"IYC" (space) message & send to 7575

"Blessing In Disguise"

اپنے ایک دوست کے والد کے انتقال پر تعزیت کے لیے گیا اور رات گئے گھر واپسی ہوئی۔ رات معمول سے زیادہ روشن لگی۔ گھر پہنچ کر کھلی اور تازہ ہوا کے لیے کچھ دیر ٹیرس پر جا بیٹھا۔ ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالی تو آسمان پر ستاروں کی چمک بھی غیر معمولی تھی۔ ان ستاروں کو دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آ گئے جب مئی کے مہینے میں اپنے گھر کی چھت پہ سویا کرتا تھا۔ تب آسمان پر ستارے اسی طرح دمکتے دکھائی دیتے تھے۔ ستاروں کی دمک اور نسبتاً روشن رات مجھے ماضی کے دریچوں میں لے گئی اور میں سوچنے لگا کہ بچپن سے جوانی تک کا سفر بیت گیا‘ لیکن اس قدر صاف فضا اور روشن ستارے کہاں کھوئے رہے۔ وہیں گھر کے ٹیرس پر بیٹھ کر کالم لکھنے کا ارادہ کیا تو ذہن کئی طرح کے خیالات سے بوجھل تھا۔ سیاست، کورونا وائرس کی عالمی وبا، وائرس کے خوف سے گھروں میں بند انسان، وبا کے زیراثر گرتی عالمی و قومی معیشت، ان گنت فکروں اور سوچوں نے دماغ کو ماؤف سا کر رکھا تھا‘ لیکن مئی کے مہینے میں چلتی ٹھنڈی ہوا، چمکتا روشن چاند اور پورے آسمان پر پھیلے، صاف دکھائی دینے والے دمکتے ستارے اس سارے بوجھ کو اتار پھینکنے کا کہہ رہے تھے، لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اچھے موسم کا مزہ لیا جائے۔ میں نے کئی دہائیوں بعد ایسی رات اپنے ٹیرس پر دیکھی، قدرت کی یہ مہربانیاں دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ قدرت تو سدا سے مہربان ہے... صاف ہوا، میٹھا پانی، نیلا آسمان، بہتے دریا، سونا اگلتی زمین، پہاڑ، درخت اور خوبصورت موسم۔ زبان سے بے اختیار 'فَبِأَیِّ آلَائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان‘ نکلا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور ساتھ ہی سوچ میں گم ہو گیا کہ قدرت کی ان عظیم مہربانیوں کے سلسلے میں حضرت انسان نے کیا کیا۔ 
صاف ہوا کو آلودہ کر کے، میٹھے پانی کو کھارا کر کے، گندے کیمیکلز کے ذریعے زمینوں کو بنجر کر کے درخت اور جنگلات کی مسلسل کٹائی سے موسمیاتی تغیرات پیدا کر دیے‘ یعنی رب رحمان کی ان نعمتوں کی اس قدر نا شکری‘ یہ سوچ کر دل کانپ سا گیا کہ اگلے جہان جا کر جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو کیا کہیں گے کہ ہم نے تیری نعمتوں کی نا شکری کی۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ خیال آیا‘ ذرا دیکھو تو سہی۔ تھوڑا اور غوروفکر کیا‘ حساب لگایا کہ کورونا کے باعث فیکٹریاں بند ہیں، کاروباری مراکز بھی ابھی پوری طرح نہیں کھلے، سڑکوں پر گاڑیوں کا ایک سیلاب رواں دواں نہیں ہے‘ لیکن جب یہ سب ایک دم چلتے ہیں تو پھر فیکٹریوں کا دھواں، ہزاروں واٹس بجلی استعمال کرتے کاروباری مراکز کی حرارت اور گاڑیوں کے انجن کی گرمی مل کر درجہ حرارت کو آسمان تک پہنچا دیتی ہے۔ حضرتِ انسان ترقی کرتے کرتے جس مقام تک پہنچ چکا ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کی ترقی کو ریورس گیئر لگا دیا جائے‘ اسے ہر صورت آگے ہی بڑھتا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا اندھا دھند آگے بڑھنا ہے؟ سرمائے کی ہوس میں، کاغذ کے ٹکڑوں اور سونے کی ڈلیوں کی چاہت میں پوری انسانیت کا مستقبل داؤ پر لگانا ہے؟ یا پھر قدرت کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق ترقی کے راستے پر چلنا ہے؟ کیونکہ ایک راستہ بقا کا ہے اور دوسرا راستہ فنا کا۔ ہماری زندگیوں میں کورونا نہ آتا تو شاید ہمیں یہ سب کچھ سوچنے کی توفیق ہی نہ ہوتی۔ ہم تو جیسے زندگی کی لاش کو مصروفیت کے کندھے پر اٹھا کر ایسے چل رہے تھے کہ جیسے لمحہ بھر کو ٹھہرے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ وہ انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ بلیسنگ ان ڈس گائز (Blessing In Disguise)۔ مجھے کورونا کا آنا بھی ایسا ہی لگا کہ جیسے قدرت نے ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم ایک لمحے کو رک جائیں اور سوچیں کہ جو کچھ ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کر رہے ہیں کیا وہ درست ہے یا ہمیں اس کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے؟ 
زمین کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچانے والی حفاظتی تہہ یا اوزون میں کئی برس پہلے سوراخ پیدا ہو گئے تھے‘ جو زمین کی حدت میں اضافے کا سبب بن رہے تھے؛ تاہم اب آرکٹک کے اوپر موجود سوراخ بند ہو گیا ہے۔ ہماری زمین کے کرہ ہوائی یا 'سٹریٹو سفیئر‘ (stratosphere) میں موجود کیمیائی مادے اوزون کی تہہ موجود ہے جو سورج کی نقصان دہ شعاعوں کو سطح زمین تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ زمین پر ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے باعث اوزون کی اس حفاظتی تہہ کو نقصان پہنچ رہا تھا اور اس میں سوراخ پیدا ہو گئے تھے؛ تاہم اب آرکٹک کے اوپر موجود ایک سوراخ بھر گیا ہے۔
1985ء میں قطب جنوبی یا انٹارکٹکا کے اوپر اوزون کی اس حفاظتی تہہ میں ہونے والا یہ سوراخ دریافت ہوا تھا۔ اس کے دو سال بعد مونٹریال پروٹوکول میں 197 ممالک نے اس سوراخ کو مزید بڑا ہونے سے روکنے کے لیے کلوروفلورو کاربن جیسے کیمیکلز کو استعمال نہ کرنے پر اتقاق کیا۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتیں بند ہیں‘ جس کی کے سبب زہریلی گیس کا اخراج نہیں ہو رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زہریلی گیس پھیلانے والی لاکھوں فیکٹریاں بند ہونے سے زمین کو سانس لینا کا موقع مل گیا جس کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں پڑنے والا شگاف خود بخود بھر رہا ہے۔ ماحولیات پر نظر رکھنے والے ماہرین متعدد بار خبردار کرچکے ہیں کہ زہریلی گیس کاربن مانو آکسائیڈ فضا میں موجود آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کا کاربن کرہ ارض اور انسانوں کی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے اور اس کی وجہ سے ہی اوزون پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ 
ایک عالمی رپورٹ کے مطابق چین کے شہر ووہان، جہاں سے یہ وائرس شروع ہوا تھا‘ ایک صنعتی حب ہے جہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ تھی۔ اب لاک ڈاون کے بعد وہاں کی فضائی آلودگی میں اکیس اعشاریہ پانچ فیصد کمی آ چکی ہے اور یہ عددی اطلاع خود چائنیز منسٹری آف ایکالوجی اینڈ اینوائرنمنٹ نے دی ہے۔ اس کمی کی اصل وجہ مقامی طور پر سٹیل اور تیل کی پیداوار میں کمی اور اندرون ملک فلائٹ آپریشن معطل ہونا ہے۔ اس کے علاوہ ناسا کی سیٹلائٹ امیجز سے پتہ چلتا ہے کہ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ میں بھی یہاں کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح وینس اٹلی میں سیاحت میں کمی آنے کی وجہ سے وہاں کا آلودہ پانی صاف ہو چکا ہے جس کی بدولت اب وہاں مچھلیاں اور دوسری آبی حیات تیرتی نظر آتی ہے، جو کہ پہلے نہیں نظر آتی تھی۔ نیویارک میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق وہاں 25 فیصد کاربن مانو آکسائیڈ کا لیول کم ہوا ہے۔ یہ صرف ٹریفک کے کم ہونے سے ہوا ہے۔ اسی طرح کولمبیا یونیورسٹی کے مطابق وہاں کاربن مانو آکسائیڈ کا لیول 20 فیصد کم ہوا ہے۔ یوں فضائی آلودگی میں کمی ہوئی ہے۔ اٹلی، فرانس، سپین میں بھی ٹریفک بہت کم ہونے کی وجہ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کا لیول بھی بہت کام ہو چکا ہے۔
پاکستان میں فضائی اور ماحولیاتی حوالوں سے بہت زیادہ ریسرچ کا کام میڈیا کی نظروں میں نہیں آتا۔ شاید ہمارے میڈیا کے لیے ماحولیات کوئی اہم موضوع بھی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیات کے حوالے سے اس قدر کام ہو رہا ہے کہ اب سکولوں کے بچے بھی عالمی مہم کا حصہ ہیں اور سویڈن کی ایک طالبہ گریٹا تھنبرگ اس حوالے سے عالمی مہم کا چہرہ بن چکی ہے۔ گریٹا تھنبرگ کی عمر محض 15 برس تھی جب وہ سکول جانے کے بجائے سویڈن کی پارلیمان کے باہر مظاہرے میں بیٹھ گئیں اور عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ ماحول دوست اقدامات کریں۔ گریٹا تھنبرگ آج بھی اپنی مہم سے دستبردار نہیں ہوئیں۔ پاکستان میں بھی اس شعور کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچے اور نوجوان اپنے حکمرانوں سے سوال کریں کہ وہ ان کے لیے کیسا ملک اور مستقبل چھوڑنے والے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں