اپوزیشن کی سیاست کیا رخ اختیار کر رہی ہے؟ یہ سوال اب ملین ڈالر سوال کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔ کیا پی ڈی ایم کی تحریک کامیاب ہو جائے گی؟ کیا عمران خان صاحب اپنے پانچ سال پورے کر پائیں گے؟ کیا ملک کا مستقبل جمہوریت ہی ہے یا پھر یہاں پر ایک بار پھر کوئی دوسرا نظام لایا جائے گا؟ یہی نہیں لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا موجودہ جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اپنی اسمبلیوں میں سے ہی کوئی نیا بندوبست تو نہیں کیا جا رہا؟ آج جب میں یہ کالم لکھنے کے لیے بیٹھا تو ایک عام پاکستانی کی طرح میرے ذہن میں بھی یہ تمام سوالات اٹھ رہے تھے؛ چنانچہ میں نے سوچا کیوں نہ ایک ایک کر کے ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ان حوالوں سے کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں اپوزیشن کی سیاست کی۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ اپوزیشن کی سیاست کیا رخ اختیار کر رہی ہے؟ اس حوالے سے میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات میں 'سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کا لانگ مارچ، پھر اسمبلیوں سے استعفے اور پھر سابق صدر آصف علی زرداری نے ان ہاؤس تبدیلی کے لیے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کو قائل کر لیا، جیسی خبریں بھی شامل ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر سیاسی مبصرین کچھ اس طرح کے تجزیے ہی پیش کر رہے ہیں۔ ایسے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تبدیلی ہے کیا؟ جیسا کہ موجودہ حکومت کے قیام کے لیے جو بندوبست کیا گیا تھا‘ کوئی ایسی تبدیلی یا پھر نظام کی تبدیلی؟ ویسے تو ملک عزیز پاکستان میں تقریباً ہر طرح کا نظام آزمایا جا چکا ہے مگر روایتی طور پاکستان میں دو ہی نظام حکومت رہے ہیں۔ پہلا آمریت اور دوسرا جمہوریت یا پھر کنٹرولڈ جمہوریت۔
پہلا نظام حکومت یعنی آمریت اس ملک میں مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے کئی بار طویل عرصے تک آزمایا جا چکا ہے۔ اب بھی ایک طبقہ یہی چاہتا ہے کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور یہاں وہی نظام آ جائے جس کے تحت ہم اپنی قومی زندگی کی کئی دہائیاں گزار چکے ہیں۔ یہ لوگ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ اس بحث میں پڑے بغیر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں اس نظامِ حکومت کی گنجائش کس حد تک موجود ہے۔ مارشل لاء یا آمریت کے نفاذ کے لئے 3 طرح کے حالات کا جائزہ لینا لازمی ہوتا ہے۔
پہلا‘ بین الاقوامی رد عمل، دوسرا‘ اندرونی حالات اور تیسرا‘ ملک کے معاشی حالات۔ ایسے کسی اقدام کے نتیجے میں بین الاقوامی رد عمل کیا ہو گا‘ یہ میانمار (برما) میں جاری صورت حال سے جانچا جا سکتا ہے‘ جہاں فوجی جنتا نے آنگ سان سوچی کی کنٹرولڈ جمہوریت کو چلتا کیا‘ لیکن اب ان کا اپنا چلنا مشکل ہو چکا ہے۔ امریکا نے سول بندوبست لپیٹنے والے تمام کرداروں پر پابندی لگا دی ہے اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں باقی رکن ممالک سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پابندیوں میں اس کا ساتھ دیں۔ اس اجلاس میں چین نے امریکی مطالبے کی مخالفت کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ برما میں حالات ویسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں یعنی چین کی جانب سے بھی برما یا میانمار میں جمہوری حکومت کے خاتمے اور آمریت آنے پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ برما میں برسوں آمریت برداشت کرنے والے عوام اس بار سڑکوں پر نکل آئے ہیں‘ ڈاکٹروں نے کورونا وبا کے باوجود ہڑتال کر رکھی ہے، اساتذہ، سیکرٹریٹ ملازم اور انجینئر بھی ہڑتال پر ہیں‘ اور تو اور بدھ بھکشو بھی اس احتجاج میں شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت ایسے کسی ایڈونچر کے لیے حالات سازگار نہیں۔ سول سوسائٹی اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ ماضی میں اس ملک میں وکلا تحریک نے آمریت کا مقابلہ کیا تھا‘ جس کے بعد عوام کو اندازہ ہوا کہ مزاحمت مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ اب سوشل میڈیا کے دور میں کسی تحریک کا پوری طرح سے بلیک آؤٹ بھی ممکن نہیں رہا۔ باقی رہ گئی تیسرے اور سب سے اہم پہلو یعنی ملکی حالات کی بات تو پاکستان کے معاشی حالات میں کوئی بھی اپنی ذاتی اور ادارے کی ساکھ داؤ پر لگانے کی نہیں سوچے گا‘ ایسے میں نظام کی تبدیلی تو ممکن نظر نہیں آتی۔ ملک کے معاشی حالات بھی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ یہاں نظام کی تبدیلی کا کوئی تجربہ کیا جائے۔
اب بات ہو جائے ان ہاؤس تبدیلی کی، ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے جائزہ لیں تو اس کے لئے بھی بنیادی بطور پر تین وجوہات ہوتی ہیں۔ ان تین وجوہات میں سے ایک وجہ بھی دکھائی دے تو ان ہاؤس تبدیلی کی صورت بن سکتی ہے۔ پہلے ہم باری باری ان تینوں وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
دنیا کے کسی بھی معاشرے یا ملک میں ان ہاؤس تبدیلی کی صورت اس وقت ہی کامیاب ہوتی ہے جب وہاں کے حکمران اتنے کمزور ہو جائیں اور عوام میں اتنے غیر مقبول ہو جائیں کہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی اپنی قیادت کے خلاف ہو جائیں اور اس سے جان چھڑوانا چاہیں۔ اس پس منظر میں اگر ہم وزیر اعظم عمران خان کی قیادت اور ان کی حکومت کا جائزہ لیں تو ابھی تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف، پارٹی چیئرمین عمران خان کا ہی دوسرا نام ہے تو شاید غلط نہ ہو گا‘ عمران خان کو تحریک انصاف سے الگ کر لیں تو باقی کچھ نہیں بچتا۔
تھرڈ ورلڈ کنٹریز یا ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ان ہاؤس تبدیلی کی کامیابی یا نا کامی کا دار و مدار ''امپائر‘‘ کی مرضی پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ امپائر اگر جانب دار ہو جائے تو ان ہاؤس تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہمارے ہاں امپائر جانب دار کیوں ہو گا؟ امپائر کو اس وقت جانب دار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسی صورت حال میں تیسرا اور ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ امپائر جانب دار نہ ہو مگر 100 فی صد غیر جانبدار ہو جائے یعنی اس کے لئے حکومت اور اپوزیشن دونوں برابر ہو جائیں اور وہ سب کو فری ہینڈ دے دے‘ لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا ان ہونی ہو گئی ہے کہ موجودہ حکومت‘ جس کو اپوزیشن امپائر کا اپنا ''بندوبست‘‘ قرار دے‘ اس کو گرانے کے لئے امپائر کیوں غیر جانب دار ہو گا؟
ان حالات میں پھر صرف ایک ہی صورت بچتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری شاید انہی خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اپوزیشن جماعتوں کو طاقت ور حلقوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ جو تعاون آپ سے وزیر اعظم کر رہے ہیں ویسا ہی تعاون بلکہ اس سے بھی کچھ بڑھ کے‘ ہم آپ سے کریں گے، اس یقین دہانی پر مکمل اعتماد ہو جانے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گڈ گورننس کے کھوکھلے نعروں کے باعث موجودہ حکومت کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت اور قابو سے باہر نکلتے ہوئے معاشی حالات کے باعث طاقت ور حلقے کوئی نیا بندوبست کرنے کا سوچ لیں۔