کو لگا کہ ایمان نے جان بوجھ کر اپنے ہم مذہبوں کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔ لمبی گشت کی رپورٹ لکھتے وقت ایمان کے سامنے بڑی فکر اس کے مسلمان ہونے کی تھی۔کرنل صاحب کے بقول شاید اس و قت وہ ایمان کے درد کو محسوس نہیںکر سکے مگر وہ اس واقعے کو کبھی نہیں بھول سکے۔ ہم دور کے گائوں میں دشمنی کی بو تلاشنے گئے تھے مگر در اصل وہاں کے لوگ حقیقی انسان تھے، بھید بھائو سے پاک۔ان کو ہماری عنادی تہذیب نے ناپاک نہیں کیا تھا۔ وہ فرشتوں کی سرزمین تھی۔کیا کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی سرحدوں میں بٹے عوام یکجا نہیں ہوسکتے ۔کیا یہ خونیں لکیرمٹ نہیں سکتی۔ کیا یہ فوجیوںکے جمائو اور فائرنگ کے تبادلوں کے بدلے امن اور استحکام کی گزرگاہ نہیں بن سکتی ۔ جب برطانیہ اور آئر لینڈسات سو سالہ دشمنی دفن کرسکتے ہیں، تو بھارت اور پاکستان بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کرکے حل کی طرف گامزن ہوکر کیوں امن کی راہیں تلاش نہیں کرسکتے؟یہ سوال تا حال جواب کا منتظر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں