"IYC" (space) message & send to 7575

غلطیوں کے قبرستان‘اناڑی ڈاکٹر اور حکمران

ایک جواں سال شاعر یہ چاہتا تھا کہ وہ سو سال کا سفر رات بھر میں طے کرلے اور صاحب دیوان شاعر بن جائے ۔ ایک دن اپنا دیوان اپنے استاد کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ میرے کمزور اشعار کے سامنے صلیب کا نشان بنا دیں۔اصلاح کے بعد استاد کے پاس سے جب اپنا دیوان لے کر دیکھا تو اس میں کہیں بھی صلیب کا نشان نہیں پایا۔اپنے علم وفہم پر بڑا خوش ہوا اور اپنے استاد سے فخریہ کہا کہ کیا میرا کوئی شعر لائق اصلاح نہیں ہے ۔ استاد نے جو بڑے ظریف الطبع اور نکتہ سنج تھے ‘ جواب دیا کہ اگر میں تمھاری خواہش کے مطابق کمزور اشعار کے سامنے صلیب کا نشان بناتا تو تمھارے دیوان اور عیسائیوں کے قبرستان میں کوئی فرق باقی نہ رہتا۔تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی بھی اسی نوجوان شاعر کے دیوان جیسی ہے اور تحریک انصاف کو یہ رعایت بھی میسر ہے کہ اس کی غلطیوں کی نشاندہی کوئی نہیں کرتا کیونکہ مثبت رپورٹنگ کا زمانہ ہے ‘ اگر غلطیوں کی نشاندہی کی اجازت ہوتی تو کئی بڑے بڑے مقبرے بن چکے ہوتے لیکن اب بھی سوشل میڈیا اور معاشرے کے کچھ سرپھرے عناصر کا جو شور مچائے بغیر نہیں رہتے ۔
تحریک انصاف کا تازہ کارنامہ پنجاب میں بیوروکریسی اور پنجاب پولیس کو آمنے سامنے لا کھڑا کرنا ہے ۔ بیوروکریسی اور پولیس کے درمیان جھگڑا وزیراعظم کے دورہ امریکا سے پہلے شروع ہوا جب پولیس کو بیوروکریسی کے ماتحت کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ڈرافٹ کے مطابق محکمہ پولیس کا مکمل انتظام محکمہ داخلہ کے زیر کنٹرول ہوگا جب کہ شہروں میں پولیس کو انتظامی افسروں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو جواب دہ بنا کر ان افسروں کو 22 اے اور 22 بی کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ کسی بھی وقت تھانوں کا معائنہ کرسکیں اور خلاف قانون کسی ملزم کو حبس بے جا میں رکھنے یا تشدد پر متعلقہ پولیس افسر کے خلاف کارروائی کر سکیں۔اس تجویز پر بیشتر پولیس افسران نے آئی جی پنجاب کے سامنے شدید ردعمل کا اظہار کیا اورچھٹی پر جانے یا مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دے دی ‘ یوں صوبے میں ایک بڑا بحران کھڑا ہو گیا۔ پنجاب حکومت اس دوران انتظار کرتی رہی کہ کب کپتان واپس آئیں اور ان سے ہدایات لی جائیں ۔ کپتان نے واپس آتے ہی وزیراعلیٰ بزدار کو طلب کر لیا۔ اب واقفان حال کے مطابق آئی جی پنجاب نے وزیراعظم کو بتایا کہ اس مسودے کی تیاری میں پولیس کا موقف یا رائے لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ملاقات کے بعدپولیس اصلاحات کے مسودہ پرعملدرآمدایک ہفتہ کیلئے موخرکردیاگیا ہے ۔وزیراعظم نے آئی جی پنجاب سے بھی تجاویزمانگ لی ہیں اور نیا مسودہ بنانے کی ہدایت کی۔ پولیس کو بتایا گیا ہے کہ انہیں ڈی سی کے ماتحت نہیں کیا جا رہا تاہم حکومت کی طرف سے پولیس افسروں پر واضح کر دیا گیا ہے کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کے سٹینڈرڈز حکومت سیٹ کرتی ہے تاہم اس کا طریقہ کار آئی جی پولیس تیار کریں گے۔ 
پولیس افسروں کا خیال ہے کہ ایک سروس گروپ چاہتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قابض رہے اور کوئی بھی محکمہ مکمل آزاد نہ ہو جائے جس سے ان کا عمل دخل ختم ہو جائے ۔پولیس افسروں کا موقف ہے کہ محکمے کو بیوروکریسی کے کنٹرول سے آزاد کیا جائے ۔ اگر پولیس کے محکمے پر کنٹرول رکھنا ہے تو وہ جمہوری کنٹرول ہونا چاہیے ‘ جس میں سیاسی لوگ بھی ہوں اور سول سوسائٹی سے لوگ بھی شامل ہوں۔ اگر پولیس میں اصلاحات لانی ہیں تو یہ پولیس کے مشورے سے ہونی چاہیے تھیں‘ نہ کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے پولیس میں اصلاحات کرے ۔ پولیس کا موقف یہ بھی ہے کہ جو نئی تجاویز تیار ہوئی ہیں ان سے پولیس میں سیاسی لوگوں اور بیوروکریسی کی براہ راست مداخلت ہوگی جس سے کارکردگی مزید خراب ہوجائے گی اور خرابی کی ذمہ داری پھر بھی محکمہ پولیس پر عائد ہوگی۔ پولیس افسروں کا خیال ہے کہ پولیس کو مزید بااختیار بنا کر احتساب کا نظام موثر بنایا جائے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب میں پے در پے ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بعد جلدبازی میں پولیس اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش کی۔ پولیس اصلاحات تحریک انصاف کے ایجنڈے پر ترجیحی فہرست میں تھیں لیکن اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ حکومت کی تشکیل کے فوری بعد ناصر درانی کو مشیر مقرر کیا گیا جن کا ٹاسک پولیس اصلاحات تھا لیکن پاکپتن واقعہ کے بعد ناصر درانی استعفیٰ دے گئے ۔اس بار صلاح الدین کیس سمیت پولیس تشدد اور بدسلوکی کے کئی واقعات رونما ہوئے تو پنجاب پولیس شدید تنقید کی زد میں آئی اور تحریک انصاف کو بھی پولیس اصلاحات کا وعدہ یاد آیا۔ پولیس اصلاحات میں تحریک انصاف کی حکومت کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو رضاکارانہ طور پر اصلاحات کا ایک ڈرافٹ بنا کر دیا۔ سات ماہ سے یہ ڈرافٹ وزیر اعلیٰ کی میز پر دھرا ہے لیکن وزیراعلیٰ نے اسے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت تشکیل پانے کے بعد اب تک تین پولیس سربراہ تبدیل کئے جا چکے ہیں ۔ سیاسی مداخلت کی مخالفت کرنے والی تحریک انصاف نے پہلا پولیس سربراہ مانیکا فیملی کے دباؤ پرتبدیل کیا ۔ آئی جی محمد طاہر کے تبادلے سے ہی تحریک انصاف کی سنجیدگی کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا۔پولیس اور بیوروکریسی کے درمیان تنازع موجودہ حکومت میں تقرریوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اسی اثنا میں بیوروکریسی کا پرانا ڈی ایم جی گروپ اپنے اختیارات اور اہمیت میں کمی پر تشویش کا شکار ہے ۔ ڈی ایم جی افسروں کا وفد تین بار وزیراعظم آفس جا کر شکایات پہنچا چکا ہے اور پنجاب میں بدانتظامی کی وجہ ان افسروں کے خیال میں اس گروپ کو نظرانداز کرنا ہے ۔
وزیراعظم آفس جانے والے انتظامی افسروں کے وفود نے واویلا کیا کہ پنجاب میں ڈی ایم جی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے ۔وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں پرنسپل سیکرٹری ٹو سی ایم ‘ وزیراعلیٰ کے پی ایس او بھی ڈی ایم جی سے نہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں آفس مینجمنٹ گروپ‘ پوسٹل سروسز گروپ اور پولیس سروس کے افسروں کو عہدے دیئے گئے ہیں ۔وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں چند افسر دوسرے سروسز گروپس سے ہونے پر اعتراض اٹھانے والے بیوروکریٹس اس بات کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ تمام محکموں کے سیکرٹری ڈی ایم جی سے ہی ہیں ۔ ڈی ایم جی گروپ قابلیت کے زعم کا شکار ہے ۔ ڈسٹرکٹ مینجمٹ گروپ آج تک پٹوار کے نظام کو تو درست نہیں کر پایا تھا۔ اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز مارکیٹ کمیٹیوں کو درست نہیں کر پائے ۔ پبلک ہیلتھ کا شعبہ بھی ان کے ماتحت ہے آج تک گلیوں اور سیوریج کا مسئلہ پنجاب کے کسی ضلع میں حل نہیں ہو سکا لیکن ڈی ایم جی گروپ تھانوں کو درست کرنے کی صلاحیت کا دعویدار ہے ۔وزیراعظم ہاؤس میں پرنسپل سیکرٹری اعظم خان‘سیکرٹری داخلہ میجر اعظم سلیمان اور چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر نے مل کر پولیس اصلاحات کا ڈرافٹ تیار کروایا اور وزیراعظم کو باور کرایا گیا کہ پنجاب میں پولیس اصلاحات کا یہ نسخہ جادو اثر ہے ۔ وزیراعظم دورہ امریکا کی تیاری میں تھے شاید انہوں نے یہ ڈرافٹ خود بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے نفاذ کی ہدایت کر دی گئی۔ اس جادو اثر نسخے نے وہی اثر کیا جو اثر اناڑی ویٹرنری ڈاکٹر سے گھوڑے کا علاج کرانے والے دیہاتی پر ہوا تھا۔
دیہاتی کا گھوڑا بیمار ہوا تو وہ ایک نیم حکیم ویٹرنری ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ویٹرنری ڈاکٹر نے اسے ایک پڑیا تھمائی اور کہا کہ یہ سفوف ایک پائپ میں ڈال کر ایک سرا گھوڑے کے منہ میں دینا اور دوسری طرف سے خود پھونک مار کر اسے گھوڑے کے منہ میں پہنچا دینا۔ دیہاتی گھر پہنچا اور ویٹرنری ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کی کوشش کی لیکن دیہاتی کے پھونک مارنے سے پہلے گھوڑا نے ہنکارا بھرا اور دوا دیہاتی کے منہ میں پہنچ گئی۔ اب دیہاتی پریشان کہ اس دوا کے اثرات کا کیا علاج کرے ۔بیوروکریسی نے اناڑی ویٹرنری ڈاکٹر کا کردار ادا کیا اور پولیس اتھرا گھوڑا بن گئی ۔ اب حکومت پریشان ہے کہ اناڑی ڈاکٹروں کی غلطی سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پیدا ہونے والی بے چینی کس طرح ختم کرے ۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ پولیس اصلاحات کے عمل کا ٹھنڈے دل سے عمیق جائزہ لیا جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ زمینی حقائق کے مطابق بنایا جائے تاکہ کسی کو بھی احتجاج کرنے یا اعتراض اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں