"IYC" (space) message & send to 7575

پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی

کورونا کی وجہ سے جب مختلف مقامات پر پبلک اجتماعات پر پابندی لگی تو پولیس افسروں نے اپنے اپنے دفاتر میں لگائے جانے والی کھلی کچہریوں کو بھی بند کر دیا۔ ایسے میں سی پی او راولپنڈی پولیس کو وٹس ایپ پر ایک درخواست موصول ہوئی۔ یہ درخواست گوجر خان کے ایک گائوں کی رہائشی ایک بیوہ خاتون کی تھی۔ اس بیوہ خاتون نے اپنی اس درخواست میں لکھا کہ وہ اپنے تین بچوں سمیت گھر میں بند ہے۔ ان کے پاس کھانے کو دو دن سے کچھ نہیں اور لاک ڈائون کے باعث وہ نہ تو باہر جا کر پیسے کما سکتی ہے اور نہ ہی بچوں کے لیے کوئی راشن لا سکتی ہے لہٰذا اس کی مدد کی جائے۔ سی پی او راولپنڈی نے یہ درخواست پڑھ کر ڈی ایس پی گوجر خان کو فون کیا اور کہا کہ فوری طور پراپنا سٹاف بھیج کر یہ تحقیق کروائی جائے کہ کیا یہ درخواست گزار خاتون سچ کہہ رہی ہے؟ دو گھنٹے کے بعد ڈی ایس پی گوجر خان نے سی پی او کو بتایا کہ یہ درخواست سو فیصد درست ہے اوراس بیوہ خاتون کے محلے داروں کے مطابق یہ انتہائی مستحق گھرانا ہے جو کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلاتا۔ سی پی او نے نہ صرف یہ کہ فوری طور پر اس خاتون کے گھرراشن بھیجوایا بلکہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سے بھی اس گھرانے کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا۔ اس ایک واقعہ کی بنا پر سی پی او راولپنڈی نے ایک ہیلپ لائن قائم کی جس پر ان کو چار ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں‘ جب ان درخواستوں کی سپیشل برانچ پولیس کے ذریعے تصدیق کروائی گئی تو ان میں سے 17سو سے زائد درخواست گزار واقعی مستحق تھے اور انہیں زندہ رہنے کے لیے راشن کی اشد ضرورت تھی‘ لہٰذا پولیس نے اپنی مدد آپ کے تحت ان افراد تک راشن پہنچانے کا بندوبست کیا اور کورونا جیسی قدرتی آفت سے لڑائی میں عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا تاثر قائم کیا۔
تقریباً دو ہفتے قبل میڈیا پر ایک تصویر نے لوگوں کی توجہ حاصل کی جس میں کراچی پولیس کا ایک اہلکار ہاتھ جوڑ کر سامنے کھڑے ایک بزرگ سے درخواست کر رہا ہے کہ کورونا کی باعث حکومت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کی پابندی کرتے ہوئے اپنے گھر میں بیٹھیں اور اس طرح سے باہر نہ گھومیں۔ یہ دو واقعات کچھ دیر کے لیے مجھے میرے بچپن میں لے گئے اور میری یادوں کے دریچوں میں ایک نغمہ گونجنے لگا‘ جس کے بول کچھ یوں تھے:؎
پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی
کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی
یہ نغمہ یا پولیس ترانہ بچپن میں بڑا مسحور کن لگتا تھا اور بچوں اور بڑوں کو کافی لبھاتا تھا‘ لیکن پھر کیا ہوا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ یہ پولیس ترانہ تو عوام کے ذہنوں سے مٹتا چلا گیا لیکن پولیس کی کالی وردی کی طرح اس کا امیج بھی سیاہ سے سیاہ تر ہوتا چلا گیا۔ اگرہم گزشتہ تین چار دہائیوں کا جائزہ لیں تو معاشرے میں ہر طرف پولیس کی زیادتوں کا شکار لوگ اپنے اپنے قصے سناتے نظر آتے ہیں‘ ہمارے ہاں پولیس کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے کبھی ذاتی مفادات کے لیے کبھی زمینوں پر قبضے کے لیے اور کبھی اپنی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لیے مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے لیے جس طرح سے استعمال کیا گیا اس کی مثال شاید دنیا کے کسی بھی ملک اور معاشرے میں نہیں ملتی۔ سیاست دانوں‘ وڈیروں‘ زمینداروں‘ سرمایہ داروں غرض یہ کہ معاشرے میں بسنے والے ہر بااثر طبقے نے پولیس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور ہماری پولیس نے شاہ سے بھی زیادہ شاہ کی وفادار ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا۔ سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسران تک ہر پولیس اہلکار نے جائز ناجائز ہر طریقے سے اپنی من پسند پوسٹنگز حاصل کیں اور پھر اس بہتی گنگا میں خوب جی بھر کے ہاتھ دھوئے۔ عوام کی نظروں میں پولیس کا کردار بد سے بد تر ہوتا چلا گیا۔ سیاسی مداخلتوں کے ذریعے پولیس کی صلاحیت اور استعداد کو موڑ دینے کا ایسا عمل شروع ہوا جو رک نہ پایا‘ پولیس کو انصاف دلانے کی بجائے ظلم کا حصہ بنانے کی شازش کی گئی۔ پولیس کی وردی کا رنگ تو تبدیل کر دیا گیا لیکن اس کے معاملات نہ بدلے جا سکے۔ 
2018 ء کے الیکشن کے بعد جب وزیر اعظم عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو ایک بار پھر یہ امید پیدا ہو گئی کہ اپنے دعوے کے مطابق شاید وہ پولیس کا امیج اور رویہ تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں‘ لیکن کیا ہوا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے‘ پنجاب میں چار پانچ آئی جی پولیس تو تبدیل ہو گئے لیکن پولیس کا رویہ بدلہ اور نہ ہی طریقہ کار۔ تھانوں میں اسی طرح سے عوام کی تذلیل روزانہ کا معمول رہی‘ مظلوم اور مجبور عوام حصولِ انصاف اور مقدمات کے اندراج کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتے رہے اور مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم ہونے کا سلسلہ بھی نہ رک سکا‘ کیونکہ الیکٹ ایبلز کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے علاقے کا تھانیدار‘ ان کے علاقے کا ایس پی اور ان کے شہر کا کوتوال ان کا تابع فرمان ہو۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی انہی الیکٹ ایبلز کے دبائو میں صوبے کے آئی جی بار بار تبدیل کرنے پڑ گئے۔ ایسے میں جی پنجاب تعینات کر دیا گیا۔ اس پر بھی بہت تنقید ہوئی اور یہ بات بھی موضوعِ بحث بن گئی کہ پنجاب جیسے صوبے میں ایک ایسے افسر کو آئی جی پنجاب کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا ہے‘ جو لوگوں سے زیادہ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتا۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ملک عزیز کو کورونا جیسے موذی مرض نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
پچھلے تیس چالیس برس سے عوام سے گالیاں کھاتی پاکستان کی پولیس‘ بالخصوص پنجاب پولیس کو کورونا میں قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار فرنٹ لائن پر کام کرتے ہوئے دیکھا تو یہ احساس ہوا کہ ہماری پولیس اتنی بھی بری نہیں بلکہ اس میں زیادہ تر لوگ اچھے ہیں۔ ایسے حالات میں جب سب کو گھروں میں بیٹھنے کی تنبیہ کی جا رہی ہے‘ پولیس اہلکاروں کو اپنے گھر میں رہنے کی اجازت نہیں۔ وہ بدستور اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں اور کسی بھی اہلکار کی طرف سے ڈیوٹی نہ کرنے کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ اگر ہم صرف صوبہ پنجاب کی بات کریں تو اس وقت ایک لاکھ 28 ہزار پولیس اہلکار کورونا سے لڑتے ہوئے اپنے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ آئی جی پنجاب نے اس مشکل وقت میں جس طرح صوبے بھر کی پولیس کو موبلائز کیا ہے اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اپنے اس اقدام سے انہوں نے ناقدین کو جواب بھی دے دیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب کے مطابق اس وقت اٹھاون ہزار پولیس اہلکار براہ راست کورونا اور سے متعلقہ امور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ لوگوں کو لاک ڈائون کے دوران گھروں میں ٹھہرنے اور باہر نہ نکلنے سے روکنے کے لیے صوبے بھر میں 3500 ناکے لگائے گئے ہیں اور اب تک پونے 4 لاکھ موٹر سائیکل سواروں‘ ایک لاکھ 50 ہزارگاڑیوں اور 7 لاکھ 50 ہزار سے زائد پیدل چلنے والے افراد کو واپس ان کے گھروں میں بھجوایا جا چکا ہے۔ اسی طرح سے 2 ہزار پولیس اہلکار ہسپتالوں اور قرنطینہ سینٹروں‘ جبکہ 2 ہزار کے قریب پولیس اہلکار کورونا کے مشتبہ مریضوں کے گھروں کے باہر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق ‘پنجاب پولیس کے 8 اور سندھ پولیس کے 6 اہلکار کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ کسی بھی حفاظتی لباس اور مناسب اقدامات کے بغیر صرف منہ پر ماسک پہنے ہمارے یہ پولیس اہلکار کورونا کے خلاف لڑنے والے ہراول دستے میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ عوام کو اس موذی مرض سے بچانے میں کوشاں ان پولیس والوں کا احساس کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ ناکوں پر پولیس اہلکاروں سے بحث بھی معمول کی بات ہے لیکن یہاں اس بات پر غور کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ یہ پولیس والے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہمیں بچانے میں کوشاں ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں