"IYC" (space) message & send to 7575

آخری راستہ

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو نے پی ڈی ایم کے مستقبل پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ پی ڈی ایم کے فورم سے مسلم لیگ ن کا جو بیانیہ سامنے آیا‘ اسے سب سے زیادہ ڈسکس کیا گیا اور جس پر سب سے زیادہ بات کی گئی وہ نوازشریف کی تقاریر تھیں۔ 20 ستمبر کو پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف علی زرداری کے بعد میاں محمد نواز شریف نے تقریرکی، اس کو میڈیا پر براہ راست دکھایا گیا۔ محمد نواز شریف نے کئی اہم شخصیات پر کرپشن کے براہ راست الزامات عائد کئے۔ گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے جلسوں میں بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے اور سخت زبان کا استعمال کیا گیا؛ البتہ کراچی کے جلسے میں، جس کی میزبان پیپلز پارٹی تھی، اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ نواز شریف خطاب نہ کریں‘ لہٰذا مسلم لیگ ن کی طرف سے کہا گیا کہ ان کی نمائندگی مریم نواز کریں گی۔ 
اس وقت یہ قیاس کیا گیا تھا کہ یہ درخواست پیپلز پارٹی کی طرف سے کی گئی ہے کہ ان کی میزبانی میں ہونے والے جلسے سے نواز شریف خطاب نہ کریں۔ تب سیاسی تجزیہ کاروں کی یہی رائے تھی کہ پیپلز پارٹی اس سارے معاملے سے اپنا دامن بچا کے رکھنا چاہتی ہے اور وہ کسی بھی ایسی مہم کا حصہ نہیں بنے گی جس کا مقصد کسی فرد یا ادارے سے متصادم ہونا ہو۔ مزار قائد پر نعرے بازی کے الزام میں کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی گرفتاری سے لے کر سندھ پولیس کی مبینہ ہرتال کے معاملے تک جو کچھ بھی ہوا اس نے مزید کئی سوال چھوڑ دیے۔ اس کے فوراً بعد بلاول بھٹو نے گلگت بلتستان کی مہم پر جانے کا اعلان کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ کہا گیا کہ یہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کی ترجیح پی ڈی ایم کی تحریک ہی تھی کیونکہ یہ دونوں جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ 2018 کا الیکشن چوری کیا گیا کیا‘ اور اس چوری کی ذمہ دار مقتدرہ ہے۔ فی الحال ان دونوں جماعتوں کا موجودہ سسٹم میں کوئی سٹیک بھی نہیں ہے‘ لہٰذا ان دونوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ دوسری جانب پی ڈی ایم اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی حکومت ہے، وہ سینیٹ میں ڈپٹی سپیکر کا عہدہ بھی رکھتی ہے‘ تو ایسے میں اگر گلگت بلتستان میں کامیابی مل جائے تو پیپلز پارٹی کا ریاست اور موجودہ سسٹم میں سٹیک بڑھ جائے گا بلکہ وہ سسٹم کے بڑے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بہتر انداز میں بات چیت کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ اس لیے بلاول بھٹو نے ترجیحاً پی ڈی ایم کے جلسوں کے تسلسل کے بجائے گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کا انتخاب کیا اور کوئٹہ کے جلسے میں وڈیو لنک سے خطاب کیا۔ پی ڈی ایم کے کوئٹہ کے جلسے میں جو تقریریں کی گئیں‘ وہ بہت خطرناک تھیں۔
ان تقریروں میں جو لہجہ اور گفتگو کا طریقہ کار اختیار کیا گیا اورعسکری قیادت پر جس طرح براہ راست الزامات لگائے گئے اس سے یہ واضح محسوس ہو رہا تھا کہ مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ دوسری جماعتوں کے لئے شاید اس بیانیے کے ساتھ چلنا مشکل ہو جائے۔ پھر یہ بھی کہا جانے لگا کہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی اس بیانیے کو اٹھانے اور نہ اٹھانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اسی کوئٹہ کے جلسے کے رد عمل میں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ایسے میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کا یہ بیان سامنے آیا کہ جو لوگ اس بیانیے کا وزن نہیں اٹھا سکتے وہ پارٹی چھوڑ دیں۔ انہوں نے یہ بیان پارٹی کے حق میں دیا یا پھر ایسے لوگوں کو اشارہ دیا کہ وہ پارٹی چھوڑ کر چلے جائیں جو پارٹی کے اندر اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔
اس بیان نے صورتحال کو مزید مشکوک بنا دیا۔ شاہد خاقان عباسی کے اس بیان نے ایک طرف یہ بات واضح کر دی کہ پارٹی کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بیانیے سے مختلف رائے اور خیال رکھتے ہیں‘ دوسری طرف ایسے میں جب پارٹی کے اندر اس طرح کی منقسم رائے موجود ہو تو دیگر جماعتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آپ کے بیانیے کے ساتھ ہاں میں ہاں ملائیں گی ایک غیر منطقی سی بات ہو گی۔ کراچی کے جلسے میں نوازشریف کے خطاب کا نہ ہونا اس بات کا عندیہ تھا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کے اس براہ راست الزامات بیانیے سے الگ سوچ رہی ہے حالانکہ پیپلزپارٹی بھی 2018 کے الیکشن سے متعلق کم و بیش اسی طرح کی گفتگو کرتی ہے لیکن اس کا انداز ذرا مختلف ہے۔ اسی بات کا اظہار اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ بھی یہی بات کرتے ہیں‘ لیکن وہ فوجی قیادت پر براہ راست الزامات کے حامی نہیں۔ بلاول بھٹو کے مطابق پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں یہ طے ہوا تھاکہ کسی ایک ادارے کا نام لینے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی وسیع اصطلاح استعمال کی جائے گی۔ 
پی ڈی ایم کے ایجنڈے کی تیاری کے وقت مسلم لیگ ن نے عسکری قیادت کا نام نہیں لیا تھا‘ لیکن نواز شریف کی گوجرانوالہ تقریر میں قیادت کا نام لے کر الزام لگانے سے انہیں دھچکا لگا تھا۔ عمومی طور پر اس طرح کی باتیں جلسوں میں نہیں کی جاتیں۔ اس لئے بلاول بھٹو نے واضح کر دیا ہے کہ یہ نہ تو پیپلز پارٹی کی قرارداد ہے، پوزیشن ہے اور نہ ہی ان کا مطالبہ ہے۔ بادی النظر میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے اس بیانیے سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کیا اور اس کی حمایت نہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو نے نہ صرف اس بیانیے سے علیحدگی اختیار کی ہے بلکہ ایک قدم آگے جا کر ایک ایسی سیاسی چال چل دی ہے جس سے پورے کا پورا وزن مسلم لیگ ن پر آن پڑا ہے۔ بلاول کا کہنا ہے کہ نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے اور جو الزامات وہ لگا رہے ہیں‘ وہ انہوں نے بغیر ثبوت کے نہیں لگائے ہوں گے۔ وہ انتظار کریں گے کہ نواز شریف کب تک یہ ثبوت پیش کریں گے۔ بلاول بھٹو نے اس انٹرویو کے ذریعے مسلم لیگ ن کے بیانیے کو بند گلی میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق امکانی طور پر آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کا اتحاد پہلے جیسا جوش و جذبہ برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ 
اس لیے مسلم لیگ نون کو اپنے راستے اس اتحاد سے جدا کرنا پڑیں گے‘ لیکن میں ذاتی طور پر ایسا نہیں سمجھتا، سیاسی اتحاد چند نکات پر متفق ہو کر ہی بنتے ہیں اور ان میں شامل سیاسی جماعتوں کے مختلف ایشوز پر اختلافات ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ پی ڈی ایم ابھی اسی طرح سے چلے گا مگر اس میں شامل جماعتوں کو بہرحال آئندہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابل ہی لڑنا ہے۔ شاید اسی صورت حال کے پیش نظر مسلم لیگ ن نے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ بادی النظر میں ان حالات میں مسلم لیگ ن کے لئے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ مریم نواز اپنے والد اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے بیانیے کو کس انداز میں لے کر چلتی ہیں اور اپنے چچا اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے بیانیے کے حامیوں کو کس طرح ساتھ چلاتی ہیں، بہت اہم ہو گا۔ پارٹی کے اندر مختلف آرا کی موجودگی میں اس مہم کی کامیابی کے امکانات بھی محدود ہو سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں