"IYC" (space) message & send to 7575

ماضی کے قصے

اس وقت دنیا میں ایک بار پھر اسلاموفوبیا کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جانے یہ کیسا جنون ہے جو کیپٹلسٹ سسٹم کے حاملوں کے سر سے اتر ہی نہیں پا رہا۔ یورپ مسلسل اسلامی شعائر پر حملہ آور ہے‘ گستاخیاں در گستاخیاں، فرانس ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں ان گھٹیا ترین منصوبوں کو سرکاری شہ حاصل رہتی ہے۔ گستاخانہ خاکے بنانے والے کتنے ہی ملعون، اللہ کی پکڑ کا شکار ہوئے۔ دنیا اور آخرت میں ملامت اور عبرت ان کا مقدر ٹھہری۔ اس بد بختی کا سلسلہ ان ملعون نسلوں میں جاری ہے۔ نام نہاد آزادیٔ اظہار کے ملک فرانس کا جریدہ چارلی ایبڈو اس سے قبل 2006ء اور 2011ء میں بھی یہ ناپاک جسارت کر چکا ہے۔ ایک بار پھر اس گستاخی پر جہاں دو ارب کے لگ بھگ مسلمان غم اور غصے میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ وہاں فرانس کا منافق صدر ایمانوئل میخواں اس رسالے کی مذمت کرنے کے بجائے اسے آزادیٔ اظہار قرار دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یورپ کا یہ نام نہاد آزادیٔ اظہار ہولوکاسٹ کے ذکر پر کیوں ایکشن میں آتا ہے اور کیوں یہ اس پر بات کرنا گناہ تصور کرتا ہے؟ فرانس میں ان گستاخیوں کی تاریخ پرانی ہے۔ آج سے تقریباً ایک سو پچیس برس پہلے بھی فرانس نے گستاخانہ تھیٹر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس حوالے سے اخبارات میں خبریں شائع کرائی گئیں۔ اس وقت سلطنت عثمانیہ کا وجود باقی تھا۔ ترکی میں خلیفہ عبدالحمید ثانی کو خبر ہوئی۔ اگرچہ اس وقت سلطنت عثمانیہ کمزور ہو چکی تھی اور فرانس ایک مضبوط معاشی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھر چکا تھا‘ لیکن عبدالحمید ثانی نے تاریخی جملے ادا کئے، وہ بولے: اگر وہ میری گستاخی کرتے تو میں برداشت کر لیتا لیکن اگر وہ خاتم الانبیاﷺ کی شان میں گستاخی کریں گے تو میں جیتے جی مر جائوں گا‘ میں تلوار اٹھائوں گا، ان کی دنیا تباہ کر دوں گا‘ یہاں تک کہ نبیﷺ کے نام پر میری جان فدا ہو جائے، جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں‘ لیکن قیامت کے دن مجھے نبی آخرالزماںﷺ کے سامنے شرمندگی نہیں ہو گی۔ انہوں نے جنگی لباس پہنا، تلوار اٹھائی‘ فرانس کے سفیر کو طلب کیا اور اسے ملک بدری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ فرانس ہم سے جنگ کے لئے تیار رہے، اپنے بحری بیڑے قسطنطنیہ کے ساحل سے ہٹائے۔ ایمانی طاقت کی اس للکار نے فرانس کو تھیٹر منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا تھا‘ لیکن آج پورے عالم اسلام کے حکمرانوں میں شاید عبدالحمید ثانی سے آدھا جذبہ بھی نہیں‘ جو فرانس کو للکار سکے‘ ان ملعونوں کو ان کی زبان میں سمجھا سکے۔ ترکی کی صدر اردوان کے سوا کسی حکمران کو فرانس کی حکومت کے لئے سخت لہجہ اختیار کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ عوامی سطح پر فرانس کے بائیکاٹ کی مہم اس وقت تک کسی قسم کے نتائج پیدا نہیں کر سکتی جب تک تمام مسلم حکومتیں ریاستی سطح پر اور مشترکہ طور پر یہ اصولی فیصلہ نہ کر لیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات میں گھرے کمزور حکمرانوں کو صرف اپنے اقتدار کے دوام سے غرض ہے۔ شاید وہ سوچتے ہیں کہ کہیں امریکا اور یورپ ناراض ہو گئے تو یہ تخت چھن نہ جائے۔ مغرب کا نام نہاد جمہوری نظام صدیوں پر محیط ہونے کی وجہ سے مستحکم ہے لیکن اس کا اصل مکروہ چہرہ دوسرا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کم و بیش ایک صدی پہلے فرما دیا تھا: 
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندورں چنگیز سے تاریک تر
حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا لا دین اور لبرل کلچر انسانیت کے نام پر دھبہ ہے۔ مغرب خود کو تہذیب کا علم بردار سمجھتا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بد قسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران بالخصوص اور عوام الناس بالعموم اس مرعوبیت میں مبتلا ہیں کہ واقعی مغرب میں ہر چیز معیاری اور قابلِ رشک ہے۔ اسی لئے پُھسپھسے بیانات دئیے جا رہے ہیں اور گھگھیاتی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی مارک زکر برگ سے درخواست کی ہے کہ فیس بک سے گستاخانہ مواد ہٹایا جائے۔ اب آگے اس کی مرضی قبول کرے کہ نہ کرے۔ ریاستی سطح پر اس معاملے پر ہماری سنجیدگی اور جذباتی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی میں گستاخانہ خاکوں پر متفقہ قرارداد لانے سے قبل اپوزیشن اور حکومت آپس میں دست و گریباں نظر آئیں۔ خواجہ آصف اور شاہ محمود قریشی مذمتی قرارداد لانے کے معاملے پر ظرف کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ ارے بھائی قرارداد کوئی بھی لاتا اصل مقصد تو فرانس کی حکومت کو یہ باور کرانا تھا کہ ایسے شخصی آزادیٔ اظہار کو پٹہ ڈالے جس سے پورے عالم کے کم و بیش دو ارب مسلمانوں کا خون کھول جائے۔ ممکن ہے جب فرانسیسی سفیر نے اپنی حکومت کو رپورٹ بھجوائی ہو تو اس میں ہمارا مزید تمسخر اڑایا گیا ہو۔ 
اس موقع پر سیاسی معاملات پر کج بحثی کی گئی کہ حکومت نے مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑا، آئی جی کو اغوا کیا، ان کے درجنوں ارکان اپوزیشن سے رابطہ کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خواجہ آصف کو بھرپور جواب دیا اور خوب بولے۔ کہا کہ ان میں مودی کی روح حلول کر گئی ہے، ایک سال دم دبا کر بیٹھے رہے، مک مکا کرتے رہے، جب مک مکا ختم ہو گیا تو آج جمہوریت جاگ اُٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کی آزادی کے نعرے لگے، آئینی اداروں پر حملے کیے گئے، آئی جی کے اغوا کا ڈراما کیا گیا، حکومت تین جلسیوں سے مرعوب نہیں ہو گی، ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکتی ہے۔ اس بحث کے بعد قرارداد پیش اور منظور کی گئی۔ کیا ایسی قراردادوں کو سیریس لیا جا سکتا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن اس بات پر لڑتی رہیں کہ ان کی قرارداد کو منظور کرایا جائے اور اس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جاتی رہی۔ اس اہم معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے رویے کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قومی معاملات میں کس قدر سنجیدہ سوچ کے حامل ہیں۔ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر شروع ہو چکی ہے‘ تین دن کے اندر کوئٹہ اور پشاور میں 14 معصوم لوگ شہید ہو گئے، اور لگ بھگ 100 افراد زخمی ہیں۔ دونوں دھماکے یکساں نوعیت کے تھے۔ دونوں ٹائم ڈیوائس لگا کر کئے گئے‘ یعنی دہشت گردوں کا نیٹ ورک اتنا وسیع ہے کہ ایک دن کے وقفے سے دو صوبائی دارالحکومتوں میں تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ہم ایک حکومت، سکیورٹی اداروں اور بے شمار وسائل اور معلومات رکھنے کے باوجود انہیں روکنے سے قاصر ہیں۔ عام آدمی ایک طرف بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں عدم تحفظ کا شکار ہے‘ دوسری جانب یہ دہشت گردی کا عفریت اگر پھر سے لوٹ آیا توعوام کہاں جائیں گے؟ ہم جس زوال زدہ معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کے ذمہ دار یہاں کے حکمران ہیں‘ جو صرف مفادات کی جنگ لڑنا جانتے ہیں۔ ارب پتی حکمرانوں کو اپنے ذاتی مفاد سے بڑھ کر کوئی شے عزیز نہیں۔ اس وقت پورا عالم اسلام ایسے ہی حکمران طبقات کے شکنجے میں ہے، جنہیں عوام کے سیاسی، معاشی اور مذہبی تحفظ سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک دوسرے کو قصے سمیٹنے کی دھمکیاں دینے والے حکمران یاد رکھیں کہ ان کے قصے بھی تاریخ سے سمیٹ دئیے جاتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں