''نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کر دیں تو میں کل ہی استعفا دے دوں گا‘‘ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو یہ چیلنج کیوں دیا؟ اس کا بہتر جواب تو وزیراعظم خود ہی دیں سکتے ہیں۔ 'نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘ کے مصداق وزیراعظم کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ یہ دونوں کام ہی نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو 2018ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور حالیہ مہنگائی کی بنا پر مستعفی ہونے کے لیے دی گئی مہلت 31 جنوری کو ختم ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ عمران خان کو عزت کے ساتھ ہٹنے اور صاف شفاف انتخابات کے ذریعے جمہوری عمل کو جاری رکھنے کا موقع دیا؛ تاہم 'سلیکٹڈ‘ وزیر اعظم پی ڈی ایم کی ڈیڈ لائن تک استعفا دینے میں 'ناکام‘ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے وزراء اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ سے استعفوں کے اپنے فیصلے پر عمل نہیں کر سکے۔ اپوزیشن کے ارکانِ پارلیمان نے قیادت کو استعفے جمع ہی نہیں کرائے ۔ اس لئے حکومتی رہنما پی ڈی ایم کی وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر اپوزیشن سے سوال کر رہے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ سے مستعفی کب ہوں گے؟ حکومت کو وقتی خوشی میں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پی ڈی ایم اگرچہ حکومت کو گرانے میں ناکام رہی ہے‘ استعفے لے اور دے نہیں سکی‘ لیکن ابھی وہ لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے دستبردار نہیں ہوئی۔ آنے والے دنوں میں اس طرح کی حکمت عملی حکومت کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اپنے اراکین اسمبلی سے 31 جنوری تک استعفے پارٹی قیادت کو جمع کروانے کی ہدایت کر رکھی تھی۔ اپوزیشن اتحاد نے اپنی آئندہ حکمت عملی کیلئے آج (4 فروری) سربراہی اجلاس بلا رکھا ہے جس میں لانگ مارچ اور پارلیمنٹ سے مشترکہ طور پر مستعفی ہونے کی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر بندوق متحدہ اپوزیشن کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس ''کٹھ پتلی‘‘کو زبردستی نکالنا ہو گا۔ اس لئے امکانی طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آج کے پی ڈی ایم اجلاس میں لانگ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک پر بات چیت نتیجہ خیز ہو گی۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ حکومت کی مایوسی واضح ہے‘ حکمران قوانین بدل کر سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی شکست دیکھ رہے ہیں‘ سینیٹ انتخابات کے نتائج سے حکومت کو شدید صدمہ پہنچ گا۔ کیا بلاول بھٹو ایک بار پھر وہی کھیل کھیلنے کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہے ہیں جو پچھلی بار سینیٹ میں کھیلا گیا تھا؟ جو کچھ بلوچستان حکومت کو گرانے کیلئے کیا گیا؟ کیا اب اس کا ایکشن ری پلے ہوگا؟
لیکن بلاول بھٹو زرداری یہ بتانا پسند کریں گے کہ کیا یہ سب کچھ نصرتِ غیبی کے بغیر ممکن ہوا تھا؟ اور کیا اب پیپلزپارٹی تنہا کوئی ایسا سرپرائز دینے کی اہلیت رکھتی ہے؟ دوسری جانب بلاول بھٹو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ سیاسی جنگیں اب سیاست دانوں کے لیے چھوڑ دیں یا پھر تنازعات کا حصہ بنتے رہیں۔ بلاول بھٹو کو یہ احتمال ہے کہ اگر امکانی طور پر ان کی یہ کوشش ناکام ہوئی تو وہ اس کا مدعا اسٹیبلشمنٹ پر ڈال سکیں۔ ناکامی کی صورت میں یہ کہا جا سکے گا کہ اگر تحریک انصاف کی مدد نہ کی جاتی تو پیپلز پارٹی بہت بڑا سرپرائز دے سکتی تھی۔ نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سے اترنے کے بعد عمومی خیال یہ تھا کہ نون لیگ کی حکومت چند دن کی مہمان ہے۔ اس وقت بھی فوج کے ترجمان کی جانب سے یہ بیان بڑا خوش آئند تھا کہ ان کا ادارہ کسی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنے گا۔ اب بھی فوج کے ترجمان کی جانب سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ہر جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کسی غیر جمہوری اور غیر آئینی مطالبے کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ حکومتی وزراء، وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کے پی ڈی ایم کے مطالبے کو متعدد بار رد کرچکے ہیں۔ حکومتی رہنماؤں کے مطابق اپوزیشن وزیر اعظم سے استعفا مانگنے کا اخلاقی جواز ہی نہیں رکھتی۔ اگر اپوزیشن پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا حق استعمال کرتی ہے تو ضمنی انتخابات کروائے جائیں گے‘ بصورت دیگر انہیں اسی تنخواہ پر گزارہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے اپوزیشن کو سیاسی نابالغ قرار دیا ہے‘ جو ایک دن کہتے ہیں دھرنا دیں گے‘ دوسرے دن لانگ مارچ کا کہتے ہیں اور تیسرے دن اسمبلی سے استعفوں کی بات کرتے ہیں‘ لیکن آخر میں واپس اسی پرانے مقام پر آ کھڑے ہوتے ہیں‘ جہاں سے چلے تھے۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے مطابق پی ڈی ایم کو 4 فروری کے اجلاس کو ''فول اپوزیشن ڈے‘‘ کے طور پر منانا چاہئے۔ حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ اپوزیشن حکومت گرانے کیلئے پوری طرح تیار نہیں تھی۔ پی ڈیم ایم نے اسمبلیوں سے استعفے کا فیصلہ اس بنیاد پر کیا تھاکہ سینیٹ کا الیکٹورل کالج ٹوٹ جائے اور ایوان بالا کے انتخابات نہ ہونے کے باعث پارلیمنٹ نامکمل رہ جائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے اپنا مؤقف پیش کیا‘ جو بعد ازاں پارٹی کا موقف ٹھہرا کہ استعفے دینے سے الیکٹورل کالج نہیں ٹوٹتا۔ اس پر بحث کے بعد ثابت ہوا کہ استعفے دینے سے سینیٹ کا انتخاب نہیں رکے گا۔
پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام( ف) نے بادل نخواستہ اس مؤقف کو قبول کیا۔ اسی بنیاد پر پی ڈی ایم نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی کیونکہ ایسا نہ کرنے سے حکومت کو سینیٹ میں دوتہائی اکثریت حاصل ہو جاتی اور ملک میں صدارتی نظام لا نے کی راہ ہموار کی جا سکتی تھی۔ مسلم لیگ ن کی خواہش ہے کہ 4 فروری کے پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں لانگ مارچ کی تاریخ پر اتفاق ہو جائے اور اسلام آباد میں پہنچ کر دھرنا بھی دیا جائے۔ لیگی رہنماؤں کے مطابق پیپلز پارٹی لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے پر تحفظات رکھتی ہے۔ مسلم لیگ ن اب استعفوں کا آپشن اس وقت استعمال کرنا چاہتی ہے جب عوام سڑکوں پر ہوں تاکہ حکومت کو ضمنی الیکشن کی طرف جانے کا موقع نہ دیا جائے‘
لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر اترنے سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام جماعتیں بھرپور طریقے سے اپنے ورکرز، ووٹرز اور سپورٹرز کی ایک بڑی تعداد کو ملک کے ہر کونے سے لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کریں۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہوکہ سینیٹ الیکشن کے نتائج بھی اس مارچ کے تعین میں اہم ہوں گے۔ اگر اپوزیشن واقعی بڑا سرپرائز دینے میں کامیاب ہوگئی تو شاید عوام پی ڈی ایم کے بدلتے مؤقف اور ناکام حکمت عملیوں کو نظرانداز کرکے سڑکوں پر آنے کیلئے راضی ہو جائیں۔ اس اجلاس میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ لانگ مارچ کا رخ کس طرف ہوگا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ 31 جنوری کی ڈیڈلائن گزرنے کے بعد اپوزیشن فیصلہ کرے گی کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے گا یا پھر راولپنڈی کی طرف۔ اس پر پاک فوج کے ترجمان نے کہا تھاکہ پی ڈی ایم کا راولپنڈی کی طرف مارچ کا جواز نہیں بنتا‘ لیکن اگر وہ آئیں گے تو انہیں چائے پیش کی جائے گی۔ اگر آج پی ڈی ایم کوئی واضح فیصلے نہ کر سکی تو اس کیلئے اپنی رہی سہی ساکھ بچانا مشکل ہو جائے گی۔