آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے۔ توسیع کس کا اختیار ہے؟ کن حالات میں توسیع دی جا سکتی ہے؟ آئین اس معاملے میں کیا کہتا ہے؟ آرمی ریگولیشنز مدتِ ملازمت بڑھانے یا دوبارہ تقرر پر کیا قدغن لگاتے ہیں یا اجازت دیتے ہیں؟ ان تمام سوالات کے جوابات اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر ہی ملیں گے۔ عدالت میں زیر بحث معاملے پر ایک حد سے آگے بات نہیں کی جا سکتی‘ لیکن یہ تجزیہ کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ معاملات اس نہج تک کیسے پہنچے اور اس پر سول، عسکری اور قانونی حلقوں کی رائے کیا ہے۔
وزیر اعظم کے دفتر سے انیس اگست کو جب ایک چٹھی جاری ہوئی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال تک بڑھانے کی منظوری کا اعلان کیا گیا، تب سے قانونی اور صحافتی حلقوں میں مدت ملازمت بڑھانے کے طریق کار پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ یہ وزیر اعظم آفس کا ایک اعلامیہ یا بیان تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس چٹھی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ میڈیا کے سوالات پر حکمرانوں نے کان نہ دھرے ۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں سوال اٹھتے رہے لیکن کوئی بھی ان سوالوں کا جواب دینے سامنے نہ آیا۔ بالآخر بارہ ستمبر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر عارف علوی نے کہا کہ انہیں یہ انٹرویو دینے کے وقت تک کوئی سمری نہیں ملی، جونہی سمری موصول ہوئی وہ دستخط کر دیں گے، یہ معمول کی کارروائی ہے۔ صدر عارف علوی کی طرف سے یہ بات سامنے آنے پر وزیر اعظم آفس (دفتر) کی چٹھی پر اٹھنے والے سوالات وقتی طور پر تھم گئے اور نوٹیفکیشن کا انتظار کیا جانے لگا۔
اب جنرل ندیم رضا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس کے ساتھ ہی یہ خبر بھی میڈیا کو دی گئی کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت انیس اگست کے اعلان کے مطابق پہلے ہی بڑھا دی گئی ہے۔ عسکری معاملات پر ہر صحافتی ادارے میں سینئر ترین رپورٹرز مقرر ہوتے ہیں اور وہ کبھی خود سے خبر میں اضافہ اور ترمیم نہیں کرتے اور معاملات کی حساسیت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اس خبر میں انیس اگست کی تاریخ کا ذکر ہوا تو دوبارہ سوال اٹھ کھڑے ہوئے اور اس بار صدر عارف علوی کے انٹرویو کے حوالے سے ان سوالات نے ایک سازشی مفروضے کا روپ دھار لیا۔
سپریم کورٹ میں اس حوالے سے درخواست دائر ہوئی جو از خود نوٹس میں تبدیل ہو گئی۔ پہلی سماعت پر اٹارنی جنرل نے معاملات کو خود الجھا دیا۔ اٹارنی جنرل نے خود ہی عدالت کے سامنے وہ ساری دستاویزات رکھنا شروع کر دیں‘ جن کو اس وقت تک طلب بھی نہیں کیا تھا اور اس حوالے سے کوئی نوٹس جاری نہیں ہوا تھا۔ اٹارنی جنرل کی طرف سے داخل کی گئی دستاویزات اور جواب پر تشفی نہ ہوئی اور عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ سماعت کے دوران بتایا گیا کہ علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جا رہی ہے، حالانکہ علاقائی سکیورٹی سے نمٹنا کسی ایک افسر کی نہیں بلکہ بطور ادارہ پوری فوج کی ذمہ داری ہے اور اگر علاقائی سکیورٹی کی صورتحال کو مدت ملازمت میں توسیع کی وجہ مان لیا جائے تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ پاکستان آرمی سے متعلق قوانین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کے حوالے سے کوئی واضح شق موجود ہی نہیں ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت پر پٹیشن اور از خود نوٹس ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے، اس وجہ سے اس خبر اور کارروائی کو غیر معمولی تصور کیا جا رہا ہے لیکن میری رائے میں یہ حالات حکومت نے خود پیدا کئے۔ اسے نا اہلی کہیں، بد نیتی یا حماقت لیکن یہ کوئی اچھی روایت نہیں۔ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع کو متنازعہ بنانا یقیناً پریشان کن ہے۔
حسب روایت حالات بگڑنے پر حکومت حرکت میں آئی، کابینہ کا غیر معمولی طویل اجلاس ہوا جس کے بعد تین وزرا نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ حتمی ہے، معزز عدالت نے آبزرویشن دی تھی کہ آرمی ریگولیشن 255 میں توسیع کا ذکر نہیں ہے، وفاقی کابینہ نے عدالت کی مدد کرنے اور معاملات کو کلیئر کرنے کے لئے آرمی ریگولیشن 255 میں ترمیم کرتے ہوئے معطلی، ریٹائرمنٹ کے ساتھ ساتھ ''مدت ملازمت میں توسیع‘‘ بھی شامل کر دی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ اعلان بعد از خرابیٔ بسیار حالات سدھارنے کی ایک کوشش بتائی جاتی ہے لیکن کیا عدالتی اعتراضات کے بعد کی گئی ترمیم کو فرد واحد کے لیے کی گئی ترمیم تو نہیں سمجھا جائے گا؟ کیا حکومت نے اس ترمیم کے ذریعے خرابی دور کی ہے یا مزید بگاڑ پیدا کیا ہے؟ عدالتی فیصلہ جو بھی آئے‘ تاریخ اس اقدام کو کس نظر سے دیکھے اور یاد کرے گی، اس پر کسی کا دھیان اب تک نہیں گیا۔
معاملہ عدالت میں جانے کے بعد اس میں توہین کا عنصر تلاش کیا جا رہا ہے، اس طرح کی بحث چھیڑنے والے کسی سے مخلص نہیں، کسی بھی آئینی اور قانونی معاملے پر عدالتی رہنمائی کسی کی توہین تصور نہیں کی جا سکتی، رہی یہ بات کہ جن فریقوں کو نوٹس جاری کئے گئے ان میں آرمی چیف بھی شامل ہیں، تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع آرمی چیف کا اختیار ہے نہ حکومت کی طرف سے کبھی ایسا تاثر ملا کہ آرمی چیف خود مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک اور اہم خبر یہ آئی کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے عدالت میں رضاکارانہ پیش ہونا چاہتے ہیں۔ مدت ملازمت بڑھانے میں جب آرمی چیف صاحب کا کوئی کردار ہی نہیں تو فروغ نسیم کس کی اور کیا وکالت کریں گے؟ حکومت کے اقدامات کی توجیہہ تو حکمران ہی بیان کر سکتے ہیں لیکن اس استعفیٰ سے لگتا ہے کہ حکمران اب نقصان پر قابو پانے کی کوشش میں ہیں۔
ایک خبر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ انتہائی اعلیٰ سطح پر اس تجویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ملک میں ہنگامی حالات نافذ کرکے کسی بھی پیش آمدہ صورتحال کی راہ روک دی جائے۔ خبر دینے والوں کا کہنا ہے کہ اس تجویز کے حوالے سے قطعی مفاہمت نہیں ہو سکی؛ تاہم خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر یہ خبر درست ہے تو حکومت ایک اور حماقت پر آمادہ نظر آتی ہے۔ ایمرجنسی کا نفاذ کبھی بھی پسندیدہ آپشن نہیں رہا۔
اب تک کی حکومت کی گھبراہٹ، نالائقی اورکنفیوژن بتاتی ہے کہ حکمران غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے مزید غلطیوں کی طرف مائل ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے کسی اور سیاق و سباق میں نیا کٹا کھولنے کی بات کی تھی‘ لیکن لگتا ہے کہ ہر روز نیا کٹا کھولنا اس حکومت کا مشغلہ ہے۔ حکومت نان ایشوز کو گرم رکھ کر عوام کے مسائل اور معاشی مشکلات سے توجہ ہٹانے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے، ایسا نہ ہو بوتل سے جن نکالنے والے اسے واپس بوتل میں بند کرنے کے قابل نہ رہیں۔
چوہدری شجاعت حسین بھی ایک نیا کٹا کھولنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے قانونی ماہرین سے کہا ہے کہ ان کی جماعت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی جائے تاکہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر معاملات خرابی کی جس سطح پر پہنچ گئے ہیں‘ اس کا اصل ذمہ دار کون ہے پہلی حکومتیں، پچھلی حکومت یا موجودہ حکومت۔ چوہدری شجاعت حسین منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، وہ یہ کٹا بہت سوچ سمجھ کر کھول رہے ہیں اور اس معاملے پر شاید حکومت کے لیے دفاع مشکل ہو جائے گا۔