"IYC" (space) message & send to 7575

حکومت کو درپیش سیاسی چیلنج اور مالی بحران

تحریک انصاف کی حکومت کو کئی سیاسی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں پارٹی کے اندر بڑھتی گروپ بندی، اتحادیوں کے شکوے، پنجاب میں گورننس کا فقدان اس وقت نمایاں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مقتدر قوتوں کے ساتھ پاور شیئرنگ مذاکرات کا بھی شور ہے اور حکومت کے طاقتوروں کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا تاثر بھی اتنا مضبوط نہیں رہا۔ سیاسی حالات ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں اور تحریک انصاف کی سیاسی حمایت میں بھی کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ حکومت کی مقبولیت دو سال سے بھی کم عرصے میں سکڑتی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کی مشکلات کا ذمہ دار کسی بھی صورت اپوزیشن کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مقدمات اور نیب کا سامنا کرتی اپوزیشن عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کر پائی اور حکومت کو من مرضی کے فیصلوں کا پورا موقع ملا۔ حکومت کی مقبولیت میں کمی کی بنیادی وجہ اس کے معاشی فیصلے ہیں۔ حکومت بنانے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کے لیے بروقت فیصلہ نہ کر پائی۔ اس حکومت اور سرپرستوں نے ملک چلانے کی خاطر دوست ملکوں سے رابطے کر کے قرضوں کا بندوبست کیا‘ لیکن معیشت چلانا نا ممکن ہو گیا تو آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی راہ سجھائی نہ دی۔
آئی ایم ایف کے پاس جانے میں اتنی دیر کر دی گئی کہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے شرح سود، معاشی اصلاحات کی شرائط تو ماننا ہی تھیں اہم مالیاتی اداروں پر نگران بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے مسلط کرنا پڑے‘ یوں ملک پر آئی ایم ایف کی حکمرانی تسلیم کر لی گئی۔ تحریک انصاف کی تمام تر سیاست آئی ایم ایف کے فیصلوں پر ٹک گئی۔ آئی ایم ایف نے اپنے سابق مشن چیف رضا باقر کو سٹیٹ بینک کا سربراہ بنوایا۔ بیل آؤٹ پیکج پر ڈیڈ لاک توڑنے کے لیے کپتان کی معاشی ٹیم کے سربراہ اسد عمر کی وزارت کی قربانی دینا پڑی اور ملکی معیشت چلانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے پوائنٹ مین سمجھے جانے والے عبدالحفیظ شیخ کو لایا گیا‘ جو اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کو آئی ایم ایف کا معاشی پیکیج دلوانے میں اہم کردار ادا کر چکے تھے‘ لیکن ان کی معاشی پالیسیوں نے پیپلز پارٹی کو الیکشن میں ناکامی سے دوچار کیا تھا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت پر پہلا وار انتہائی بھونڈے طریقے سے روپے کی قدر گرانے سے کیا اور روپے کو مارکیٹ پر چھوڑنے کے لیے کہا، کرنسی کو مارکیٹ پر اسی وقت چھوڑا جا سکتا ہے جب برآمدات زبردست ہوں اور کرنسی دیگر کرنسیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو، جب ملکی برآمدات اور درآمدات میں کوئی توازن ہو۔ پاکستان کی تیل کی ضروریات درآمدی تیل سے پوری ہوتی ہیں، تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں گھٹتی بڑھتی ہیں اور توازن انتہائی مشکل ہے۔ ان حالات میں یہ فلسفہ پیش کیا گیا کہ روپے کی قدر کم کر کے برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ 
آئی ایم ایف والوں نے پاکستان کو جو پروگرام دیا اور اپنے اعتماد کے لوگ ملکی مالیاتی اداروں پر بٹھائے اس سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں پاکستان کو دیئے گئے فنڈز میں گھپلوں کا ڈر تھا اور وہ نگرانی خود کرنا چاہتے تھے۔ حکومت نے ملک کے قرضوں کا آڈٹ کرنے کے لیے کمیشن کا اعلان کر کے آئی ایم ایف کے شبہات پر مہر ثبت کی کہ قرضوں کا استعمال درست نہیں ہوا‘ لیکن کسی نے یہ پوچھنے کی ہمت نہ کی کہ ماضی کے لیے گئے قرضوں میں آج کے مشیر خزانہ کا بھی کوئی ہاتھ تھا، ان قرضوں کو خرچ کرنے کی پالیسیاں بھی ان کی ہی بنائی ہوئی تھیں۔
آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے ہوئے ایسی شرائط تسلیم کی گئیں جن کا پہلے ہی پتہ تھا کہ ان کا حصول نا ممکن ہے۔ آئی ایم ایف نے ریونیو پینتالیس فیصد بڑھانے کا ٹاسک دیا۔ ریونیو ٹاسک پورا کرنے کے لیے شبر زیدی کو لایا گیا جنہوں نے اس ٹاسک کو پورا کرنے کی نا صرف ہامی بھری بلکہ اس کے لیے ایسے اقدامات کئے جن سے ملک میں ہونے والی ہلکی پھلکی معاشی سرگرمی بھی رک گئی۔ پچاس ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی نقل جمع کرانے جیسی شرائط لائی گئیں۔ ان شرائط سے ملک میں رئیل سٹیٹ کا کاروبار بھی رک گیا جو سرمایہ کاروں کے نزدیک ایک محفوظ سیکٹر تھا اور سرمایہ کی گردش بالکل رک گئی۔
آئی ایم ایف نے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے سی پیک منصوبوں کے معاہدے سامنے لانے کی بھی شرط رکھی جس سے چین اور پاکستان کے معاملات میں بھی ایک خرابی پیدا ہوئی۔ یہ خرابی مشیر تجارت کی طرف سے سی پیک منصوبوں پر نظرثانی کے اعلان سے جڑ پکڑ چکی تھی۔ سی پیک کے قرضوں پر امریکا پہلے ہی شور مچا رہا تھا کہ چین دنیا بھر میں ملکوں کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت قرضوں میں جکڑ کر جیو سٹریٹیجک مفادات پورے کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے سی پیک منصوبے کے معاہدے دکھانے کی شرط نے اس مالیاتی پیکیج کے مقاصد اور امریکی مفادات کا آلہ کار ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی۔
آئی ایم ایف نے بجلی، گیس سمیت ہر شعبے میں نا صرف سبسڈی ختم کرنے پر زور دیا بلکہ ریونیو اکٹھا کرنے کے حوالے سے دبائو اس قدر بڑھایا کہ صنعتیں بند ہو گئیں۔ ریونیو کے بادشاہ شبر زیدی اب اس حکومت کو خدا حافظ کہہ کر واپس سدھار گئے ہیں اور حکومت کو سمجھ نہیں آ رہا کہ اگلی قسط کے لیے آئی ایم ایف کو کیسے منائے۔ آئی ایم ایف سے کہا جا رہا ہے کہ اب وہ اپنی شرائط پوری کرنے کے لیے مزید مہلت دے۔
آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے کے لیے ریاست کے ملکیتی ادارے اور زمینیں فروخت کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں لیکن اس نج کاری میں خسارے کے سوا کچھ ہاتھ آنے کی توقع نہیں۔ آئی ایم ایف نے ریونیو میں اضافے کی شرط لگا رکھی ہے اس کے ساتھ حکومتی اخراجات میں کمی کی بھی شرط ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملکی معیشت میں سست روی پیدا کر رہی ہیں۔
آئی ایم ایف کا جائزہ مشن پاکستان میں ہے، پاکستان کو تین سو ستاسی ارب روپے بجٹ خسارے کا سامنا ہے، یہ خسارہ جون میں مالیاتی سال کے اختتام تک دوگنا ہونے کے خدشات ہیں۔ اس بجٹ خسارے پر کیسے قابو پایا جائے گا؟ آئی ایم ایف کے اس سوال کا جواب کپتان کی معاشی ٹیم کے پاس نہیں ہے۔ بجلی‘ گیس کی قیمتیں پہلے ہی اتنی بڑھا دی گئی ہیں کہ عوام کی جیبوں سے مزید کچھ نچوڑنا ممکن نہیں رہا، مہنگائی دس سال کے ریکارڈ توڑ چکی ہے، افراط زر اور شرح سود بے قابو ہو چکے ہیں، آئی ایم ایف سے نئی قسط لینے کے لیے حکومت مزید ٹیکس لگانے پر آمادگی ظاہر کرے گی اور نیا منی بجٹ لایا جائے گا۔
جو کام متحدہ اپوزیشن نہیں کر سکی اب وہ کام آئی ایم ایف کے ہاتھوں مجبور ہو کر حکومت خود کرے گی اور نئے منی بجٹ سے عوام کی کمر توڑ کر دراصل اپنے پاؤں پر کلہاڑا چلائے گی۔ اپوزیشن اس صورت حال کو بھانپ چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پیکیج بدلے ورنہ تحریک چلائیں گے‘ آئندہ ماہ سے پورے ملک میں عوام دشمن عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) معاہدے کے خلاف مارچ شروع کریں گے۔ بلاول بھٹو نے آئی ایم ایف معاہدہ مسترد کرتے ہوئے ڈیل پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور اسے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اندرونی طور پر سیاسی اور معاشی چیلنجوں میں گھر چکی ہے۔ کپتان کو اس کی معاشی ٹیم نے ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کپتان جس ٹیم کو ملک کے مسائل کا نجات دہندہ بتاتے رہے‘ اس ٹیم نے کپتان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کا ثمر ضائع کر دیا ہے اور کپتان کے سیاسی فیصلے ان کی حکومت کو مزید بحرانوں سے دوچار کر رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں