"IGC" (space) message & send to 7575

سوپور قتل عام

یوں تو پچھلی کئی دہائیوں کے دوران کشمیر کی ہر گلی میں آگ و خون کی داستانیں رقم ہوتی رہیں، مگر 6 جنوری1993ء کا دن ریاست کے تجارتی مرکز سوپور کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ بھارت کی نیم فوجی تنظیم بارڈر سکیورٹی فورس(بی ایس ایف) کی 94 ویں بٹالین نے جو قصبے میں تعینات تھی، شہر کے مرکز میں آگ و خون کی ہولی کھیل کر 60 معصوم افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ کئی افراد کو زندہ جلایا، جبکہ 300 سے زائد رہائشی اور تجارتی عمارات کو راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کر دیا۔ کشمیر کے لئے سوپور کی وہی اہمیت رہی ہے، جو بھارت کے لئے ممبئی یا پاکستان کے لئے کراچی کی ہے۔ یہ نہ صرف شمالی کشمیر کے لئے راہداری ہے، بلکہ ریاست کے اکثر متمول گھرانوں اور معروف کاروباری شخصیات کا تعلق بھی اسی قصبہ سے رہا ہے۔ جب آس پاس کی زمینیں زرخیز ہوں اور باشندوں کی گھٹی میں تجارتی فراست اور محنت شامل ہو، تو اس علاقے کا فی کس آمدنی کی شرح میں اوّل آنا لازمی تھا۔ اسی لئے سوپورکو ''چھوٹا لندن‘‘ کی عرفیت اور اعلیٰ سیبوں کے مرکز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا۔
1989ء کے آواخر میں جب بھارتی حکومت نے جگموہن کو گورنر بنا کر بھیجا تاکہ عسکری تحریک، جو ابھی ابتدا میں ہی تھی کو لگام لگائی سکے، تو اس کی تجویز تھی کہ سب سے پہلے آزادی پسند حلقوں اور تحریک کو ملنے والی فنڈنگ کی روک تھام ہونی چاہیے۔ جگموہن نے جو بعد میں مرکز میں وزیر بھی رہے، اس سلسلے میں خاص طور پر سوپور کی نشاندہی کی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سوپور میں تجارتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جائے یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے تو یہ قصبہ تحریک کی مالی معاونت کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں جگموہن نے بھارتی وزارت داخلہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دہلی میںْ آزاد پور فروٹ منڈی کے آڑھتیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ اس علاقے سے سیبوں کی خرید بند یا کم کر دیں۔ چند ما ہ بعد میر واعظ مولوی محمد فارق کی ہلاکت اور ان کے جلوس جنازہ پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد حکومت نے جگموہن کو معزول کرکے ان کی جگہ ایک گھاگ انٹیلی جنس افسرگریش چندر سکسنہ کو بطور گورنر بھیجا۔ مگر حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ نئے گورنر نے کم و بیش اپنے پیش رو کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ دہلی میں پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر سیاسی آگہی کے اس مرکز کو صدیوں پہلے چانکیہ کی تجویزکی ہوئی پالیسی سام (گفتگو) دھام (لالچ)، ڈھنڈ ( سزا) اور بھید (بلیک میل) سے قابو کر لیا جائے، تو بقیہ ریاست سے بھی تحریک کا آسانی سے صفایا ہو سکتا ہے۔ 6جنوری1993ء کا قتل عام اسی کی ایک کڑی تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس ہولناک دن یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان ابر آلود تھا، گویا کسی غیر یقینی صورتحال کی عکاسی کر رہا تھا۔ صبح ساڑھے دس بجے مرکزی چوک کی ایک گلی میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکار پر جنگجوئوں نے حملہ کرکے اسے ہلاک کر دیا اور اس کی رائفل بھی چھین لی۔ بس پھر کیا تھا، قصبے میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکاروں کی بندوقوں نے ہر گلی، ہر نکڑ، ہر چوراہے اور ہر سڑک پر آگ برسانی شروع کی۔ دکاندار اپنی دکانوں میں پھنس کر رہ گئے۔ پورے قصبے میں اتھل پتھل مچ گئی اور لوگ چیخ و پکار کرکے اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ بانڈی پورہ جانے والی ایک مسافر بس اس وقت وہاں سے گزر رہی تھی، یہ بس مسافروں کے لئے تابوت بن گئی۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے ذریعے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق اس واقعہ سے کئی روز قبل نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن عبد الاحد کنجوال کے گھر جاکر چند فوجیوں نے ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس علاقے سے ہجرت کر جائیں، جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قتل عام کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی اور یہ فقط ایک سپاہی کی ہلاکت سے پیدا شدہ وقتی اشتعال نہیں تھا۔ پورے قصبے میں آگ لگانے کی یہ ہولناک کارروائی پورے 4گھنٹے جاری رہی۔ بانڈی پورہ سے آنے والی موٹر کار میں ایک فیملی سفر کر رہی تھی، ایک اہلکار نے ان کے شیرخوار بچے کو ہوا میں لہرا کر آگ کے حوالے کر دیا، بقیہ افراد کو بھی گولیوں سے نشانہ بناکر تڑپتے ہوئے آگ میں دھکیل دیاگیا۔ اس خونی رقص کے بعد معلوم ہوا کہ کئی سو دکانیں، عمارتیں اور مال سے بھرے ہوئے سینکڑوں گودام اور زنانہ کالج مکمل طور پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
آگ اور خون کی اس ہولی کے اگلے روز بی ایس ایف کے اس وقت کے سربراہ پرکاش سنگھ قصبہ میں وارد ہوئے اور معززین شہر کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ قتل گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس نے پنجابی میں اہلکاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ کس پنجابی شیر نے بازو آزمانے میں پوری کسر نکال دی! ایک اوباش لڑکے نے فخراً بتایا کہ اس نے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے۔ پرکاش سنگھ نے سب کے سامنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ قرون وسطیٰ کی وہ تاریخ شاید دہرائی جارہی تھی، جب منگول حکمران چنگیز خان جنگ کے میدا ن کا معائنہ کرتے ہوئے لاشوں کے مینار دیکھ کر جرنیلوں کو شاباشی دیتا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پرکاش سنگھ اس وقت بھارت میں پولیس میں اصلاحات اور فورسز میں انسانی حقوق کے تئیں بیدار ی لانے کے بڑے نقیب ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی ہوئی ہے۔ 
کئی روز بعد دلّی سے مرکزی وزرا مکھن لال فوطیدار،غلام نبی آزاد، مرحوم غلام رسول کی معیت میں وارد ہوئے اور ہر ممکن امداد فراہم کرنے کاوعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا جس کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا تاہم یہ وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا۔ مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کر کے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر چند ہی دکاندارخوش نصیب نکلے۔ عوامی دبائوکے تحت حکومت نے 94 بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا۔ 9 جنوری کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات بھی صادرکئے گئے اور 30 جنوری کوجسٹس امر سنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا بلکہ دوسال گزر جانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیاگیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سرینگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ، جن میں سینئر افسران شامل ہیں،کے بیانات قلمبند کئے جاسکیں۔ وہ سرینگر آنے سے گریزاں رہا تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کی لئے 15سے17دسمبر 1993ء کا وقت دیا۔کمیشن کی میعاد جو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی 30جنوری 1994ء تک بڑھا دی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کردیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیاجائے گا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی 21 سے25 مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سکیورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے۔ لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیاگیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ 1994ء کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل 1994ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔ 
چیف سیکرٹری نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے: ''ہمیں یہ ڈرامہ ختم کرنا چاہیے ،گزشتہ 15ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی‘‘۔ ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے 18اپریل 1995ء کومرکزکے داخلہ سیکرٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا: ''کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبارکو شدید زک پہنچی ہے‘‘۔ گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھاکہ کمیشن کے قیام کا مقصد فوت ہو چکا ہے اور اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے لیکن کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہم سارا ماجرا حکومت ہند کی نوٹس میںلانا چاہتے ہیں۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کردیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیاجبکہ 94 بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا، جہاں انہوں نے لوگوں کو سوپور سانحہ کی دھمکیاں دیں، جس کے بعد انہیں راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحہ سے متعلق دو کیس پولیس سٹیشن سوپور میں درج کئے گئے تھے اور وہاں سے23 جنوری کو انہیں تحقیقات کے لئے مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق دوران تحقیقات انہوں نے عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی از حد کوشش کی تاہم کسی بھی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہلکاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ ہی مطلوبہ معلومات فراہم کیںجس کے نتیجہ میں اس سانحہ میں ملوث لوگوں کی نشاندہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے عام لوگوں کی جان لی اور آتشزدگی کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ سی بی آئی کا مزید کہنا ہے کہ 94 بٹالین بی ایس ایف کی جانب سے درج کئے گئے ایف آئی آر کی تحقیقات کے سلسلے میں بھی حملہ آوروں کی شناخت نہ ہوسکی، جس کے نتیجے میں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس سانحہ کے دوران کس نے پہلے فائرنگ کی تھی۔ یوں کیس لٹکتا ہی رہا اور انصاف کا خون ہوتا رہا۔ حکومت کے اس رویے کی وجہ سے سوپور کے مکین 24 برس بعد انصاف کی تمام امیدیں کھو بیٹھے ہیں۔ تقریباً چوتھائی صدی بیت گئی مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ جب تک بھارت اور پاکستان دشمنی کی راہ ترک کرکے خطے میں پائیدار امن و خوشحالی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اقدامات نہیں گریں گے تب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے اور ایسے زخم ہرے ہوتے رہیںگے۔
یہ حقیقت بہر حال تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تمام المیوں کا ماخذ کشمیرکا حل طلب مسئلہ ہے ۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کی بجائے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو تاکہ برصغیر میں امن و خوشحالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوںکے لئے بھی یہ ایک طرح سے خراج عقیدت ہوگا۔ اس ہنگامہ خیز بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی اور بعید نہیں کہ یہ شہر عالم مشرق کا نیو یارک اور لندن بن کر سیاست اور تجارت کا محور بن جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں