ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی افواج کے فضائی حملے میں ہلاکت کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان ڈرامائی انداز میں پہلے سے موجود کم درجے کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور اس بڑھتی کشیدگی کے نتائج مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ ایران کی جانب سے جوابی حملے کا خطرہ موجود ہے۔ ایک تسلسل سے ہونے والے واقعات اور ان پر رد عمل کا یہ سلسلہ دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا سکتا ہے۔ امریکہ ایران کشیدگی سے پورا خطہ متاثر ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس حملے کے بعد خطے کے اہم رہنماؤں سے فون پر رابطے کئے۔ مائیک پومپیو نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ان کی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے قاسم سلیمانی کو اپنے دفاع میں ختم کرنے سے متعلق بات ہوئی ہے‘ ایرانی حکمرانوں کے اقدامات کی وجہ سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے اور امریکہ خطے میں اپنے مفادات، عملے، تنصیبات اور اپنے حلیفوں کے تحفظ کے اپنے عزم پر قائم ہے اور وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ مائیک پومپیو نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی رابطہ کیا۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان پر امریکیوں نے جنگ مسلط کی تھی اور اس جنگ میں پاکستان کو بھی گھسیٹ لیا تھا۔ افغان جنگ کا خمیازہ ہم آج تک دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پوری دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں پاکستان کے اربوں ڈالر نقصان اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔ اب ایک بار پھر ایک اور ہمسایہ ملک پر جنگ مسلط ہونے کو ہے، امریکی ایک بار پھر خطے کے ملکوں سے تعاون طلب کریں گے، ابتدائی رابطوں میں کیا بات ہوئی ابھی سامنے نہیں آیا۔
نائن الیون کے وقت ایک ڈکٹیٹر پاکستان پر مسلط تھا جس نے اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ تنہا کیا اور پاکستان آج بھی لہو لہو ہے۔ اس وقت ڈکٹیٹر کی ایک دلیل یہ تھی کہ اگر ہم ساتھ نہ دیتے تو بھارت تیار بیٹھا تھا اور امریکی افغانستان کے ساتھ ہمارا بھی برا حشر کرتے۔ ایک تنہا شخص کے فیصلوں کے اثرات دیکھنے کے بعد یقینا سب کو سمجھ آ چکی ہو گی لیکن یہ دہرانا ضروری ہے کہ خطے کے حالات پر کوئی بھی فیصلہ کسی ایک شخص کی صوابدید اور دانش پر نہیں چھوڑا جا سکتا، کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ اس پر بحث کرے، پارلیمنٹ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ قوم کی اجتماعی دانش کا فیصلہ سمجھا جائے گا۔
نائن الیون کے بعد امریکی جنگ میں کودنے کی ایک وجہ بھارت کی آمادگی بیان کی گئی تھی۔ اس وقت بھارت تیار تھا یا نہیں، اس پر اب بحث لا حاصل ہو گی؛ تاہم اس وقت بھارت کی کیا پوزیشن ہے، اس پر سوچ بچار اور بحث فائدہ مند ہو گی۔ بھارت اور ایران کے تجارتی اور سٹریٹیجک مفادات مشترکہ ہیں، بھارت تہران کے علاوہ واشنگٹن کا بھی اتحادی ہے۔ جنرل قاسم کے قتل سے صرف دو ہفتے پہلے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے تہران کا دورہ کیا، دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی اور چاہ بہار منصوبے پر بات ہوئی۔ بھارت نے گوادر کے مقابلے کے لیے چاہ بہار میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے بھارت نے واشنگٹن سے خصوصی رعایتیں بھی لی تھیں اور امریکا نے اس منصوبے پر بھارت کو اس شرط پر استثنا دیا تھا کہ اس منصوبے میں ایرانی پاسداران انقلاب کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
امریکا کی حالیہ پابندیوں سے پہلے ایران بھارت کا سب سے بڑا تیل سپلائر تھا۔ پابندیوں کے نفاذ کے بعد بھی امریکا نے بھارت کو متبادل بندوبست کے لیے چھ ماہ کا استثنا دیا تھا۔ ایرانی تیل و گیس کی سپلائی بند ہونے کے بعد امریکا اس کی جگہ لے رہا ہے اور بھارت کی توانائی کی ضروریات کا دس فیصد امریکا پورا کر رہا ہے۔ بھارت کے لیے امریکا کی توانائی برآمدات آٹھ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہیں۔ چاہ بہار کے ذریعے بھارت افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
بھارت جنرل قاسم کے قتل کے بعد سخت مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ کنول سبل کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس غیر ذمہ دارانہ اقدام نے بھارت کو مشکل میں ڈال دیا ہے، بین الاقوامی قوانین کے تحت امریکا کا یہ اقدام غیر قانونی ہے، اس اقدام سے خطہ کشیدگی کی زد میں آئے گا اور بھارتی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ بھارت کا سب سے بڑا نقصان عراقی تیل کی سپلائی کا متاثر ہونا ہے۔ ایران سے تیل کی درآمدات بند کرنے کے بعد بھارت اب عراق پر انحصار کر رہا ہے۔ بھارتیوں کی بڑی تعداد خلیجی ملکوں میں ملازمت اور کاروبار کر رہی ہے۔ خطے میں جنگ کی صورت میں بھارت کے لیے ان سمندر پار بھارتیوں کی ترسیلات زر بند ہو جائیں گی اور یہ بھارتی بیروزگار ہو کر واپس آ سکتے ہیں۔ عراق کویت جنگ میں ایک لاکھ ستر ہزار بھارتیوں کو نکالنا پڑا تھا۔ بھارت کی معیشت اس وقت مشکل صورت حال سے گزر رہی ہے، جی ڈی پی کی شرح گر گئی ہے، حکومت کے لیے بجٹ خسارے پر قابو پانا ناممکن ہو گیا ہے، ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور ترسیلات زر میں کمی بھارتی معیشت کو بڑا نقصان پہنچائے گی۔ بھارت کو خلیجی ملکوں سے چار ارب ڈالر سالانہ ترسیلات زر ہوتی ہیں۔
بھارت کو ایران تنازع میں ایران اور امریکا کے ساتھ بیک وقت تعلقات میں توازن کا چیلنج درپیش ہو گیا۔ بھارت خلیجی ملکوں کے ساتھ بڑھتے تعلقات میں بھی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ اس کے حال ہی میں گرم جوش ہوتے تعلقات میں ایران تنازع بڑا چلینج بن کر ابھرا ہے۔ بھارت چین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکا کے ساتھ جو سٹریٹیجک اتحاد بنا رہا تھا‘ اس نئے تنازع میں واشنگٹن کی پوری توجہ مشرق وسطیٰ پر مرکوز ہو جائے گی اور بھارت کی اس خطے میں امریکا کو ساتھ ملا کر نئی حکمت عملی تشکیل دینے کی پالیسی دھری رہ جائے گی۔ خلیج تعاون کونسل کے ملکوں کے ساتھ بھارت کی تجارت کا حجم اٹھہتر ارب ڈالر سالانہ ہے۔ خطے میں جنگ یا حد سے بڑھی کشیدگی میں یہ تجارتی حجم بھی متاثر ہو گا۔
ان حالات میں بھارت کی کوشش ہو گی کہ امریکا ایران کشیدگی ایک حد سے آگے نہ بڑھنے پائے، بھارت ایران کے خلاف امریکا کو کھل کر کوئی پیشکش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے یہاں نائن الیون جیسی کوئی صورت حال نہیں ہے کہ بھارت امریکا کو تعاون پیش کر کے پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
افغانستان کی حکومت اور ایران کے تعلقات بھی بہت اچھے ہیں، ایران افغان طالبان کے ساتھ مستقبل میں کوئی لڑائی لینے کے موڈ میں نہیں اس لیے طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہے۔ ان حالات میں امریکا کے لیے افغانستان میں بھی مشکل حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ امریکا کی بارہ ہزار فورسز افغانستان میں ہیں‘ جنہیں وہ پہلے ہی نکالنے کا ارادہ رکھتا تھا، ایران کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں امریکا کے لیے افغانستان میں بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو کسی تنازع میں الجھے بغیر تمام اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنا ہو گا۔ پاکستان کو سعودی عرب سمیت کسی خلیجی دوست کو بھی ناراض نہیں کرنا‘ لیکن اپنے ہمسائے میں موجود ایران کے ساتھ بھی کوئی جھگڑا کھڑا نہیں کرنا، یہ مشکل صورت حال ہے لیکن اس مشکل صورت حال میں کچھ مواقع بھی ہیں، پاکستان افغانستان کے حوالے سے امریکا کے ساتھ معاملہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
فیصلے اگر پارلیمنٹ میں ہوں گے تو ہم جس طرح یمن جنگ کے تنازع سے بچ نکلے تھے، اب بھی بہتر فیصلے ہو سکتے ہیں لیکن حکمرانوں کو ذاتی سیاست اور جماعتی فائدے الگ رکھ کر اس پر بحث اور سوچ بچار کرنا ہو گی۔