اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں کی گئی تقریروں کے بعد خفیہ ملاقاتوں کا ایک پینڈورا باکس کھل گیا۔ تقریروں اور خفیہ ملاقاتوں کا شور اب تک کم نہیں ہوا۔ اس شور کی گونج کم کرنے اور ایک صفحے پر ہونے کے تاثر کو دوبارہ پختہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی چینلز کے نیوز ڈائریکٹر صاحبان کو اسلام آباد بلا کر بتایا کہ اپوزیشن کی عسکری افسروں کے ساتھ ملاقاتیں ان کے علم میں ہوتی ہیں۔ اس طرح وزیر اعظم نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ملاقاتیں کرنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا کیونکہ یہ ملاقاتیں انہیں اعتماد میں لے کر کی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لیے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کی تقریر حکومت اور فوج میں اختلاف ڈالنے کی کوشش تھی کیونکہ انہیں تکلیف ہے کہ فوج میری پالیسیوں پر چلتی ہے۔ ایک طرح سے وزیراعظم نے یہ جتانے کی کوشش کی کہ وہ بااختیار ہیں اور انہیں کٹھ پتلی کہنے والے کسی بھول کا شکار ہیں۔
وزیراعظم کی اس گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی جماعت اور اندازِ حکمرانی کی کمزوریوں کا بھی ادراک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنے بیانات اور پالیسیوں سے یوٹرن کا دفاع کیا بلکہ اپنی کابینہ کے چند ارکان کے سنگل وکٹ کھیل کا بھی اعتراف کیا اور کہا: ہماری کابینہ میں ایسے بھی وزرا ہیں جو اپنی طرف گول کر دیتے ہیں، ہر جماعت میں اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے، سیاسی جماعتوں میں نظم وضبط بنانا ممکن نہیں۔ یہ اعتراف دراصل ایک تگڑے وزیر کی طرف اشارہ بھی لگتا ہے جو ان دنوں ملاقاتوں کے سکرپٹ عام کرنے کے دعوے کرتے پائے گئے لیکن پھر انہیں بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ مذکورہ وزیر نے یہ بھی کہا تھاکہ جب وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ ملنے کو تیار نہیں تو کسی نے تو ملاقات کرکے معاملات چلانا ہیں۔ یہ واقعی اپنی ہی ٹیم کی گول پوسٹ پر ایک حملہ تھا جسے کپتان نے روکنے کی کوشش کی لیکن اب ڈیمج کنٹرول کی کوششیں بے وقت کی راگنی ہیں جو نقصان ہونا تھا ہو چکا۔ وزیراعظم نے خفیہ ملاقاتوں کا علم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ملاقات گلگت بلتستان میں سکیورٹی کے حوالے سے تھی۔ آنے والے دنوں میں گلگت بلتستان کے حوالے جو بھی فیصلے ہونے کو ہیں ان کی ذمہ داری اس بیان کے ساتھ وزیراعظم نے اپنے سر لے لی ہے اور مقتدرہ کی طرف سے فیصلوں کے تاثرکو رد کیا ہے۔ وزیراعظم کا بیان یا دعویٰ ریکارڈ پر آ گیا ہے اور آنے والے دنوں میں یوٹرن کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ وزیراعظم نے افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تمام پالیسیوں کو بھی اون کیا۔
اب تک کی سب سے فرینڈلی اپوزیشن نے سرگرمیاں شروع کیں تو کپتان کی کابینہ اس قدر بوکھلا گئی کہ اپنی ہی گول پوسٹ پر دھڑا دھڑ حملے شروع کر دیئے۔ یہ سرگرمی چند روزہ نہیں تھی‘ لمبا عرصہ چلے گی کیونکہ اپوزیشن سسٹم کو ختم کرنے کے بجائے سسٹم میں رہ کر اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی ہے اور اس کا ہدف سینیٹ الیکشن ہیں۔ اپوزیشن کو اندازہ ہے کہ موجودہ حالات میں اگر سینیٹ الیکشن ہوئے تو بلوچستان سے تمام نشستیں اس کے ہاتھ سے جاتی رہیں گی جبکہ پنجاب کی نصف نشستیں بھی پی ٹی آئی کے قبضے میں چلی جائیں گی۔ حکومتی ٹیم سمجھ نہیں پا رہی کہ اپوزیشن کی اس مہم کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ جو تجزیہ کار اپوزیشن کو استعفے نہ دینے کے طعنے دے رہے ہیں‘ انہیں وقت آنے پر سرپرائز بھی مل سکتا ہے۔ ابھی تک اگر اپوزیشن کو کچھ سہارا ہے تو سینیٹ نشستوں کی وجہ سے ہے۔ اگر سینیٹ اپوزیشن کے ہاتھ سے نکلتی ہے تو اس کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اپوزیشن کی تحریک میں جن مسائل پر عوام کو باہر نکلنے کو کہا جا سکتا ہے وزیر اعظم نے ان پر بھی بات کی۔ سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور اشیا ضروریہ کی عدم دستیابی ہے۔ وزیراعظم نے ان معاملات پر کارروائی کا دعویٰ کیا اور ساتھ ہی مہنگائی کے جواز بھی پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ شوگر مافیا سے نمٹ رہے ہیں‘ جس طرح چینی کی قیمتیں بڑھی ہیں ہم ایکشن لے رہے ہیں، ہم آئندہ اس طرح مافیا کو چینی کی قیمتیں نہیں بڑھانے دیں گے، ادویات کی قیمتیں بڑھائی ہیں تاکہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہوں، 15 سال سے زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں نہیں بڑھیں جس کی وجہ سے زندگی بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہو گئی تھیں، اب قیمتیں بڑھائی ہیں تاکہ مارکیٹ میں سپلائی بہتر ہو۔ وزیر اعظم نے ادویات کی قیمتیں بڑھنے کا جو جواز پیش کیا اسے عوام کس طرح قبول کریں گے؟ اس جواز سے اتفاق ممکن نہیں کیونکہ دائمی مریضوں اور ان کی نگہداشت کرنے والے اہلخانہ کو علم ہے کہ قیمتیں کتنی بار بڑھ چکی ہیں اور کتنے ہفتوں یا مہینوں کے بعد ان کا میڈیکل بل بڑھ جاتا ہے۔
آٹا اور دیگر اشیا ضروریہ کی عدم دستیابی پر بھی وزیراعظم نے ذمہ داری صوبوں پر ڈالی اور کہا کہ 18ویں ترمیم میں زرعی شعبہ صوبوں کو دے دیا گیا جو نہیں دینا چاہیے تھا، گزشتہ سال گندم کی پیداوار کم ہوئی جس کا ہمیں بتایا بھی نہیں گیا۔ 18ویں ترمیم کے تحت زرعی شعبہ صوبوں کو دینے کی مخالفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس کے بارے میں کوئی قانون سازی ہو سکتی ہے اور یہ قانون سازی غالباً سینیٹ الیکشن میں اکثریت ملنے کے بعد کی جائے گی۔ آئین میں ترمیم کے جو منصوبے اور خاکے ماضی میں پیش کئے جاتے رہے ہیں ان پر عمل کا وقت قریب آ رہا ہے اور اپوزیشن بھی اس کی پیش بندی کررہی ہے۔
وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ کی تشکیل کے 75 سال مکمل ہونے پر جنرل اسمبلی اجلاس ہورہا ہے‘ لیکن کورونا وبا کی وجہ سے یہ پچھلے اجلاسوں سے بہت مختلف ہے۔ اس بار لیڈرز نیویارک میں جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے بجائے ورچوئل شرکت کررہے ہیں۔ بین الاقوامی سفارتکاری کا ایک بڑا پلیٹ فارم ایک طرح سے نیم فعال ہے اور ہر سال ستمبر میں ہونے والی سفارتی سرگرمیاں ماند ہیں۔ عالمی رہنما سال کے اس مہینے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں لیکن اس سال یہ موقع انہیں دستیاب نہیں ہو سکا اور ریکارڈڈ خطابات سے کام چلانا پڑا۔ جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب میں جس قدر کشمیر پر بات کرنے کی ضرورت تھی شاید وزیر اعظم نے اتنی بات نہیں کی۔ میرے خیال میں ان کا زیادہ فوکس کشمیر اور ایف اے ٹی ایف سے متعلق کئے گئے اقدامات پر ہونا چاہئے تھا۔ ریکارڈڈ خطابات کے لیے دورانیہ پہلے سے طے کردیا گیا تھا۔ شاید اس وجہ سے وزیراعظم زیادہ تفصیل سے ان ایشوز پر بات نہیں کر پائے۔ وزیراعظم نے کورونا وبا کی روک تھام کے لیے پاکستان کے اقدامات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی بات کی۔ کچھ اہم ایشوز وزیراعظم کی تقریر سے مسنگ تھے جیسے افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار اور مستقبل، اسرائیل اور عرب دنیا کے گرمجوش ہوتے تعلقات، یہ موضوعات نہ صرف حساس ہیں بلکہ پاکستان اور اس کی خارجہ پالیسی میں مرکزی اہمیت بھی رکھتے ہیں۔ اس خطاب سے یوں لگا‘ وزیراعظم کی تقریر یورپ کے لیے تھی اور وہ خود کو ایک ریفارمسٹ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا اس کے مخاطب مختلف تھے لیکن ٹی وی چینلز کے نیوز ڈائریکٹرز سے گفتگو ان کے ووٹرز کے لیے تھی۔ اپوزیشن کی سرگرمیاں بڑھنے کے بعد وزیراعظم بھی عوامی ریلیوں کی طرف جا سکتے ہیں اور اس کیلئے وہ اپنے ووٹرز کو تیار کر رہے تھے۔ اس بات کا اشارہ بھی دیا اور کہاکہ اپوزیشن جماعتیں مولانا فضل الرحمن کو ساتھ رکھتی ہیں کیونکہ ان کے پاس لوگ نہیں، میں نے پاکستان میں سب سے زیادہ سٹریٹ پاور استعمال کی۔ اگلے چند ہفتوں میں دونوں طرف سے سٹریٹ پاور متحرک کئے جانے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔