ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کے خواب دکھا کر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کے دانشور وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگیں ''روزگار دینا حکومت کا نہیں نجی شعبے کا کام ہے‘‘ حکومت صرف ماحول پیدا کرتی ہے‘ نوکریاں نہیں دے سکتی۔ حکومت 400 محکموں کو بندکرنے پر غورکر رہی ہے ''ہم روزگار دلانے لگ جائیں تو معیشت تباہ ہو جائے گی‘‘ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے سرکاری اداروں کو نوکریوں کی بندر بانٹ سے تباہ کیا۔
اس دانشور وزیر کے بیان کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے وژن پر سنجیدہ گفتگو کی بجائے خشونت سنگھ اور سرداروں کے لطیفوں کی روشنی میں بات کر لی جائے تو شاید اس کے مداحوں کا دل نہیں ٹوٹے گا اور شگفتگی کے ساتھ ہمارا مدعا بھی حکومتی ایوانوں تک پہنچ جائے گا۔
سرداروں کے ایک گاؤں کے سیانوں نے گاؤں کی ترقی کے لیے میٹنگ بلائی۔ دور دراز دیہات کے سیانے بھی بلائے گئے۔ میٹنگ میں گاؤں کی فوری ترقی کے امکانات پر گفتگو شروع ہوئی تو ایک سیانے نے کہا: جدید تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس ملک یا قوم نے امریکا کے خلاف جنگ لڑی ہے اور پھر مار کھائی ہے، بعد میں امریکا اس کی تعمیر نو واشنگٹن اور نیویارک کی طرح کرتا ہے۔
ترقی کا یہ نسخہ سب سرداروں کو پسند آیا لیکن ایک سردار نے ایسا نکتہ اٹھایا جس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ سردار نے کہا ''بھراؤ، جے اسی جنگ جِت گئے تاں فیر کی کراں گے؟‘‘ (ہم جنگ جیت گئے تو پھر کیا کریں گے؟) اس سوال کے ساتھ ہی میٹنگ دھری کی دھری رہ گئی اور کوئی سیانا اس کا جواب نہ دے پایا۔
یہ لطیفہ اس لیے یاد آیا کہ تحریک انصاف اقتدار کی جنگ جیت چکی ہے اور چودہ ماہ گزرنے کے باوجود اسے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اب کیا کریں۔ حکومت چلانے کا تجربہ ہے نہ ہی اعترافِ ناکامی کا حوصلہ، جو دعوے کئے تھے ان پر یُو ٹرن ان کے لیے باعث فخر ہے۔ حکومت کی ناکامیوں اور ہر دعوے پر یو ٹرن کے بعد بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہیں موقع ملنا چاہئے، پانچ سال پورے کرنے دیں، دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ ایسا کہنے والوں کے پاس وہی جواز ہے جو خشونت سنگھ نے اپنی لطیفوں کی کتاب میں دیا ہے۔ ان کے مطابق ایک جوڑے نے نیا شوفر رکھا۔ بیگم صاحبہ اسے لے کر شاپنگ کے لیے نکلیں۔ شوفر کے ساتھ پہلی رائیڈ پر ہی بیگم صاحبہ دہل کر رہ گئیں اور واپسی پر شوہر سے کہا: اسے نکال باہر کیجئے، آج تو میں تین بار مرتے مرتے بچی۔ شوہر نے بہت پیار سے جواب دیا، ڈارلنگ! جلدی کیا ہے، اسے ایک موقع اور دے کر دیکھو۔
ہمارے دانشور وزیر نے کہا: چار سو محکموں کو بند کرنے پر غور کر رہے ہیں، یہ ادارے معیشت پر بوجھ ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سے محکمے بند کئے جانے ہیں اور وہ کیوں بوجھ ہیں؟ کون سے محکمے بند کئے جا رہے ہیں‘ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن ''کیوں‘‘ کا جواب اس لطیفے میں موجود ہے۔ ہریانہ کا ایک کسان سر پر گٹھڑی اٹھائے جا رہا تھا۔ ایک سردار بیل گاڑی پر گزرا تو اس نے ترس کھا کر اسے بٹھا لیا۔ بیل گاڑی پر بیٹھنے کے بعد بھی کسان نے گٹھڑی سر پر ہی اٹھائے رکھی۔ سردار کے پوچھنے پر کہنے لگا: بیل پر پہلے ہی بوجھ ہے اس لیے گٹھڑی میرے سر پر ہی رہنے دیں۔ شاید حکومت بھی کچھ محکموں کا بوجھ اسی طرح گھٹانا چاہتی ہے۔
حکومت سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ہے جو اس سردار کے ساتھ ہوا تھا جو پہلی بار کولکتہ گیا تھا۔ ایک بنگالی پڑوسی نے اسے گھر پر دعوت دی۔ سردار کا خیال تھا کہ بھوجن کی دعوت ہے، بنگالی کے گھر فش کری، چاول اور رس گلوں سے پوری طرح انصاف کروں گا؛ چنانچہ اس نے سارا دن کچھ نہ کھایا اور شام کو بنگالی کے گھر پہنچا تو پتہ چلا‘ دعوت بھوجن کی نہیں بھجن کی تھی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے حکمرانوں کو مغل بادشاہ بتایا اور سویڈن سمیت کئی یورپی ملکوں کے حکمرانوں کی مثالیں دیں جو سائیکل پر دفتر جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا حالت ہے؟ خشونت سنگھ نے لکھا کہ ایک امریکی وفد بھارت کے دورے پر آیا، دارالحکومت کے دورے کے دوران ایک شام وفد کو سیکرٹریٹ کی چھت پر لے جایا گیا تاکہ وہ شہر کی خوبصورتی کا نظارہ کر سکیں۔ اس دوران چھٹی ہو گئی اور سیکرٹریٹ سٹاف ہزاروں کی تعداد میں سائیکلوں پر اور پیدل نکلا۔ امریکی وفد نے پوچھا یہ کون ہیں؟ وفد کے ساتھ موجود وزیر نے بتایا کہ یہ بھارت کے عوام ہیں، بھارت کے اصل حکمران۔ چند منٹوں کے بعد قومی پرچموں والی لیموزین گاڑیوں کے فلیٹ نکلے جن کے ساتھ پولیس موٹر سائیکلوں کے سکواڈ بھی تھے۔ امریکی وفد نے پوچھا یہ کون ہیں؟ وزیر نے بتایا: یہ ہم ہیں، عوام کے خادم۔
کسی وزیر کی سوچ کیا ہوتی ہے خشونت سنگھ نے اس کی پوری وضاحت کی ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک امیر آدمی کا بیٹا بیرون ملک سے پڑھنے کے بعد واپس آ رہا تھا۔ اس شخص نے اپنے ایک دوست کو بھی بیٹے کی آمد پر گھر بلایا۔ دوست کو لے کر ایک کمرے میں گیا‘ جہاں اس کے بیٹے نے ٹھہرنا تھا۔ میز پر رقم، بائبل، بوتل اور پستول رکھی تھی۔ اس شخص نے دوست سے کہا کہ اگر اس کے بیٹے نے رقم اٹھائی تو اس کا مطلب ہے وہ بزنس مین بننا چاہتا ہے۔ اگر بائبل اٹھائی تو اس کا مطلب ہے وہ ایک نیک اور مذہبی آدمی بن گیا ہے۔ بوتل اٹھائی تو اس کا مطلب ہے وہ نشئی ہے جو کسی کام کا نہیں۔ پستول اٹھائی تو اس کا مطلب ہے وہ گینگسٹر بنے گا۔ بیٹا آیا تو دونوں پردے کی آڑ میں ہو گئے۔ لڑکے نے میز پر پڑی چیزیں دیکھیں، بوتل اٹھا کر بڑا سا گھونٹ بھرا، رقم جیب میں ٹھونسی، پستول بیلٹ کے ساتھ لگائی اور بائبل بغل میں داب کر چلتا بنا۔ باپ نے حیرت سے دیکھا اور کہا، اوہ یہ تو وزیر بنے گا۔
دو سردار ٹھیکے سے دارو پینے کے بعد سائیکل پر واپس گھر کو نکلے۔ پیچھے بیٹھا سردار راست میں گر پڑا، دوسرا سائیکل چلاتا گھر پہنچ گیا، مڑ کر دیکھا تو ساتھی غائب تھا۔ دوبارہ ٹھیکے کا رخ کیا، دیکھا دوست بیچ سڑک اطمینان سے بیٹھا ہے۔ پاس بیٹھ کو پوچھا: ٹھیک تو ہو؟ جواب ملا، کیریئر بہت اچھا ہے، میں سکون سے ہوں، تم سائیکل چلاتے رہو۔ ملکی معیشت چلانے والوں کی حالت بھی بیچ سڑک بیٹھے سردار جیسی ہی لگتی ہے۔
ایک امریکی سیاح بھارت پہنچا، ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ شہر گھومنے نکلا، راشن ڈپو پر بہت ہجوم جمع تھا، دھکم پیل ہو رہی تھی۔ سیاح نے پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ ڈرائیور نے ملک کی ساکھ بچانے کے لیے جھوٹ بولا اور کہا: فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔ ایک اور جگہ وہی منظر تھا۔ پوچھنے پر کہا: فلم کی شوٹنگ ہے، پارٹ ٹو۔ ایک اور جگہ پھر ویسا منظر دیکھنے کو ملا، ڈرائیور نے بتایا: فلم کی شوٹنگ پارٹ تھری۔ سیاح حیران ہوا‘ کہنے لگا: فلم کا نام کیا ہے، ڈرائیور نے بتایا: ہندوستان پر ڈاکومنٹری ہے، ہندی میں نام ہے، چالیس سال بعد۔ اسی طرح وزرا بھی حکومتی پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے اِدھر اُدھر کی مارتے رہتے ہیں‘ حالانکہ انہیں بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ درست نہیں۔
حکومتی معاشی پالیسی اور فواد چوہدری صاحب کے بیان کے بعد لگتا ہے، لنگر خانوں پر بھی ٹکٹ کے لیے کھڑکی توڑ رش لگنے کو ہے۔ فواد چوہدری سے پہلے مراد سعید، فیصل واوڈا، عبدالرزاق داؤد سمیت کئی جوان اور بزرگ دانشور قوم کو معاشی خوشحالی کے خواب دکھاتے رہے ہیں‘ لیکن لگتا ہے اب کچھ لوگوں کو حکومتی دعووں پر یوٹرن کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وزیر اعظم اپنے وزرا کے بیانات کا نوٹس لیں یا پھر انہیں اپنے شعبوں تک بیانات دینے تک محدود رہنے کی ہدایت کریں۔ ڈاکٹر، تاجر اور دیگر شعبوں کے لوگ پہلے ہی احتجاج کر رہے ہیں، اس پر ایسے بیانات۔ اگر حالت یہی رہی تو کسی کو دھرنا دینے کی ضرورت نہیں رہے گی، عوام کسی سیاسی قیادت کی کال کا انتظار کئے بغیر ہی سڑکوں پر ہوں گے۔