پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ حکومتیں اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق اس آفت سے شہریوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں‘ جن کے ہاتھ میں کچھ نہیں‘ لیکن شہریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ان کا کام ہے‘ کچھ کوتاہیوں یا منصوبہ بندی کی کمزوریوں کی نشاندہی میں لگی ہیں۔ دنیا بھر کے حکمران اپنے سیاسی مخالفین کو کورونا وائرس پر سیاست نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور یہ مشورے بعض اوقات طعن و تشنیع میں بدل جاتے ہیں۔ اپوزیشن کچھ نہ کرے تو میڈیا اسے نشانے پر لے لیتا ہے‘ مطلب سیاست ہو بھی رہی ہے اور سیاست نہ کرنے پر اتفاق بھی پایا جاتا ہے۔
ترقی پذیر ملکوں کے سیاستدان اپنے عوام اور میڈیا کے نشانے پر زیادہ رہتے ہیں اور عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ تھرڈ ورلڈ کے سیاست دانوں کو عوام اور ملکی مفاد کی نسبت سیاسی مفاد زیادہ عزیز ہیں اور وہ کسی بھی قومی چیلنج سے نمٹنے میں اتفاقِ رائے کو اہمیت دینے کی بجائے سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔ کورونا اتنی بڑی اور ناگہانی آفت ہے کہ اچھے اچھوں کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔ امریکا‘ جو دنیا بھر میں اخلاقیات کا چیمپئن بنا رہتا ہے اور دوسری ترقی یافتہ دنیا‘ جسے قائد سمجھا جاتا ہے‘ وہاں بھی کورونا کے معاملے پر اس قدر گھٹیا سیاست ہو رہی ہے کہ مجھے اپنے ملک کی سیاسی قیادت معصوم لگنے لگی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کی سہ پہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عوام پر زور دیا کہ کورونا کے مسئلے سے سیاست کو دور رکھیں لیکن یہ بات کہنے سے چند لمحے پہلے انہوں نے امریکی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر چک شومر کو ایک خط لکھا جو ان کی اس اپیل کے بالکل برعکس تھا اور کسی بھی امریکی صدر کی طرف سے ایسا خط ناقابل تصور تھا۔ وائٹ ہاؤس نے اس خط کی کاپی میڈیا کو بھی جاری کی۔
امریکی صدر کی طرف سے دراصل یہ جوابی خط تھا۔ صدر ٹرمپ نے سینیٹر چک شومر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے پبلک ریلیشن خط اور مکمل غلط معلومات کا شکریہ‘ نائب صدر مائیک پنس کورونا سے نمٹنے کی ٹاسک فورس کے انچارج ہیں اور ہر طرح سے وہ شاندار کام کر رہے ہیں‘ میں اور میری ٹیم ڈیفنس پروڈکشن آرڈر کو اربوں ڈالر کا سامان‘ میڈیکل سپلائی اور دیگر متعلقہ آئٹمز کی خریداری کے لیے مسلسل استعمال کر رہے ہیں۔ ہم نے نیویارک (کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ڈیموکریٹ حکومت والی ریاست) کو ہسپتالوں‘ میڈیکل سنٹرز‘ میڈیکل سپلائی‘ ریکارڈ تعداد میں وینٹی لیٹرز اور کئی چیزیں فراہم کی ہیں‘ جیسا کہ آپ جانتے ہیں وفاقی حکومت ریاستی حکومتوں کے لیے بیک اپ کی حیثیت رکھتی ہے‘ بد قسمتی سے آپ کی ریاست کو دیگر ریاستوں کی نسبت بیک اپ سے بھی زیادہ کی ضرورت پڑی‘ اگر آپ مضحکہ خیز مواخذے کے ڈرامے پر کم وقت صرف کرتے‘ جس کا کوئی انجام نہیں ہوا سوائے اس کے کہ میرے ووٹ بڑھ گئے‘ اور نیو یارک کے عوام کی مدد پر زیادہ توجہ دیتے‘ تو نیو یارک آج اس ان دیکھے دشمن سے نمٹنے کے لیے اس طرح مکمل طور پر بغیر تیاری کی حالت میں نہ ہوتا‘ اسی لیے یہ حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ الیگزینڈریا اوکیسیو کورتز سمیت آپ کی جماعت میں کئی لوگ دو ہزار بائیس کے الیکشن میں آپ کی جگہ سینیٹر کا امیدوار بننے کی تیاری کر رہے ہیں‘ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی جیت کے امکانات ہیں‘ آپ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ماسوائے اس کے جب آپ میڈیا کے سامنے ہوتے ہیں‘ جیسا کہ آپ نے کہا ہے کہ آپ اینڈریو کومیو (گورنر نیو یارک) کو پسند نہیں کرتے‘ آپ کو چاہئے کہ آپ ان کے ساتھ مل کر نیو یارک کے عوام کی بہتری کے لیے کام کریں‘ میں آپ کو کئی سال سے جانتا ہوں لیکن صدر بننے تک مجھے یہ علم نہیں تھا کہ بطور سینیٹر آپ ریاست نیویارک کے لیے کتنے برے ہیں‘ اگر آپ نے مزید کچھ پوچھنا ہو تو فون کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کیجئے گا۔
سینیٹر چک شومر نے کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی پر چند سوال اٹھائے تھے اور کورونا ٹاسک فورس میں شامل چند افراد سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے سامان کی تقسیم کا کام کسی فوجی افسر کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی۔ اس پر صدر ٹرمپ کا جواب کورونا کے ایشو کو سیاست سے دور رکھنے میں کتنا مددگار ہو سکتا ہے؟ میرے خیال میں خط پڑھنے کے بعد اس پر مزید روشی ڈالنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
ایک اور ایشو جس کی طرف ابھی کوئی دھیان نہیں دے رہا وہ مختلف ملکوں کی طرف سے کورونا وائرس کے اعداد و شمار چھپانے کے الزامات اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا اظہار ہے‘ امریکا تو چین پر براہ راست الزام عائد کر چکا ہے اور چین بھی اس کا بھرپور جواب دے رہا ہے‘ آسٹریلیا کے چیف میڈیکل افسر برینڈن مرفی نے جمعہ کے روز پریس بریفنگ میں کہا کہ وہ آسٹریلیا کے سوا کسی ملک کے اعداد و شمار پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں‘ کورونا وائرس کے مریض ابھی دس لاکھ ہیں لیکن یہ تعداد دنیا بھر میں ایک کروڑ یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی ملک وسیع پیمانے پر ٹیسٹ نہیں کر رہے یا ان کے پاس اس کی استعداد نہیں۔
وسطی ایشیا کے ملک ترکمانستان کے متعلق رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے یہ خبر دی کہ وہاں کی حکومت نے کورونا وائرس کا لفظ استعمال کر نے پر ہی پابندی لگا دی ہے اور فیس ماسک پہننے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے میڈیا ہاؤسز نے کوئی اور ذریعہ نہ ہونے کی بنا پر اس خبر کو مستند سمجھ کر شائع کر دیا اور پاکستان کے میڈیا نے بھی یورپی میڈیا سے لے کر اس خبر کی تشہیر کر دی۔ ترکمانستان ایک قدامت پسند مذہبی معاشرہ ہے جہاں صدر قربان علی محمدوف آہنی ہاتھوں سے حکومت کر رہے ہیں۔ ترکمانستان کو شہری آزادیوں‘ گورننس اور کرپشن کے پیمانوں پر ماپتے دنیا بھر کے انڈیکسز میں آخری نمبروں پر رکھا جاتا ہے‘ میڈیا پر کنٹرول کی وجہ سے وہاں سے خبروں کی تصدیق بھی مشکل کام ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے یہ خبر دے کر اپنی ساکھ کو متاثر کیا کیونکہ ترکمانستان کے سرکاری میڈیا میں کورونا وائرس پر رپورٹس شائع ہو رہی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ترکمانستان اب تک کورونا وائرس کے کسی مریض کی تصدیق نہیں کر رہا۔ ترکمانستان نے دنیا بھر میں اپنے شہریوں کی واپسی کے بھی اقدامات کئے ہیں؛ تاہم ترکمانستان کے حکمرانوں کا خیال ہے یہ بیرونی وبا ہے جس سے ترکمانستان ابھی تک متاثر نہیں ہوا۔
ترکمانستان کے متعلق رپورٹنگ اور چین امریکا الزام تراشی کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ مجھے یہ اندیشہ لاحق ہے کہ جلد ہی کورونا وائرس ملکوں پر پابندیوں کا نیا ہتھیار ہو گا‘ جس طرح اس سے پہلے دہشت گرد گروپ اور دہشت گردی کی وارداتیں ملکوں کو تنہا کرنے اور ان پر پابندیوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہیں۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ کورونا سے نمٹنے کی پالیسی بناتے ہوئے پالیسی ساز اس زاویہ پر بھی نگاہ رکھیں۔ لاک ڈاؤن بہت مشکل ہے اور خصوصاً غریب ملکوں میں‘ لیکن امیر ملک کورونا کے لیے ناکافی اقدامات کی آڑ میں کوئی نیا کھیل بھی رچا سکتے ہیں۔ کورونا سے نمٹنے کی پالیسی اور اس کے متعلق رپورٹنگ میں شفافیت کے ساتھ احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ کورونا سے نمٹنے کی پالیسی بناتے ہوئے پالیسی ساز اس زاویہ پر بھی نگاہ رکھیں۔ لاک ڈاؤن بہت مشکل ہے اور خصوصاً غریب ملکوں میں‘ لیکن امیر ملک کورونا کے لیے ناکافی اقدامات کی آڑ میں کوئی نیا کھیل بھی رچا سکتے ہیں۔