"IYC" (space) message & send to 7575

جس تن لاگے، سو تن جانے

ہمارے وزیر اطلاعات شبلی فراز ایک خاندانی اور شریف آدمی ہیں۔ بطور وزیر اطلاعات اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لینا اور حکومتی ترجمانی کرنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود وہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ مشکل سے مشکل بات بھی بڑی آسانی سے کہہ جاتے ہیں۔ جن پریس کانفرنسز میں دیگر وزرا ان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے خلاف سخت سے سخت ریمارکس دیتے ہیں‘ ان میں وزیر اطلاعات اپنا وقت خاموشی سے کاٹ لیتے ہیں؛ تاہم 6 اکتوبر کو حکومتی کارکردگی پر ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کے ایک جملے نے دل بہت دکھایا۔ حکومت کی معاشی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے تمام ''کارہائے نمایاں‘‘کو اجاگر کرتے رہے لیکن جاتے جاتے یہ بھی کہہ گئے کہ مہنگائی کے علاوہ تمام اشاریے مثبت ہے۔ اب اسے ہم ان کی صاف گوئی سمجھیں یا ان کی سادگی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام مہنگائی کے جس کرب اور درد سے گزر رہے ہیں‘ یہ وہی جانتے ہیں۔ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے حکمران یہ دکھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وزیر اطلاعات کی زبانی معیشت کے ''مثبت اشاریوں‘‘ کے ساتھ مہنگائی کے 'بر سبیل تذکرہ‘ نے مجھے فرانس کی ایک ملکہ کی یاد دلا دی۔ انقلاب فرانس سے قبل جب بُھک مری اور ٹیکسز کی بھرمار سے تنگ شہریوں نے محل کے سامنے احتجاج کرنا شروع کیا تو بالکنی کے پاس ٹہلتی اس ملکہ نے ایک دربان سے دریافت کیا کہ یہ گندے لوگ کیوں احتجاج کر رہے ہیں‘ تو دربان نے ڈرتے ڈرتے ملکہ کو جواب دیا کہ یہ سب بھوکے لوگ ہیں اور روٹی مانگ رہے ہیں۔ اس پر زمینی حقائق سے دور محلوں میں بسنے والی ملکہ نے بڑی حیرانی سے کہا تھا کہ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں۔ دربان نے اس نامعقول جواب پر ایک بار نظریں اٹھا کر ملکہ کی جانب دیکھا اور کہا ''جی درست فرمایا آپ نے‘‘ لیکن اس نے دل میں ایک بار یہ ضرور کہا ہو گا ''جس تن لاگے سو تن جانے‘‘۔ ہمارے حکمرانوں کے مسائل بڑے بڑے ہیں۔ وہ فی الحال ان چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھنا نہیں چاہتے کہ اس ماں کے دل پر کیا بیتتی ہو گی جس کے بچے بھوک سے بلکتے سو جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ روزگار کی تلاش میں سڑک پر بیٹھے کسی غریب باپ کی آنکھوں میں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کا خواب دم توڑ رہا ہے اور وہ آتی جاتی گاڑیوں میں سکول جاتے بچوں کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہے۔ متوازن غذا، صاف پانی، تعلیم، موسموں سے تحفظ دینے والی چھت اور ایک محفوظ روزگار ہر پاکستانی کا حق ہے‘ لیکن 73 برس بیت گئے‘ آج بھی کروڑوں اہل وطن ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ متوازن غذا تو درکنار ایک وقت کی روکھی سوکھی بھی میسر نہیں ہے۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ گندا پانی پینے کی وجہ سے موذی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ بنا چھت کے کھلے آسمان تلے موسموں سے لڑ رہے ہیں۔ وطنِ عزیز میں لگ بھگ ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ 
ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے آنے والی تحریک انصاف اب تک لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کر چکی ہے۔ روزگار دینا تو درکنار پہلے والا بھی چھین لیا گیا‘ جس کا اعتراف ہمارے وزیر اطلاعات نے معیشت کے مثبت اشارے بتاتے ہوئے کر دیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے سوائے مہنگائی کے۔ پہلے سنا کرتے تھے کہ دال روٹی کھا کر گزارہ ہو جاتا ہے‘ غریب آدمی پیاز سے روٹی کھا لیتا ہے‘ اب تو دال اور پیاز بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ جاری ہے اور ستمبر کے آخری ہفتے میں بھی ٹماٹر، پیاز، آٹا، چینی، مرغی اور انڈوں سمیت 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق جولائی سے ستمبر تک مہنگائی کی شرح 8 اعشاریہ 85 فیصد رہی لیکن ستمبر میں مہنگائی کی شرح 9 اعشاریہ 04 فیصد پر پہنچ گئی، ایک ماہ میں ٹماٹر کی قیمت 40 فیصد اور دیگر سبزیوں کی قیمتیں 35 فیصد تک بڑھیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پیاز کی اوسط قیمت 11 روپے 55 پیسے فی کلو بڑھی جبکہ ٹماٹر کی قیمت میں 9 روپے 88 پیسے فی کلو کا اضافہ ہوا۔ ادارہ شماریات ہی کے مطابق دال مونگ 3 روپے 19 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی اور دال مونگ کی اوسط قیمت 243 روپے 52 پیسے فی کلو رہی، جبکہ ستمبر کے آخری ہفتے کے دوران چینی اور آٹے کی قیمتوں میں بھی اضافہ جاری رہا اور ایل پی جی کا ساڑھے 11 کلو کا گھریلو سلنڈر 10 روپے تک مہنگا ہوا‘ لیکن اصل حقائق زیادہ تکلیف دہ ہیں ادارہ شماریات کی مہنگائی کی کل شرح پر دی گئی رپورٹس میں تقریباً ڈیڑھ سے دو فیصد کا مارجن رکھا جاتا ہے۔ یہ 9 فیصد مہنگائی دراصل 11 فیصد سے زائد ہے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم لوگوں کو سستی روٹی دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا‘ لیکن کیا کریں کہ حکمرانوں کے مسائل بہت بڑے ہیں۔ انہیں فرصت ہی نہیں۔ وہ غدارانِ وطن سے نمٹیں یا ان غریبوں کے مسائل سے۔ لیکن جن مثبت اشاریوں اور زرمبادلہ کے ذخائر پر تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات پھولے نہیں سما رہے تھے‘ ان کی ایک جھلک ہمارے پاس بھی ہے۔ 
2020-21 کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارے میں 2.02 فیصد اضافہ ہوگیا۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2020 سے ستمبر تک تجارتی خسارہ 5 ارب 80 کروڑ ڈالر رہا جبکہ گزشتہ برس اسی عرصے میں تجارتی خسارہ 5 ارب 68 کروڑ ڈالر تھا‘ یعنی 12 لاکھ ڈالر کا خسارہ ''مثبت‘‘ہے۔ جولائی سے ستمبر تک برآمدات کا حجم 5 ارب 45 کروڑ ڈالر رہا۔ گزشتہ برس اسی عرصے میں برآمدات کا حجم 5 ارب 51 کروڑ ڈالر تھا۔ جولائی سے ستمبر تک برآمدات میں 0.94 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ جولائی سے ستمبر تک درآمدات کا حجم 0.56 فیصد بڑھ کر 11 ارب 26 کروڑ ڈالر رہا۔ برآمدات اور درآمدات کا یہ عدم توازن بھی ''مثبت‘‘ہے؟ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں کے دوران 14 کھرب روپے سے زائد کے اضافے کے بعد جون 2020 کے آخر تک پاکستان کے واجب الادا قرضوں کا حجم 44 ہزار 563 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق جون2020 کے آخر تک پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کا 106 فیصد ہے‘ جو باعثِ تشویش امر ہے‘ لیکن ہمارے وزیر موصوف کے مطابق ہم اس کو بھی ''مثبت‘‘ اشاریہ ہی سمجھیں گے؛ البتہ ان ''مثبت‘‘اشاریوں میں سچ مچ کا حکومتی کارنامہ یہ ہواکہ اس تمام گراوٹ، تجارتی خسارے اور ہوشربا قرض کے باوجود حکومت مالی سال کی ابتدائی سہ ماہی میں ہدف سے 34 ارب زائد ٹیکس وصول کرنے میں کامیاب رہی۔ حکومت اس شاندار کامیابی پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے غربت کے ہاتھوں مرے ہوئے عوام کی رگوں سے مزید خون نچوڑ لیا کیونکہ ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا سارا نزلہ عام آدمی پر ہی گرتا ہے۔ ویسے بھی یہ حکومت ہے کوئی رابن ہُڈ تو نہیں جو امیروں سے لے اور غریبوں کو دے اور سب جانتے ہیں اس حکومت کے مسائل عام آدمی کے مسائل سے بڑے ہیں۔ شبلی فراز کے والد محترم احمد فراز کے بقول: 
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں