کورونا وائرس نے وبائی صورت اختیار کر کے نا صرف دنیا بھر کے انسانوں کی صحت اور زندگی کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر معاشی سرگرمیاں بھی اس سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ کئی شعبے مکمل دیوالیہ ہونے کو ہیں جن میں ٹریول انڈسٹری سر فہرست ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن نے ٹریول انڈسٹری کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ سیاحت اور ہوٹل انڈسٹری بھی بند ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والا معاشی نقصان ٹریلین ڈالرز میں ہے۔
پاکستان بھی اس صورت حال سے شدید متاثر ہوا ہے۔ روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کے رجسٹرڈ کارخانوں، کاروباری مراکز اور مارکیٹوں میں 9 لاکھ 45 ہزار افراد بے روزگار ہو جائیں گے جن میں سے پنجاب میں لگے 68 فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں کے مزدور بے روزگاری کا سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ غیر دستاویزی معیشت میں شامل گلی محلوں میں غیر رجسٹرڈ کاٹج انڈسٹری میں کام کرنے والے، کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ دیہاڑی دار محنت کش، خوانچہ فروش، پرچون فروش، اور اسی قسم کے کام کاج سے منسلک لاکھوں افراد بھی متاثرین میں شامل ہوں گے۔ کیٹرنگ، شادی ہال، سیاحت، ٹرانسپورٹ، تفریح کے شعبوں میں کساد بازاری اور بحران کی باز گشت شروع بھی ہو گئی ہے۔
ابھی ملک میں مکمل لاک ڈاؤن جیسی حالت نہیں ہے لیکن چند دنوں میں ایسا ممکن نظر آ رہا ہے؛ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز قوم سے اپنے مختصر خطاب میں ان وجوہ پر روشی ڈالی جن کی بنا پر لاک ڈائون کرنا محال نظر آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے حالات کا مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ حالات خطر ناک شکل اختیار کر گئے تو حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی ملک کو لاک ڈائون کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں ملک میں بے روزگاروں اور دیہاڑی دار طبقے کی حالت کیا ہو گی اس کا اندازہ شاید ابھی کسی کو نہیں ہو رہا۔ فوری لاک ڈاؤن کے لیے بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ حکومت کو کوسنے دیئے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں لیکن کوئی بھی اس طرف توجہ نہیں دے رہا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے حکومت سے کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے قانون سازی یا آرڈیننس کے اجرا کے لیے کہا جائے۔ بہرحال سندھ حکومت نے لاک ڈائون کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان اگر واپس نہیں لیا گیا تو اب تک اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہو گا۔
امریکی کانگریس نے کورونا سے نمٹنے کے لیے قانون کی منظوری دی تو اس میں کورونا کی زد میں آنے والوں کے تحفظ اور میڈیکل ضروریات کا بھی خیال رکھا اور کورونا وائرس سے متاثرہ فرد کے لیے بیماری کی اور اس کے خاندان کے لیے فیملی چھٹی بمع تنخواہ کی منظوری دی گئی۔ کئی ملکوں میں لاک ڈاؤن کے عرصہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کا قانون منظور کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا میں حکومت نے عام آدمی کو ساڑھے7 ہزار (7500) آسٹریلوی ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ رقم ان کے میڈیکل بلز یا دیگر طریقوں سے ان کی مدد کے لیے استعمال کی جائے گی۔ اس طرح نا صرف عام آدمی کا معاشی تحفظ ہو گا بلکہ ملک کی معیشت کو بھی سست روی سے بچایا جا ئے گا اور ڈالر گردش میں رہے گا۔
ہمارے ملک میں لاک ڈاؤن کے لیے آواز اٹھانے والے معاشی حوالے سے مضبوط ہیں۔ یہ بڑی کمپنیوں اور کاروبار کے مالک ہیں یا بڑی بڑی تنخواہوں والی افسر شاہی ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ میں خطرے کی ایک معمولی نشاندہی کی گئی ہے۔ عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ حکومت کی بنائی اس دستاویز سے ممکن نہیں۔ یہ دستاویز مرتب کرنے والے عام آدمی کے مسائل کو پوری طرح نہیں جانتے۔ اس لاک ڈاؤن کے عرصہ میں حکومت کچھ اور نہیں کر سکتی تو کم از کم یوٹیلٹی بلز کو ہی منجمد کر دے تاکہ عام آدمی اپنے خاندان کے لیے بلوں کی رقم استعمال میں لا سکے۔
اگر 10 لاکھ افراد صرف پنجاب میں بے روزگار ہونے کو ہیں تو دیہاڑی دار طبقے کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو پہلے ہی اس خوف کی فضا میں آمدن سے محروم ہو چکا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران وہ کیا کھائے گا اور بچوں کو کیا کھلائے گا؟ لاک ڈاؤن کی حمایت ضرور کریں کہ یہ سب کے فائدے کے لیے ہے لیکن کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ غریبوں کو کورونا سے بچاتے ہوئے انہیں بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ لاک ڈاؤن کی حمایت میں اسلام کی تعلیمات کے حوالے پیش کئے جا رہے ہیں لیکن کیا بھوک سے مرنے پر معاشرے کی کیا ذمہ داریاں ہیں اس کا حوالہ بھی کسی کو یاد ہے؟
امام مسلم نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جِسے اُس عورت نے باندھ رکھا تھا، نہ اُسے کچھ کِھلاتی تھی اور نہ ہی کھولتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑوں مکوڑوں میں سے کچھ کھا لیتی ، یہاں تک کہ اِسی لا پروائی میں وہ بلی مر گئی (صحیح مسلم، حدیث ۹۱۶۲، کتاب التوبہ ، باب ۴ )۔ لاک ڈاؤن ضرور کریں لیکن بلی کو باندھنے والی عورت کا انجام بھی یاد رکھیں۔
کتنا عبرت کا مقام ہے کہ اللہ کو اس عورت پر ایک جانور پر ظلم کرنے، اور اُس کی حق تلفی کرنے کی وجہ سے اتنا غصہ آیا کہ اس عورت کو جہنمی قرار دے دیا، ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخرت میں ہمارا کیا حشر ہو گا جن کے سامنے جانور نہیں زندہ سلامت انسان بھوک و افلاس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کتنے ہی غیر ضروری معمولات زندگی ایسے ہیں کہ ہم ان میں ذرا سی تبدیلی پیدا کر لیں تو ہم کئی انسانوں کی کفالت کا سبب بن سکتے ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے اِیمان لانے والو جو کچھ ہم نے تُمہیں رزق دِیا ہے اُس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں کوئی تجارت نہ ہو سکے گی اور نہ ہی دوستی کام آئے گی اور نہ ہی کوئی سفارش اور انکار کرنے والے ہی (اپنی جانوں پر) ظُلم کرنے والے ہیں (سورۃ البقرۃ، آیت ۴۵۲)۔ سورۃ الذاریات کی آیت 25 میں فرمایا گیا، ''اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا‘‘۔
اسلام نے جس قدر زور حقوق العباد پر دیا ہے اس کی مثال دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ملتی، ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات کی مکمل تائید و حمایت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ دھیان بھی ضرور رکھیں کہ آپ کے آس پاس، گرد و نواح میں کسی کے بچے بھوک سے جاں بلب نہ ہو جائیں۔
ایک کروڑ ملازمتوں کے وعدے کے ساتھ آنے والی حکومت اس صورت حال میں ملازمتیں تو نہیں دے سکتی نہ ہی ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتی ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا حکومت کا کام ہے کہ کورونا وائرس کی آڑ میں آجر اپنے ملازموں کے حقوق نہ دبا لیں۔ اگر حکومت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے پہلے عوام کے لیے ریلیف کا بھی اعلان کرے۔