"IYC" (space) message & send to 7575

سیاسی مفادات کے لیے …

تبدیلی کے نعرے کے ساتھ حکومت بنانے والے کپتان صاحب کسی بھی تقریب میں ریاست مدینہ کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ ان کے نزدیک ریاست مدینہ کیا ہے؟ ایک سیاسی نعرہ، جس کے ذریعے وہ لبرل ووٹوں کے ساتھ مذہبی رجحان رکھنے والے ووٹروں کو بھی اپنی جماعت کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر انہیں ریاست مدینہ کے درست تصور کا ادراک نہیں؟ یہ سوال اٹھانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ روزانہ اس نئے پاکستان میں ایسے فیصلے اور خبریں سامنے آتی ہیں جو ریاست مدینہ کے تصور سے بہت دور ہیں۔ ریاست مدینہ کی بنیاد مواخات، مساوات اور انصاف تھی۔
ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین کی معاشی بحالی کی ضرورت تھی، مدینہ کے یہودی مالدار تھے اور سود پر قرض مہیا کرتے تھے۔ مہاجرین کو معاشی بوجھ سے نجات دلانے کے لیے مواخات کو اپنایا گیا۔ انصار نے مہاجرین کو بھائی بنا کر انہیں اپنے اموال میں برابر کا شریک کیا اور انہیں پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی۔ اس طرح گھر بار چھوڑ کر مدینہ آنے والے مہاجرین کو یہودیوں کے سودی شکنجے میں پھنسانے کی بجائے ایک باعزت راستہ مہیا کیا گیا۔ دوسرا معاملہ مساوات کا ہے، نبی اکرمﷺ کی موجودگی میں مساوات اور انصاف یقینی تھا کیونکہ نبی خطا سے پاک ہوتے ہیں، اس لیے نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ کے دوران کے واقعات کو مثال بنانے کی بجائے ہم خلافت راشدہ کے زمانے کو دیکھیں تو بہتر ہو گا۔
مساوات کی سب سے بڑی مثال حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کے پہلے دن نظر آئی، جب صدیق اکبرؓ خلافت کی ذمہ داریاں ملنے کے بعد معمول کے مطابق تجارت کی نیت سے گھر سے نکلے۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ انہیں راستے میں مل گئے۔ پوچھا، کہاں کا قصد ہے؟ امیرالمومنین نے کہا کہ تجارت کی غرض سے بازار جا رہا ہوں تاکہ اہل و عیال کی ذمہ داری پوری کر سکوں۔ حضرت عمر فاروقؓنے فرمایا، تجارت اور مسلمانوں کے باہمی معاملات ایک ساتھ کیسے چلیں گے؟ حضرت صدیق اکبرؓ نے کہا، بات تو درست ہے لیکن اہل و عیال کی ضروریات اور ذمہ داری بھی تو پوری کرنا ہے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ امور ریاست نمٹانے کے لیے وقت اور محنت درکار ہوتی ہے، اگر خلیفہ تجارت کریں گے تو رعایا کا حق کیسے ادا کر پائیں گے؟ لہٰذا ان کا اور ان کے اہل و عیال کا خرچ پورا کرنے کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جانا چاہئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ کا مشورہ سن کر اب سوال یہ پیدا ہوا کہ امیرالمومنین اور ان کے اہل خانہ کی ضروریات کے لیے وظیفہ کتنا ہونا چاہئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس پر فیصلہ دیا کہ جتنا مدینہ کا ایک مزدور کماتا ہے اس کے برابر وظیفہ مناسب رہے گا۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے فکر کا اظہار کیا کہ شاید یہ رقم ان کی ضروریات کے لیے کم پڑے گی۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ اگر یہ رقم ایک مزدور کے گھر کے لیے کافی ہے تو خلیفہ کے لیے بھی کافی ہونی چاہئے، اگر خلیفہ کا اس رقم میں گزارہ نہیں ہوتا تو پھر یہ سوچا جائے کہ مزدور کیسے گزارہ کرتا ہے؟ (سیدنا ابوبکر صدیقؓ‘ شخصیت اور کارنامے‘ مصنف: علی محمد محمد الصلابی)
ریاست مدینہ کے تصور پر ہر وقت بلا تکان بات کرنے والے اس ریاست کے امیر کے طرز زندگی کو خود نہیں اپنا سکتے تو عوام کو کیسے اس پر عمل کا کہنے کے مجاز ہیں۔ یہاں تو کپتان نے خود ایک تقریب میں شکوہ کیا کہ ان کا سرکاری تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کے اس شکوے کے بعد ان کی تنخواہ بڑھانے کی خبریں سامنے آ گئیں لیکن کیا کسی نے ریاست کی طرف سے مزدور کی مقرر کی گئی اجرت پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی؟ اگر نہیں تو پھرسوچنا ہو گا کہ ریاست مدینہ کو آئیڈیل ماننے کا دعویٰ کرنے والے اس تصور کو صرف ووٹوں کی سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
مزدور کو زندگی کی گاڑی تو جیسے تیسے کھینچنا ہی پڑے گی لیکن ریاست نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت گنے چنے غریبوں کی کفالت کا ذمہ اٹھایا تھا۔ اس پروگرام پر بھی سیاست کی گئی اور پچھلی حکومتوں پر کیچڑ اچھالنے کے لیے اس پروگرام سے غیرمستحق افراد کے فائدہ اٹھانے کی خبریں اچھالی گئیں۔ کئی معززین کے ناموں کی فہرست سوشل میڈیا پر تصویروں کے ساتھ وائرل کی گئی کہ یہ بینظیر انکم سپورٹ کا ماہانہ وظیفہ وصول کر رہے تھے۔ میرے خیال میں اس پروگرام کو شفافیت سے چلانے کے نام پر حکمران جماعت کی طرف سے دی گئی فہرست کو شامل کرانا مقصود تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں مستحق افراد اس پروگرام سے نکال دیئے گئے‘ جس کا اعتراف قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کیا۔
امیر اور غریب کے درمیان فرق مٹانے کے لیے ریاست مدینہ میں زکوٰۃ کا نظام رائج تھا۔ ٹیکس وصولی کے لیے ریاست کا رویہ کیا ہونا چاہئے اور ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کرنے والے کس سلوک کے مستحق ہیں‘ اس کی مثال بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جنگ کرکے قائم کی، حالانکہ اس وقت صحابہ کی ایک قابل ذکر تعداد اس جنگ کے خلاف تھی اور اس جنگ کی صورت میں ریاست کو مشکلات کا خدشہ تھا۔
ٹیکس وصولیوں کے لیے حکومتی بیانات اور نعرے اپنی جگہ، زمینی حقائق یہ ہیں کہ ٹیکس وصولیوں کے سب سے بڑے ذمہ دار شبر زیدی اپنے کاموں میں ریاستی حکام کی طرف سے مبینہ رکاوٹوں کی وجہ سے طویل رخصت پر جا چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان تاجروں اور سرمایہ کاروں کے دباؤ میں ہیں اور ان کے مطالبے پر احتساب نظام میں تبدیلی لا چکے ہیں۔ ٹیکس اکٹھا نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کا قرضوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ ملکی قرضوں کے حوالے سے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے پالیسی بیان میں وزارت خزانہ نے بتایا کہ مالی سال 2018-19 کے اختتام پر مجموعی قرض اور واجبات 290 کھرب 87 ارب 90 کروڑ روپے تھے جو ستمبر 2019 تک 410 کھرب 48 ارب 90 کروڑ روپے سے تجاوز کر گئے‘ یعنی اس میں 39 فیصد یا 110 کھرب 60 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ قرضوں کے اس بوجھ کو عوام کی کمر پر لاد دیا جاتا ہے اور جب کبھی حقیقی ریلیف دینے کی کوئی صورت نکلتی ہے تو ان قرضوں کو جواز بنا کر ریلیف سے ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے جس کی تازہ مثال پٹرولیم کی قیمتوں میں عالمی مارکیٹ میں تین ماہ سے مسلسل کمی کا فائدہ عوام کو نہ پہنچانا ہے۔
ریاست مدینہ کے دعویدار عوام کو ریلیف دینے کی بجائے تسلی دیتے ہیں کہ گھبرانا نہیں، جلد حالات سنور جائیں گے اور خود مراعات میں اضافے کے متمنی ہیں‘ جس کا ثبوت ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرایا گیا مسودہ قانون ہے۔ اس مسودہ قانون میں چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، سپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں میں 400 فیصد جبکہ تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس اضافے کی وجہ مہنگائی کی حالیہ لہر اور روپے کی قدر میں کمی بتائی گئی ہے۔ کیا عوام اس مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی سے متاثر نہیں ہوئے؟ یہ کس فلاحی ریاست میں تصور ہے کہ حکمران طبقے کی مراعات مہنگائی کو جواز بنا کر بڑھا دی جائیں لیکن بین الاقوامی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بھی عوام تک نہ پہنچنے دیا جائے۔
جب ووٹ لے کر آنے والے تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کریں تو بیوروکریسی کیوں پیچھے رہے گی؟ بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین فورم سیکرٹریز کمیٹی نے بھی حکومت کو سفارش کی ہے کہ وفاقی سیکرٹریوں اور انچارج سیکرٹریوں کو چار لاکھ روپے ایگزیکٹو الاؤنس اور وفاقی سیکرٹریٹ کے تمام ملازمین اور افسروں کی تنخواہوں میں 120 فیصد یکساں اضافہ کیا جائے۔
وزیراعظم کی تنخواہ بڑھ جائے گئی، ارکان پارلیمنٹ کی کوشش بھی کامیاب ہوگی، بیوروکریسی کا مطالبہ بھی حکمران ٹال نہیں پائیں گے۔ ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہمارے اعتراض کی پروا کون کرتا ہے لیکن بس اتنی گزارش ہے کہ ریاست مدینہ اور مقدس ہستیوں کو مفاداتی سیاست میں استعمال نہ کیا جائے۔ ذات برادری، رنگ و نسل کی بنیاد پر سیاست کو برا سمجھا جاتا ہے، خدارا ! مذہب کو آج کی آلودہ سیاست میں استعمال کرنے والوں کو بھی روکا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں